معیشت کیسے بہتر ہو سکتی ہے، معیشت کے مضبوط ہونے کا سفر تو بہت کٹھن اور طویل ہے، بہتری ہو گی تو ہم مضبوط معیشت کی طرف جائیں گے۔ ڈالر کو قابو میں لائے بغیر اس کی سمگلنگ روکنے بغیر اور جب تک امپورٹڈ آئٹمز پر بھاری سرمایہ خرچ کرنے کی روش ترک نہیں کی جائے گی اس وقت تک بہتری نہیں ہو سکتی۔ حکومت کے لیے سب سے آسان ہے کہ آئی ایم ایف سے ہدایات لے اور کمزور طبقے کی جیب سے پیسے نکالنا شروع کر دے چونکہ وہ بے زبان ہیں بول نہیں سکتے اگر بولنے کی طاقت رکھتے بھی ہیں تو ان کے بولنے سے طاقتور حلقوں اور حکومتوں کو فرق نہیں پڑتا یہی وجہ ہے کہ ڈالر کی سمگلنگ اور امپورٹڈ آئٹمز پر سرمایہ لٹانے کی حکمت عملی تبدیل نہیں ہو رہی تھی۔ وہ سیاست دان جنہیں آج عوام کی تکلیف سب سے زیادہ محسوس ہو رہی ہے انہوں نے بھی اس اہم ترین مسئلے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ سابق حکومت کی متعلقہ وزارتوں کی کارکردگی بھی اس حوالے سے صفر ہے۔ حماد اظہر اور ان کے ساتھیوں نے امپورٹ بل کتنے اور طویل المدنی منصوبوں پر کوئی کام نہیں کیا۔ آج آئی ایم ایف کہ شرائط دیکھیں تو یہ احساس ہوتا ہے کہ ڈالر کی قلت اور بڑھتی ہوئی قیمت پر شور مچانے والے ہی درحقیقت موجودہ حالات کے ذمہ دار ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکمرانوں نے امپورٹ بل کم کرنے، اپنی انڈسٹری کو مضبوط کرنے کے کوئی کام نہیں کیا۔ ستم ظریفی ہے کہ یہ لوگ باہر سے منگوانے والی اپنے استعمال کی اشیا کو آخر تک بچانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ قوم سے قربانی کا تقاضا کرنے والے خود کوئی قربانی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ذرا پڑھیں اور سر پیٹیں حکمران طبقہ کیسے ڈالرز لٹاتا ہے اور سارا بوجھ عوام پر آتا ہے۔ آئی ایم ایف نے ان سب کی عیاشیاں تو جاری ہیں لیکن عام آدمی کو کچلنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ جن کی حکومت ختم ہوئی نہ انہوں نے اس طرف توجہ دی اور موجودہ حکومت بھی آخری وقت تک اپنوں کو بچانے کی کوششوں میں رہی۔ بہرحال آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ لگڑری آئٹمز پر ٹیکس لگائیںذرا دیکھیں عوام کے ہمدرد خود کو کیسے بچانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
حکومت نے وفاقی کابینہ سے منظوری کے لیے ایک سمری سرکولیشن کے ذریعے بھیج دی تاکہ گیارہ ارب روپے حاصل کرنے کیلئے جی ایس ٹی کی شرح کو اٹھارہ سے بڑھا کر پچیس فیصد کرنے کے لیے فہرست میں مزید اشیاء شامل کی جائیں۔ تفریح اور نجی استعمال کیلئے کشتیاں یا بحری جہاز اور ہوائی جہاز، جیولری اور گھڑیاں شامل ہیں۔اب ان اشیاء کو اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے جن پر جی ایس ٹی کی اضافہ شدہ شرح وصول کی جائے گی، مقامی طور پر تیار کردہ موٹر گاڑیاں جنہیں عیش و آرام کی اشیاء کے طور پر نمٹنے کی تجویز ہے صرف ایس یو ویز یا سی یو ویز کی کیٹیگری کی گاڑیاں، 14 سو سی سی یا اس سے اوپر کے انجن کی صلاحیت کی دیگر گاڑیاں اور ڈبل کیبن پر 25 فیصد کی زیادہ شرح سے ٹیکس لگانے کی تجویز ہے۔ 25 فیصد کے اضافہ شدہ سیلز ٹیکس کی شرح کے لیے منتخب کردہ درآمدی اشیاء وہی سامان ہیں جنہیں کابینہ نے ’لگڑری گڈز‘ کے طور پر متعین کیا اور مئی 2022 میں ان کی درآمد پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ ان اشیائ میں (سوڈا) واٹر اور جوسز، آٹو کمپلیلیٹی بلٹ یونٹس (سی بی یو) ، سینیٹری اور باتھ روم کا سامان، قالین، فانوس اور روشنی کے آلات یا سامان، چاکلیٹ، سگریٹ، کنفیکشنری اشیائ، کارن فلیکس وغیرہ، کاسمیٹکس اور شیونگ آئٹمز، ٹشو پیپرز، کراکری، سجاوٹ/ آرائشی آلات، کتوں اور بلیوں کی خوراک، دروازے اور کھڑکیوں کے فریم، مچھلی، جوتے، پھل اور خشک میوہ جات، فرنیچر وغیرہ شامل ہیں۔
