انشاء تو اپنے یارکی یہ جوڑ توڑ دیکھ

سیاسی زندگی میں پراسیسز اور پالیسیاں بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہیں جمہوریت کا پراسیس بھی اسی طرح ہے کہ جیسے مٹی میں بیج بونا اور پھر اسکے درخت بننے کا انتظار کرنا۔ اب درخت بننے کے بھی کئی مراحل ہیں جیسے کہ بہترین نشونما ،صبروتحمل، برداشت ،دیکھ بھال، حفاظت اور انتظار۔ نوشیرواں عادل کو ایک ناتواں شخص بھی یہ بات سمجھاگیا کہ درخت لگاؤ تاکہ اگلی نسلیں فائدہ اٹھائیں۔ بڑے بڑے مفکرین دانشور اور تھنک ٹینک یہ بات سمجھا سمجھا کر عاجزآگئے کہ جو بوؤگے وہ کاٹو گے۔جہاں بدنظمی انتشار ذاتی مفادات اور خود غرضی کا وائرس آیا ترقی کی شاہراہ پر استحکام کاگھوڑا بدک گیا اور جو گھوڑا بدک گیا وہ ادھر ادھر دوڑنے لگا ۔ایک پروگرام کی ریکارڈنگ کے دوران جب ایک غریب کوچوان سے ترقی کے بارے میں سوال کیاگیا تو وہ بولا کاہے کی ترقی جی عوا م تو ایک بے زبان جانور ہیں جس کو لاٹھی سے ہانکا جائے تو سرپٹ دوڑنے لگتا ہے یہ نہیں دیکھتا کہ سردی ہے گرمی ہے بس دوڑتا رہتا ہے مجھے مظہرالاسلام کی کہانی گھوڑوں کے شہرمیں اکیلا آدمی یاد آگئی جس میں ایک بدکاہوا گھوڑا سرپٹ دوڑتارہتا ہے تمام خلقت اسے سدھارنے پرتلی ہوئی ہے۔خلقت تو عمران خان کو ہٹانے پربضد ہے ۔ حکومت پر مہنگائی غربت اور معاشی عدم استحکام کے الزامات عائد کررہی ہے اور اپوزیشن کے نزدیک اگلے اڑتالیس گھنٹے اہم ہیں ۔ ان گھنٹوں کے بعد سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ ملک خوشحال ہوجائیگا ۔ ادھرحکومت کی یہ صورتحال یہ ہے کہ جغرافیے کی کلاس میں جیسے معیشت کاپرچہ تھمادیاجائے۔ مہنگائی سمیت دیگر مسائل کا لامتناہی سلسلہ پھیلا ہوا ہے۔ وقت اورموسم کا ٹمپریچر دیکھتے ہوئے حکومت نے جہا ںعوام کوکچھ ریلیف پیکج دیا ہے وہاں اتحادیوںسے رابطے بھی تیز کردئیے جوکہ انہیں بہت پہلے کرنا چائیے تھا اسوقت غیر یقینی کی صورتحال کایہ عالم ہے کہ دانشور بھی بوکھلا گئے ہیں کہ کیا نتیجہ نکلے گا ٹاک شوز میں ایک تجزیہ نگار دعوی کررہاہے کہ الٹی گنتی شروع ہوچکی جبکہ دوسرے کادعوی کہ حکومت کہیں جاتی دکھائی نہیں دے رہی ۔عمران خان کھیل کے آدمی ہیں جانتے ہیں کھیل سیاست اور موسم کسی وقت بھی بدل سکتے ہیں۔ ہمارے قائد نے توفرمایاتھاکہ سیاست شطرنج کی مانند ہے جہاں ہر چال کو بڑے ٹھنڈے دل اور دماغ سے اورمہارت سے چلنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔1980 کی سیاست کے بعد سے سیاست نے کئی رخ بدلے انتشار جوڑ توڑ کو فروغ ملا بقول ابن انشا
 تجھ سے جو اس نے توڑی توجوڑی رقیب سے
 انشاء تو اپنے یارکی یہ جوڑ توڑ دیکھ
اب سوال یہ کہ اس جوش وخروش کے نتائج بھی نکلیں گے یاکہ پانی میں مدھانی والی بات ہوگی اور حکومت گرابھی دی گئی تو ہمارے پاس کونسی اہل قیادت ہے یا الہ دین کا چرغ ہے کہ ہم آناًفاناً تمام معاملات درست کرلیں ۔پروین شاکر نے اپنی ایک نظم میں لکھاکہ بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے اگر اسی تناظر میں دیکھاجائے تو ہمارے عہد کے جن بھی چالاک ہوگئے ہیں اگرکسی جن کی خدمات لے بھی لی جائیں تو اس نے یہ کہہ کرپلا چھڑا لینا ہے کہ میں جن ہوں سیاست دان نہیں ۔ علم عمرانیات کی یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ کسی بھی سیاستدان یا شخص کو خاص سوشل اسپیس میں ہی تگ ودو کرنی پڑتی ہے عمران خان کو جو وقت ماحول صورتحال اورزوال پذیر معاشی نظام ملا انہوں نے جدوجہدکی اس سے بالا نہ تو کوئی حکمت عملی تیار کی جاسکتی ہے اور نہ ہی صدیوں سے بگڑے نظام کی اصلاح ایک دن میں ممکن ہے اس صورتحال میں تمام مخالف جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر متفق ہوں تو تبدیلی کا خواب ممکن ہے۔لیکن اس کی طرف ہمارا کوئی دھیان نہیں۔ جب تک ہم اپنی اصلاح خود نہیں کریں گے کوئی ہماری اصلاح نہیں کریگا اسوقت ہمیں بیرونی خطرات سے نبرد آزما ہونے کے لئے اجتماعی مفادات کو اپنانا ہوگا ۔

ای پیپر دی نیشن