مودی سرکار کے تمام جھوٹے پروپیگنڈا اور دعوئوں کے باوجود نئی دہلی میں منعقد ہونیوالی جی۔20 کانفرنس بری طرح ناکام ہوگئی۔ بھارت کو عالمی سطح پر ایک اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ دنیا کے 19 امیر ترین ممالک اور یورپی یونین پر مشتمل گروپ جی۔20 کے وزرائے خارجہ کے اس اجلاس کا سرتوڑ کوششوں کے باوجود اعلامیہ جاری نہیں ہو سکا۔جی۔ 20 گروپ دنیا کی 20 اہم معیشتوں والی حکومتوں اور مرکزی بینک کے گورنروں کا ایک بین الاقوامی فورم ہے۔ اسکے ارکین میں 20 انفرادی ممالک ارجنٹائن، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، چین، فرانس، جرمنی، بھارت، انڈونیشیا، اٹلی، جاپان، جنوبی کوریا، میکسیکو، روس، ہسپانیہ،سعودی عرب، جنوبی افریقہ، ترکی، مملکت متحدہ، ریاستہائے متحدہ امریکہ اور یورپی یونین کے کچھ ممالک شامل ہیں۔ جی۔20 ممالک کی اکثریت ترقیاتی بینکوں کے بورڈ میں شامل ہے ۔ کرۂ ارض کی سیاست نئے تنازعات کو جنم دے رہی ہے اور اسکے باعث جھگڑے ختم کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے جبکہ موسمیاتی تبدیلی سے بھی پوری دنیا متاثر ہو رہی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی اور باہمی فاصلے ختم کرنے اور بحرانوں کا حل تلاش کرنے میں جی۔20 کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ ہر سال اسکے اجلاس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ اسکے امیر ترین ممالک ترقی پذیر ملکوں کے بحرانوں کا تعین کریں تاکہ انکے مسائل حل کئے جاسکیں۔ اس کیلئے اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بھی جی۔20 کے رکن ممالک پر زور دے چکے ہیں کہ انہیں جی۔20 کے چارٹر کیمطابق اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ گزشتہ روز بھارت کے دارالحکومت میں ہونیوالی کانفرنس بری طرح ناکام ہوئی جس کا اعلامیہ بھی جاری نہ ہو سکا۔ اس کانفرنس کی ناکامی سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت اس تنظیم کے مقاصد پورے کرنے میں کس قدر سنجیدہ ہے۔ بھارت کا ایسا رویہ عالمی سطح پر پہلی بار سامنے نہیں آیا‘ اس سے قبل وہ سارک کانفرنس کوبھی کئی بار سبوتاژ کرنے کی سازشیں کرتا رہا ہے۔اس کانفرنس کی ناکامی بھارت کی چال بھی ہو سکتی ہے‘ اس وقت پاکستان سنگین اقتصادی بحران سے دوچار ہے جو اس تنظیم کی توجہ کا متقاضی ہے۔ بھارت کس طرح گوارہ کر سکتا ہے کہ اجلاس میں پاکستان کے مسائل پر بات چیت کی جائے، اس لئے جی۔20 کانفرنس کی ناکامی پر جہاں عالمی سطح پر بھارت کیخلاف نوٹس لینے کی ضرورت ہے‘ وہیں رکن ممالک کو بھی بھارت کے اس رویے کی خبر لینی چاہیے۔