حکومت نے ملکی معیشت کو مکمل طور پر بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی غلامی میں دھکیل دیا ہے جس کی جانب سے قرض کے معاہدہ کے لیے ایک کے بعد ایک نئی شرط عائد کی جا رہی ہے۔ آئی ایم ایف کی خوشنودی کی خاطر حکومت نے روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر کے تعین کا معاملہ کرنسی بازار کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے جس کے نتیجے میں کرنسی بازار میں ایک بھونچال کی سی کیفیت ہے، اطلاعات یہ بھی ہیں کہ آئی ایم ایف کی جانب سے ڈالر کی شرح تبادلہ افغان سرحد کی شرح تبادلہ سے منسلک کرنے کے لیے دبائو ڈالا جا رہا ہے جب کہ روپیہ پہلے ہی ملکی تاریخ کی بدترین صورت حال سے دو چار ہے اور اس کے مقابل ڈالر کی اڑان نہایت تیز رفتار ہے۔ صرف جمعرات کے روز ڈالر کی شرح تبادلہ میں بنکوں کے مابین 18.98 روپے کا اضافہ دیکھنے میں آیا جب کہ ایک روز قبل بھی ڈالر کی قدر چار روپے بڑھ چکی تھی، کرنسی کے کھلے بازار میں بھی پندرہ روپے کا اضافہ صرف ایک دن میں ریکارڈ کیا گیا اس طرح ڈالر اوپر کی جانب سرپٹ دوڑ رہا ہے اور روپیہ بے قدری کی آخری حدوں کو چھوتا محسوس ہو رہا ہے، جمعرات کو بنکوں کے مابین شرح تبادلہ 285 روپے نو پیسے فی ڈالر جب کہ کھلے بازار میں یہ شرح 288 روپے فی ڈالر کی بلند ترین حدوں کو چھوتی پائی گئی۔ موجودہ وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار صاحب نے جب وزارت خزانہ کا قلم دان سنبھالا تھا تو ڈالر کی قیمت 242 روپے تھی اور انہوں نے اپنی ہی جماعت کے اپنے پیش رو وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ڈالر کی اصل قیمت دو سو روپے سے کم ہے چنانچہ ان کے منصب سنبھالنے کے بعد ڈالر دو سو سے نیچے تو نہ آ سکا مگر اس کی قیمت پہلے سے قدرے کم ضرورہوئی جس پر حکمران مسلم لیگ کے قائدین بغلیں بجاتے رہے مگر اب صورت حال یہ ہے کہ صرف اسحق ڈار صاحب کی وزارت کے دور میں ڈالر کی قیمت پچپن روپے بڑھ چکی ہے جو حکومت کی معاشی ٹیم کی انتہائی نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے ملک کی تاریخ میں روپے کی اس قدر زیادہ بے توقیری پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی کہ یہ صرف ایک دن میں سات فیصد نیچے گر جائے۔ ایسی کیفیت میں ملک میں ملک میں صنعت و زراعت کیونکر ترقی کریں گی اور کاروبار کیا خاک چلے گا بلکہ اس کے نتیجے میں اقتصادی عدم استحکام خصوصاً برآمدی شعبے پر منفی اثرات نوشتہ دیوار ہیں کیونکہ قومی خزانے کو بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کے شدید دبائو کا سامنا ہے جب کہ قرضوں کی ادائیگی اور جاری کھاتے کا خسارہ پورا کرنے کے لیے گیارہ ارب ڈالر کی ضرورت ہے اورغیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر کی موجودہ مالیت 3.8 ارب ڈالر تھے۔ اب چین سے قرض ملنے پر شرح کچھ بہتر ہوئی ہے۔ ان حالات میں حکومت ادائیگیوںکا توازن کس طرح قائم رکھ پائے گی اس سوال کا خاطر خواہ جواب دینے سے حکومت کے معاشی جادوگر تاحال قاصر ہیں…!!!
