کہتے ہیں کہ خود بوڑھے ہو جاؤ کہ ہر کسی نے آخر ہونا ہی ہے مگر زندگی بھر اپنے کام، کاروبار اور معمولات کو جوان رکھو۔ انہیں کبھی بوڑھا نہ ہونے دو تاکہ ان کے ساتھ ساتھ بڑھاپے میں بھی مستعد رہو۔ استاد جی کہا کرتے تھے، اوئے پتر 16سال کی لڑکی یا لڑکے کو کسی بناؤ سنگھار اور میک اپ کی ضرورت نہیں ہوتی، جوانی خود ہی سب سے بڑا بناؤ سنگھار اور میک اپ ہے ، ویسے بھی میک اپ کی ضرورت تو ڈھلتی جوانی میں پڑنا شروع ہوتی ہے۔ جو اپنے کام کو جوان رکھتے ہیں وہ خود بھی جوان رہتے ہیں۔ بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ ابلاغیات میں چیٔرمین ڈاکٹر شہزاد علی نے پرنٹ میڈیا کو درپیش مسائل کے حوالے سے ایک خوبصورت نشست کا اہتمام کیا جس کی صدارت وائس چانسلر زکریا یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر منصور اکبر کنڈی نے کی جبکہ شرکائے مذاکرہ میں نوائے وقت کے سابق ریذیڈنٹ ایڈیٹر جبار مفتی، ظفر آھیر، ڈی جی پی آر سے سجاد جہانیہ،سرکاری نیوز ایجنسی سے جہانگیر ترین اور راقم الحروف شامل تھے۔ پروفیسر ڈاکٹر منصور اکبر کنڈی نے ہلکے پھلکے انداز میں بڑی قیمتی اور رہنمائی سے بھر پور گفتگو کی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ گھرانے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر کنڈی نے بھی اوائل عمری میں کالم نگاری کی۔ انہوں نے بتایا کہ 1982ء میں کوئٹہ سے موٹر سائیکل پر ڈیرہ اسماعیل خان جاتے ہوئے راستے میں موسم خراب ہوا اور شدید بارش شروع ہو گئی تو وہ پناہ کی خاطر وہاں سڑک بنانے والی کمپنی کے سکیورٹی گارڈ کے پاس رک گئے۔ سرائیکی بولنے والے سکیورٹی گارڈ نے انہیں کہا کہ سفر بہرحال ایک مشقت ہوتی ہے اس لئے مسافر کو حوصلہ بلند رکھنا چاہئے۔ فوک وزڈم کے حوالے سے مذکورہ سکیورٹی گارڈ کی بات انہیں تب دوبارہ یاد آئی جب ڈاکٹر کنڈی کو برطانیہ میں دوران تعلیم بتایا گیا کہ ایک باعلم اور تجربہ کار شخص کا لیکچرہے جس نے زندگی میں بہت زیادہ ٹریولنگ کی ہے۔ اس اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص نے سفر کے حوالے سے مختلف سوالات کا جواب دیتے ہوئے وہی بات ذرا پالش کرکے خوبصورت انداز میں کہہ دی جو اس سکیورٹی گارڈ نے کہی تھی کہ سفر میں مسافر کو حوصلہ بلند رکھنا چاہئے اور پینک نہیں ہونا چاہئے۔
ڈاکٹر کنڈی نے کہا کہ اس سکیورٹی گارڈ نے تو لاہور بھی نہیں دیکھا تھا مگر ذہانت کسی کی محتاج نہیں۔ ماضی کے دریچوں کو وا کرتے ہوئے ڈاکٹر کنڈی نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے سے کہا کہ وہ بہت ویژنری آدمی تھے اور انہوں نے اس خطے کو ،جسے سرائیکی کہتے ہیں، تین بڑی یونیورسٹیاں دیں جن میں گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان، ملتان یونیورسٹی اور بہاول پور یونیور سٹی جن کے نام بعد میں تبدیل ہو کر بہائالدین زکریا یونیورسٹی ملتان اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور ہو گئے۔ بھٹو نے یہ تینوں یونیورسٹیاں اس مطالبے کے جواب میں دی تھیں جو ان سے جنوبی پنجاب کے علاقوں پر مشتمل علیحدہ صوبے کے حوالے سے کیا گیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ بھٹو نے کہا تھا نئے صوبے بنانا ایک مشکل کام ہے البتہ میں ایسے کام کر جاوں گا جو ان علاقوں کو بدل کر رکھ دیں گے اور اسی میں چشمہ رائیٹ بنک کینال کا منصوبہ بھی شامل تھا۔ بھٹو چشمہ رائیٹ بنک کینال کیلئے 750 کیوسک پانی کی منظوری دے رہے تھے مگر اس وقت کے وزیراعلیٰ مفتی محمود ایک ہزار کیوسک کا مطالبہ کرتے رہے۔ مفتی صاحب اپنی جگہ درست تھے مگر بھٹو کا موقف تھا کہ پنجاب بڑا اور طاقتور صوبہ ہے لہٰذا ابھی جو ملے قبول کر لیا جائے۔ بعد میں چشمہ رائیٹ بنک کینال کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا جن کا بعد میں مولانا مفتی محمود کو بھی رنج رہا تاہم بھٹو اس خطے کو تین یونیورسٹیوں کا تحفہ دے گیا۔ ڈاکٹر کنڈی نے خوبصورت باتیں کیں اور وقت کی قلت کے باوجود وہ اپنے تجربے کے موتی طلبہ و طالبات میں باٹتے رہے۔ جبار مفتی نے پرنٹ میڈیا کا خوبصورت انداز میں احاطہ کیا اور اخباری صنعت کی مشکلات پر گفتگو کی۔ ظفر آھیر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ابلاغ تو حفرت آدم کی تخلیق ہی سے شروع ہو گیا تھا اور ابلاغ اپنی پوری قوت سے جاری ہے۔ ابلاغ کمزور ہو ہی نہیں سکتا البتہ ابلاغیات سے منسلک لوگ کمزور ہو چکے ہیں۔ ہماری یوتھ کی اکثریت کیلئے اردو لکھنا تو درکنار اب تو پڑھنا بھی مشکل ہو رہا ہے۔ ہم کس کو قصوروار قرار دیں تاہم ایک بات ذہن میں رکھیں کہ منزلیں انہیں ملتی ہیں جو سفر کے لئے نکلتے ہیں۔ شرکائے مذاکرہ نے اخبارات کی گرتی ہوئی سرکولیشن کے حوالے سے بھی اپنے اپنے موقف سے طلبہ و طالبات کو آگاہ کیا۔ اخبارات کی اہمیت کے حوالے سے اس کالم نگار کا موقف یہ تھا کہ جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے قلم کی قسم کھائی ہو اور قرآن مجید لکھی ہوئی شکل اور ایسی صورت میں موجود ہو کہ رب کائنات نے اس کی حفاظت کا ذمہ خود اٹھایا ہو تو پھر قلم اور قرطاس کی اہمیت میں کمی کیسے ہو سکتی ہے۔ آج بھی وہ طالب علم جس نے اخبار نہ بھی پڑھا ہو اسے مقابلے کے امتحان اور اپنے جنرل نالج میں اضافے کیلئے اخبارات پڑھنا ہی پڑتے ہیں کہ 20 روپے کے اخبار میں جتنی معلومات اور مختلف قسم کا میٹریل ہوتا ہے وہ اور کہیں نہیں ملتا۔ ہم ایک ہزار روپے کا پیزا منٹوں میں کھا جاتے ہیں اور فیملی کے ساتھ بازار کا ایک چکر لگ جائے تو برگر آئس کریم پردو تین ہزار خرچ کر دیتے ہیں مگر ہمیں اخبار کا 30 دن کا 600 روپے کا بل زیادہ لگتا ہے۔ ویسے بھی پاکستان کے ہر شہر میں آپ کو کبابوں کی درجنوں نہیں سینکڑوں دکانیں باآسانی مل جائیں گی مگر درس کتابوں سے ہٹ کر کلاسیکل اور ادبی کتابوں سفر ناموں کی دکانیں شائد دوچار سے زائد نہ ہوں۔ جس معاشرے میں اس طرح کی صورتحال ہو وہاں پھر کتاب نہیں کباب ہی غالب رہیں گے اور کتابی ماحول پر کبابی ماحول ہی کا غلبہ رہے گا۔ یہی وہ وجوہات ہیں کہ ہمارے پیٹ اور توندیں بڑھتی جبکہ دل و دماغ سکڑتے جا رہے ہیں اور دماغ سے سوچنے والے پیٹ سے سوچنے لگ جاتے ہیں۔ یقین نہیں آتا کہ یہ وہی پنجاب ہے یہاں 180 سال پہلے اسی رنجیت سنگھ کے دور میں جسے مورخین نے نہ جانے کس دباؤ یا مجبوری کے تحت علم دشمن قرار دیا مگر اس کے دور حکومت میں اسی پنجاب میں تعلیم کی شرح 95 فیصد سے زائد تھی اور علم و ادب کی فراوانی تھی۔ کہتے ہیں کہ مسجد مندر گوردوارہ یا کلیسا اس وقت تک قائم ہی نہیں ہو سکتا تھا جب تک کہ اس سے ملحقہ اسی مذہب کا تعلیمی مدرسہ نہ بنایا جائے۔ ہم اس بدقسمت قوم سے تعلق رکھتے ہیں جس کی نوجوان نسل کیلئے اسکی قومی زبان ہی بوجھ بن گئی ہے۔ایک نجی ٹی وی چینل کے رپورٹنگ روم میں ایک جرنلسٹ لڑکی نے آ کر رپورٹرز سے کہا کہ کسی کے پاس سر سید احمد خان کا فون نمبر ہے تو مجھے دے دیں۔ میری ڈیوٹی لگی ہے کہ سر سید احمد خان پر پیکج بنائوں اس لئے میں نے سوچا کہ ان سے فون پر وقت لے لوں۔ اسکی بات سننے والا رپورٹر بھی کاریگر تھا۔ کہنے لگا کہ اس کیلئے تو آپ کو انڈیا میں علی گڑھ یونیورسٹی کے قبرستان رابطہ کرنا پڑے گا جو وہاں مدفون ہیں۔
چیئرمین شعبہ ابلاغیات زکریا یونیورسٹی ڈاکٹر شہزاد مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ایک خوبصورت مذاکرے کا اہتمام کیا اور شعبہ ہذا کے طلبہ و طالبات نے بھی پوری دلجمعی اور دلچسپی سے تمام شرکا کے مذاکرہ کو سنا۔ خوش آئند بات ہے کہ پاکستان میں یونیورسٹیاں اب پریکٹیکل ایجوکیشن کا پورشن بڑھاتی جا رہی ہیں۔ ویسے بھی اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کو دیکھا جائے تو ان کی تربیت کا دورانیہ چالیس سال اور اس تربیت کی روشنی میں عمل درآمد کا دورانیہ 21 سال ہے۔ پھر ایسی تربیت جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرشتوں کے سردار حضرت جبرائیل کے ذریعے کی۔ نبی پاک کی حیات طیبہ ہی تو ہمارے لئے نمونہ ہے تو پھر ہمیں بھی تربیت کا دورانیہ دو گنا کرنا ہو گا۔ زکریا یونیورسٹی میں 2 مارچ کو بلوچ کلچرل ڈے کے حوالے سے خوبصورت پنڈال سجایا گیا تھا جہاں بلوچ طلبہ انتہائی خوبصورت انداز میں بلوچی رقص کر رہے تھے۔ انہوں نے خوبصورت روائتی پگڑیاں پہن رکھی تھیں اور بلوچ کلچر کی رواداری کے حوالے سے بہترین پروگرام ترتیب دیا گیا تھا۔ وہاں سٹال بھی لگائے گئے تھے جہاں ہاتھ کی بنی بلوچی اشیاء اور لباس رکھے گئے تھے کیا خوبصورت ماحول اور کیا اخلاص و مروت۔ اللہ پاکستان کے اس گلدستے کے تمام پھولوں کو تاقیامت کھلا اور شاداب رکھے ۔