"Nursing Day in Pak Punjab"

معزز قارئین ! نرسوں کا عالمی دِن (International Nursing Day) 12 مئی کو منایا جاتا ہے ۔ پاک پنجاب کے وزیراعلیٰ سردار عثمان احمد بزدار نے 2 مارچ کو پنجاب کے پہلے "Nursing Convention" سے خطاب کرتے ہُوئے دُکھی انسانیت کی خدمات انجام دینے پر پنجاب کی تمام نرسوں کو سلام پیش کیا اور "28 Nursing Collages" کو اڑھائی ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز دینے ، پسماندہ علاقوں کے امیدواروں کو نرسنگ کے شعبہ میں داخلہ کے لئے کوٹہ دینے کا اعلان کرتے ہُوئے کہا کہ ’’ پنجاب میں ہر سال 2 مارچ کو "Nursing Day" منایا جائے گا ۔ 
’’ لیفٹیننٹ جنرل ؔ محترمہ نگار جوہر! ‘‘ 
یہ امر قابل ذکر ہے کہ ’’ یکم جولائی 2020ء کو ’’ڈی جی آئی ایس پی آر‘‘ میجر جنرل بابر افتخار کے "tweet" کے مطابق "Pakistan Army Medical Corps"۔ کی میجر جنرل نگار جوہر صاحبہ کو ترقی دے کر "Surgeon General" (Lieutenant general) کے عہدے پر تعینات کردِیا تھا۔مَیں نے 3 جولائی2020ء کو ’’ لیفٹیننٹ جنرل محترمہ نگار جوہر ‘‘ کے عنوان سے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ ’’ اِس عہدے پر کسی خاتون کی یہ پہلی تقرری ہے ۔ اُن سے پہلے میجر جنرل کے عہدے پر پہنچنے والی دو خواتین میجر جنرلز محترمہ شاہدہ بادشاہ اور محترمہ شاہدہ ملک کا تعلق بھی ’’ آرمی میڈیکل کور ‘‘ سے ہے۔ "Surgeon" (سند یافتہ معالجِ عملِ جراحی "Doctor" ) کو کہتے ہیں اور "General" ( عسکری مہارت رکھنے والے فوج کے سالار اور کمان دار کو) ۔کسی عالم ، قانون دان یا قومی خدمات انجام دینے والی کسی شخصیت کو بھی "Doctreat"کی اعزازی ڈگری سے نوازا جائے تو وہ بھی ڈاکٹر ؔہی کہلاتے ہیں ۔ ’’ مصّورِ پاکستان‘‘ علاّمہ اقبال نے 1908ء میں جرمنی کی ایک یونیورسٹی سے فلسفہ کی ڈگری حاصل کی تو، وہ ڈاکٹر ؔمحمد اقبال کہلائے۔
’’فاطمہؒ بنت ِ عبداللہ !‘‘
معزز قارئین! مَیں خاتونِ پاکستان ’’سرجن جنرل لیفٹیننٹ جنرل محترمہ ڈاکٹر نگار جوہر کو 1911ء میں اٹلی کے طرابلس پر حملے کی یاد دِلا رہا ہُوں جب ایک عرب لڑکی فاطمہ بنت ِ عبداللہ ، غازیوں اور شہیدوں کو پانی پلاتی ہُوئی خُود بھی شہید ہوگئی تھی ۔ اُسے خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لئے علاّمہ اقبال نے کہا کہ …
’’فاطمہ تُو آبروئے اُمتِ مرحوم ہے!
ذرّہ ذرّہ تیری مُشتِ خاک کا معصوم ہے!
یہ کلی بھی اِس گلستانِ خزاں منظر میں تھی!