ان اشیاء کا عام آدمی سے کوئی تعلق ہے اور کیا ان اشیا کی خریداری سے ملک کا امپورٹ بڑھتا نہیں ہے۔ حکمران ڈالرز باہر بھیج رہے ہیں لیکن اپنی مارکیٹ کو بہتر بنانے کے لیے کچھ نہیں کرتے۔ یہ کیوں خود کفیل ہونے کے لیے پالیسی نہیں بناتے۔
پاکستان کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس کے لیے کثیر الجہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ سرمایہ کاری کو فروغ دینا بہت اہم ہے۔ پاکستان کو غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ٹیکس میں چھوٹ، ٹیرف میں کمی، اور بہتر قواعد و ضوابط، قوانین سمیت دیگر مراعات کی پیشکش کر کے اپنی طرف متوجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ کاروبار کرنے میں آسانی کو بہتر بنانا پاکستان کو سرمایہ کاروں کے لیے مزید پرکشش بنا سکتا ہے۔ پاکستان کو اپنے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، بشمول ٹرانسپورٹیشن نیٹ ورک، بجلی کی پیداوار، اور ٹیلی کمیونیکیشن۔ اس کے لیے اہم سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی، لیکن یہ بالآخر اقتصادی سرگرمیوں اور پیداواری صلاحیت میں اضافہ کا باعث بنے گا۔ تعلیم اور تربیت ملک کی معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ پاکستان کو اپنے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے، پیشہ ورانہ تربیت فراہم کرنے اور کاروباری شخصیت کو فروغ دینے پر توجہ دینی چاہیے۔ پاکستان کو اپنی برآمدات پر مبنی صنعتوں جیسے کہ ٹیکسٹائل، زراعت اور فارماسیوٹیکلز کی ترقی پر توجہ دینی چاہیے۔ اس کے لیے ٹیکنالوجی، تحقیق اور ترقی اور مارکیٹنگ میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔ کرپشن پاکستان میں معاشی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ حکومت کو بدعنوانی سے نمٹنے کے لیے سخت کارروائی کرنے کی ضرورت ہے، جس میں قانونی نظام کو مضبوط کرنا اور سرکاری کاموں میں شفافیت کو بڑھانا شامل ہے۔ علاقائی انضمام کو فروغ دینا: پاکستان ایسی اہم جگہ واقع ہے جہاں وہ خطے میں تجارت کا مرکز بننے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ حکومت کو پڑوسی ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرکے اور سرحد پار تجارت کو فروغ دے کر علاقائی انضمام کو بہتر بنانے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ایک اہم چیلنج ہے۔ حکومت ملکی پیداوار کو فروغ دے کر اور مقامی صنعتوں کو ترقی دے کر درآمدات کو کم کرنے پر توجہ دے۔ اس سے ملک کا درآمدات پر انحصار کم کرنے اور ادائیگیوں کے توازن کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ مجموعی طور پر، پاکستان کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے حکومت اور نجی شعبے کی جانب سے بنیادی ڈھانچہ جاتی مسائل کو حل کرنے کے لیے مسلسل کوششوں کی ضرورت ہوگی جو اقتصادی ترقی کو روک رہے ہیں۔
حکومت اس سلسلہ میں بلاتفریق کارروائیاں کرے اور طبقات کی حمایت کے بجائے ریاست کے وسیع تر مفاد میں فیصلے کرے۔