ملک کے مرکزی بنک نے اسی اثنا میں جمعرات کو شرح سود میں تین فیصد اضافے کا اعلان بھی کر دیا ہے چنانچہ یہ شرح اب سترہ فیصد سے بڑھ کر بیس فیصد تک جا پہنچی ہے، اکتوبر 1996ء کے بعد ملک میں یہ سود کی بلندترین سطح ہے مرکزی بنک مہنگائی پر قابو پانے کے دعوئوں کے ساتھ جنوری 2022ء سے اب تک شرح سود میں 1050 اساسی پوائنٹس کا اضافہ کر چکا ہے جب کہ صرف جمعرات کے ایک دن میں 300 اساسی پوائنٹس کا اضافہ کیا گیا ہے مرکزی بنک نے شرح سود میں تازہ اضافہ کرتے ہوئے یہ دعوے بھی کئے ہیں کہ نئی شرح مہنگائی کو درمیانی مدت کے پانچ سے سات فیصد تخمینے کے اندر رکھنے کی ضامن ہو گی اسی طرح جنرل سیلز ٹیکس کی شرح سترہ سے بڑھا کر اٹھارہ فیصد کرنے، ایکسائز ڈیوٹی بڑھانے، سبسڈیز میں کمی، توانائی کی قیمتوں میں ردوبدل اور کفایت شعاری کی مہم سمیت حکومت کے حالیہ اقدامات کے سبب بڑھتے ہوئے مالیاتی خسارے پر قابو پانے کی توقع بھی ظاہر کی گئی ہے۔ حکومت اور اس کا مرکزی بنک جو چاہے دعوے کریں، زمینی حقائق ان کے ان دعوئوں کی تائید نہیں کرتے، حقیقت بہرحال یہی ہے کہ مہنگائی میں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے، گرانی کا طوفان کسی طرح قابو میں آتا دکھائی نہیں دیتا، شرح سود، کے حوالے سے ہم اس وقت پورے ایشیا میں پہلے نمبر پر ہیں، خطے کے دیگر تمام ممالک ہم سے بہت پیچھے ہیں، بنگلہ دیش میں شرح سود اس وقت صرف چھ فیصد بھارت میں ساڑھے چھ فیصد اور نیپال میں ساڑھے آٹھ فیصد ہے حیران کن حقیقت یہ بھی ہے کہ دیوالیہ قرار پا چکا سری لنکا بھی اس میدان میں ہمارا مقابلہ نہیں کر پا رہا جہاں دیوالیہ ہونے کے باوجود شرح سود ساڑھے چودہ فیصد ہے جب کہ ایران جسے طرح طرح کی عالمی پابندیوں کا سامنا ہے اور طویل عرصہ سے وہ امن کے عالمی ٹھیکیداروں کی جانب سے مسلط کردہ حالت جنگ کی کیفیت میں ہے وہاں بھی شرح سود پاکستان سے کم یعنی اٹھارہ فیصد ہے، مرکزی بنک کے ذمہ داران نے شرح سود بڑھاتے وقت اس اقدام کا ایک فائدہ یہ بھی بتایا ہے کہ یہ مہنگائی کو ایک حد کے اندر رکھنے کا ضامن ہو گا مگر عملی صورت حال یہ ہے کہ گزشتہ برس اپریل میں جب موجودہ تیرہ جماعتی اتحاد نے اقتدار سنبھالا تھا تو ملک میں شرح سود سوا بارہ فیصد اور مہنگائی کی شرح تقریباً ساڑھے تیرہ فیصد تھی جب کہ شرح سود میں حالیہ اضافہ سے قبل جب سود کی شرح سترہ فیصد تھی تو مہنگائی کا گراف ساڑھے اکتیس فیصد کی ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو رہا تھا اب جب کہ یہ شرح تین فیصد مزید بڑھا کر بیس فیصد کر دی گئی ہے تو مہنگائی کن بلندیوں کو چھوئے گی، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں شرح سود میں اضافہ سے صنعت و تجارت اور زراعت سمیت تمام شعبوں میں پیداواری لاگت میں جو اضافہ ہو گا وہ یقینا قیمتوں میں مزید اضافہ کا سبب بنے گا۔
ڈالر کی قیمت اور شرح سود میں اضافہ کیا رنگ لائے گا؟
Mar 05, 2023