حضرت براء ؓسے ایک طویل حدیث مروی ہے جس میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس عمرہ کا ذکر ہے جو آپ نے صلح حدیبیہ سے اگلے سال کیا۔ اس حدیث پاک میں یہ الفاظ بھی ہیں۔ جب حضور اکرم ﷺ مکہ میں داخل ہوئے اور(معاہدے کے مطابق مکہ میں قیام کی)مدت پوری ہوگئی تو قریش مکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے پاس آئے اورکہا: اپنے ساتھی سے کہو کہ ہمارے شہر سے چلے جائیں کیونکہ مدت پوری ہوچکی ہے۔ حضور روانہ ہوئے تو حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی آپکے پیچھے چل دی۔ وہ چچا جان، چچا جان پکاررہی تھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کا ہاتھ پکڑلیا اورحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا : اپنی چچازاد کو پکڑلو، میں اس کو لے آیا ہوں۔ اس (بچی)کے بارے میں حضرت علی، زید اورجعفر رضی اللہ عنہم میں تنازعہ ہوگیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس پر میرا حق سب سے زیادہ ہے کیونکہ یہ میرے چچا کی بیٹی ہے۔ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : یہ میرے چچا کی بیٹی ہے اوراس کی خالہ میری زوجیت میں ہے۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ کہنے لگے: یہ میری بھتیجی ہے ۔ حضور اکرم ﷺنے اس کے متعلق فیصلہ اسکی خالہ کے حق میں کردیا اورفرمایا: خالہ ماں کے قائم مقام ہوتی ہے ۔ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے (انکی دلجوئی کیلئے )فرمایا: آپ مجھ سے ہیں اورمیں آپ سے ہوں ۔ آپ نے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ سے فرمایا : تم صورت وسیرت میں مجھ سے مشابہ ہواورآپ نے حضرت زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا : تم ہمارے بھائی اورمولا ہو۔(صحیح بخاری)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں : حضور انور ﷺنے ابوجہم رضی اللہ عنہ کو زکوٰۃ کی وصولی کیلئے بھیجا ۔ ایک شخص نے اپنی زکوٰۃ کے متعلق ان سے بحث وتکرار کی۔ ابوجہم نے اس کو مارا اوراس کا سرزخمی کردیا۔ وہ لوگ حضور اکرم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کی: یا رسول اللہ (ﷺ)! ہم قصاص کا مطالبہ کرتے ہیں۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا: تم اتنا مال لے لو۔ وہ راضی نہ ہوئے فرمایا: اتنا(مزید) لے لو۔ وہ راضی نہ ہوئے ۔ فرمایا : اتنا(مزید )لے لو۔ تو وہ راضی ہوگئے ۔ پھر حضورؐنے خطبہ دیا اورارشادفرمایا : یہ لیثی میرے پاس قصاص کا مطالبہ لیکر آئے ہیں ۔ میںنے ان کو اتنے مال کی پیشکش کی تھی وہ راضی ہوگئے تھے ۔ (پھر آپ نے ان سے فرمایا)کیا تم راضی ہو ؟ انہوںنے کہا : نہیں ۔ مہاجرین ان کی طرف لپکے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ رک جائو ۔ لوگ رک گئے پھر آپ نے انہیں بلایا اورپیشکش میں اضافہ کیا۔ پھر فرمایا : کیا تم اب راضی ہو؟ انہوںنے کہا : ہاں ۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: میں لوگوں کو خطبہ دوں گا اورانہیں تمہاری رضا کے متعلق بتائوں گا۔ انہوںنے عرض کی: ٹھیک ہے ۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خطبہ ارشادفرمایا اوران (لیثیوں ) سے پوچھا: کیا تم راضی ہو؟ انہوںنے عرض کی : ہاں ۔(سنن ابی دائود )