ایسی چنگاری بھی یا رب !اپنی خاکستر میں تھی!‘‘
"Nurs" کے معنی ہیں ’’ تربیت یافتہ ، تیمار دار، بچوں کی دایہ (دائی) دودھ پلانے والی یاپرورش کرنے والی یا ’’رضاعی ماں ‘‘ ۔ 
’’ خواجہ حسن نظامی/ کرشن کتھا!‘‘
معزز قارئین! چشتیہ سلسلہ کے ولی حضرت نظام اُلدّین اولیاء کے قریبی عزیز ، 60 سے زیادہ کتابوں کے مصنف ، عالم ، ادیب ، نقاد اور دانشور اور شاعر ، خواجہ حسن نظامی(1873ئ۔ 1953ئ) نے متحدہ ہندوستان میں ہندو مسلم ہم آہنگی کے لئے ’’ کرشن کتھا‘‘ ( کرشن کی کہانی) کے عنوان سے کتاب لکھی ، جس میں اُنہوں نے شری کرشن جی کی ’’رضاعی ماں ‘‘ گوکل کے گوالا سردار نندؔ کی اہلیہ یشودھا کا تذکرہ کیا تھا۔
’’ تین عظیم نرسیں ! ‘‘ 
24 جولائی 2006ء کو میرے کالم کا عنوان تھا ’’تین عظیم نرسیں ‘‘ ۔ دراصل مَیں نے رضاعی مائوں کو نرسیں قرار دیتے ہُوئے ، یشودھاؔ میّا کے علاوہ گوتم بُدھ کی رضاعی ماں پرجا وتی ( گوتمی ) کا بھی تذکرہ کِیا تھا۔ گوتم بُدھ کے پِتا جی (والد صاحب)  ریاست کپل وستو کے راجا شدّو دھن نے دو سگی بہنوں ’’ مایا وتی‘‘ اور پرجا وتی (گوتمی ) سے شادی کر رکھی تھی۔ سِدھارتھؔ ( گوتم بُدھ) 7 دِن کے تھے جب اُن کی والدہ مایا وتی کا انتقال ہُوا۔ اُنہیں اُن کی خالہ رانی پرجا وتی ( گوتمی ) نے پالا پوسا تھا، پھر سِدھارتھ اپنی رضاعی ماں ’’ گوتمی‘‘ کی وجہ سے گوتم مشہور ہُوئے۔
سنسکرت اور ہندی میں ’’بُدھ ‘‘ کے معنی ہیں ۔ ’’عاقل ، دانشمند ، جاگتا ہُوا ‘‘ ۔ رضاعی ماں (Foster Mother) کو ہندی ، اردو اور پنجابی میں۔ ماں سی (ماں جیسی) کہا جاتا تھا ، پھر ’’ ماسی ‘‘ کہا جانے لگا۔ پنجابی میں تو ماں کی بہن ( خالہ ) کو ’’ ماسی ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ متحدہ ہندوستان میں تحریکِ خلافت کے دَوران دو نامور مسلمان قائدین مولانا شوکت علی اور مولانا محمد علی جوہر کی والدہ محترمہ آبادی ؔبانو کا بھی تحریک خلافت میں اہم کردار تھا ۔ وہ ’’بی اماّں‘‘ کے نام سے مشہو رتھیں ۔اِسی طرح پاکستان میں 2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں جب قائداعظم کی ہمشیرۂ محترمہ فاطمہ جناح متحدہ اپوزیشن کی امیدوار بن گئیں تو’’ مفسر نظریۂ پاکستان‘‘ جناب مجید نظامی نے اُنہیں ’’مادرِ ملّت کا خطاب دِیا تھا۔
’’ مادرانِ ملّت ثانی ! ‘‘
معزز قارئین ! جناب آصف زرداری نے اپنے دورِ صدارت میں اپنے درباری صحافیوں سے اِس طرح کے مضامین لِکھوائے کہ ’’ فریال تالپور بھی محترمہ فاطمہ جناح کے انداز میں قوم کی خدمات انجام دے رہی ہیں ‘‘ لیکن محبِ وطن پاکستانیوں نے اِسے کوئی اہمیت نہیں دِی۔2018ء کے عام انتخابات سے پہلے دامادِ میاں نواز شریف ’’کیپٹن (ر) محمد صفدر صاحب ‘‘ نے اپنی خوش دامن محترمہ کلثوم نواز صاحبہ کو بھی ’’ مادرِ ملّت ثانی ‘‘ کا خطاب دِیا تھا ۔ اب کر لو جو کرنا ہے ؟ ۔ 
’’ مادرِ جمہوریت ! ‘‘
اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دَور میں پاکستان پیپلز پارٹی کی شریک چیئرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں اپنی والدۂ محترمہ بیگم نصرت بھٹو کو چیئرپرسن شپ سے برطرف کر کے خود یہ عہدہ سنبھال لِیا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ ’’ اپنی حیات میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے ’’ مجازی خُدا ‘‘ جناب آصف علی زرداری کو پارٹی میں کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا؟ 
’’ وزیراعلیٰ پنجاب کو سلام !‘‘
معزز قارئین! مَیں تو ، پاکستانی قوم کی خدمت گزار نرسوں کی خدمات پر کالم لکھ رہا تھا ؟۔ بہر حال وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان احمد بزدار مبارک باد کے مستحق ہیں کہ اُنہوں نے ’’ پاکستان آرمی میڈیکل کور‘‘ یا پنجاب میں خدمت انجام دینے والی نرسوں کی عزّت و احترام کے لئے پاکستان کے دوسرے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو ایک ’’گائیڈ لائن ‘‘ دے دِی ہے ۔ اِس لئے ، وزیراعلیٰ پنجاب کو سلام!

ای پیپر دی نیشن