جنگ مسئلوں کا حل نہیں

ملکوں کا نظام ایک دوسرے کے تعاون اور باہمی یگانگت سے ہی چلتا ہے۔ جب خارجہ پالیسیاں بنائی جاتی ہیں اور تعلقات ترتیب دیئے جاتے ہیں تو اس کے پیچھے ملکی مفادات ہی کارفرما ہوتے ہیں،ہر ملک کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے لئے بہترین کا انتخاب کرسکے۔ یعنی مفادات اہم ہوتے ہیں ناکہ اخلاقی بنیادیںیہاں پر اہم ہوں گی۔ جوں جوں ترقی ہوئی ہے جنگوں کے حوالے سے بھی طریقہ ہائے کار تبدیل ہوچکے ہیں ایسا نہیں ہے کہ زمانہ جاہلیت کے برخلاف جنگیں کم ہوئی ہیں بلکہ آپ دنیا کے نقشے پر نظر دوڑاکر دیکھئے۔کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی طاقتور کسی کمزور کے خلاف صف آرا رہاہوگا۔ علاقوں کی وسعت اور طاقت کے نشے نے ہر جگہ اپنا تسلط جما رکھا ہے۔حالیہ دنوں میں روس اور یوکرائن کی جنگ نے پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرلی ہے۔ اس طرح روس کے یوکرائن پر حملے نے عالمی سطح پر بھی ہلچل مچا دی ہے۔ امریکہ نے پشت پناہی کی یقین دھانی کرواکر جنگ کے آغاز میں کچھ خاموشی اختیار کی جس کو یوکرائن نے محسوس بھی کیا اور برہمی کا اظہار بھی کیا۔ ماضی میں بھی امریکہ اور روس آمنے سامنے ہی کھڑے دکھائی دئیے ہیں۔ ماضی تو یہی کہتا ہے کہ جس کو امریکہ نے ساتھ دینے کا وعدہ کیا اس نے کبھی فیض نہ پایا۔ اب اگرچہ امریکہ نے یوکرائن کو امداد فراہم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ امریکہ، یورپ اور ان کے اتحادی ایک طرف کھڑے دکھائی دے رہے ہیں جبکہ دوسری طرف روس اس با ر تنہا کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ روس نے ماضی میں دنیا کو اپنی طاقت دکھائی ہے۔ انہی دنوں میںہمارے وزیراعظم کے دورہ ء روس نے بھی عجیب وغریب فضا پیدا کردی ہے۔ ان حالات میں جب وزیراعظم روس کی سرزمین پر لینڈ کرتے ہیں ساتھ ہی روس یوکرائن پر حملہ آور ہوجاتا ہے۔ کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ اس دورہ کے کیا ثمرات حاصل کئے گئے ہیںیامستقبل میں حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ روس نے افغانستان میں اگرچہ دس سال اپنی جنگ جاری رکھی لیکن روس ہو یا امریکہ سالوں جنگ کے بعد نامراد ہی واپس لوٹے ہیں۔ امریکہ کے جن خاص حامیوں نے امریکہ کے افغانستان پر حملے کی کبھی مذمت نہیں کی اب روس کے حملے کی وہ ہی مذمت کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے حامی تو ہر دو صورتوں میں حمایت کا حق محفوظ رکھتے ہیں لیکن نظریات میں تبدیلی غیر سنجیدگی اور بے حسی کا مظہر بھی ہوا کرتی ہے۔اگرچہ آزاد ملک پر حملہ غلط پالیسی ہے۔ اس نے جارحیت کے ذریعے اپنے دفاع کو ترجیح دی۔ اس پالیسی کا دوسرا پہلو تو سراسر غلط ہی ہے۔ یہاں ایک اور عجیب اتفا ق رائے بھی دیکھنے کو ملتا ہے وہ تمام ممالک جو امریکہ کی پشت پناہی کرتے رہے ہیں کہ وہ عراق ہو یا پھر افغانستان تباہ وبرباد کرے۔ لاکھوں جان سے گئے، لاکھوں بے گھر اور معذور ہوئے۔
 امریکہ ہو یا شام، یمن ہو یا روہنگیا خونی کھیل کے پیچھے دست شفقت یورپ نے رکھا اور اب یہی مغربی ممالک یوکرائن پر حملے کے خلاف بولتے بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ روس اس گمان میں ہے کہ ماضی کی طرح وہ اب بھی طاقت ور ہے جبکہ یہی نشہ امریکہ کو بھی ہے۔ اگرچہ چین خاموشی سے کام کئے جارہا ہے ، وہ اپنی پوزیشن کو روز بروز مضبوط تر کرکے یہ ایک دن ثابت کردے گا کہ آخر سپر پاور کون ہے اور حالات وواقعات ثابت کرتے ہیں کہ وہ دن زیادہ دور نہیں ہے۔ نامعلوم طریقے سے دنیا بھر کی منڈیوں میں اس وقت جتنی جگہ چین بنا چکا ہے اس کی دوسری مثال دکھائی نہیں دیتی۔
اگر چین دنیا کی عالمی طاقت یا سپر پاور کی حیثیت سے ابھر کرسامنے آتا ہے تو اس میں کوئی اچنبے کی بات نہیں ہے۔ اس کو خوش فہمی ہی کہہ لیجئے کہ چین نے پاکستان کو اتحادی بنایا اور سمجھا ہے اردگرد کے جغرافیائی خطوں میں اور کسی کو اس نے اس قابل نہیں سمجھا۔یورپ ہو یاروس، چین سب کے ساتھ تعلقات میں پاکستان کو اپنے مفادات کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ یوکرائن میں بے شمار پاکستانی طلبہ وطالبات برے حالات میں پھنسے ہوئے ہیں۔ جنگ کے دنوں میں اپنوںکا ساتھ حوصلہ دیتا ہے۔ میدان جنگ میں ان کو تنہا چھوڑنا ہر گز مناسب نہیں جبکہ ان کے گھر والے ایک پریشانی سے دوچار ہیں۔ حکومت وقت کو ان پاکستانی طلبہ کو محفوظ طریقے سے واپس لانے کی جلد از جلد کوشش کرنا ہوگی۔

ای پیپر دی نیشن