فیصل آباد (یو این پی) ڈائریکٹر ویجی ٹیبل ریسرچ انسٹیٹیوٹ آری فیصل آباد محمد نجیب اللہ نے کہا ہے کہ مشروم کوسال میں 2 بار مارچ اور اکتوبر کے درمیان کاشت کیا جا سکتا ہے لہٰذا مشروم کی کاشت کو وسعت دے کر زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کیاجاسکتاہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کھمبیوں کی 56اقسام کھانے کے قابل ہیں جن میں سے 4بلوچستان، 3سندھ، 5پنجاب اور 44اقسام خیبر پختونخوا اور آزاد کشمیر میں پائی جاتی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ مشروم کی 4 مقبول ترین اقسام بٹن یا یورپین مشروم، جاپانی مشروم،چینی مشروم اور بیسٹر مشروم کہلاتی ہیں اور پاکستان میں اعلیٰ معیار کے ایویسٹر مشروم دستیاب ہیں جن کی مزید درجہ بندی سفید، سنہری، سرمئی اور گلابی ایویسٹر مشروم کے ناموں سے کی گئی ہے۔انہوں نے کہاکہ امریکا، جاپان، جرمنی، تائیوان اور بعض دیگر ممالک میں مشروم کمرشل بنیادوں پر کاشت کی جاتی ہے جبکہ پاکستان، بھارت، تائیوا ن، تھائی لینڈ اور چین بھی اس کی برآمد سے غیر ملکی زر مبادلہ حاصل کرتے ہیں۔انہوں نے بتایاکہ بہت سی ڈشز کی تیاری میں بھی کھمبیوں کا استعمال کیا جاتاہے جس کے باعث دنیا بھر میں اس کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہاہے۔ انہوں نے بتایاکہ دنیا بھر میں 15لاکھ ٹن مشروم کی پیداوار ہو رہی ہے اور اس مقدار میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔انہوں نے کہاکہ بارشوں کے موسم میں کھمبیوں کی ایک بڑی مقدار قدرتی طور پر جنگلوں میں پائی جاتی ہے جس کے2حصے ہوتے ہیں ان میں بالائی کیپ اور تنا کیپ کی نچلی تہہ پر بڑی تعداد میں بیج پیدا ہوتے ہیں جوکہ گردونواح میں پھیل جاتے ہیں جہاں انہیں ساز گار ماحول دستیاب ہوتا ہے اور وہ اس جگہ پر اگ آتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ کھمبیوں کی مختلف اقسام پاکستان میں قدرتی طور پر کئی جگہوں پر پائی جاتی ہیں اورانہیں مقامی طور پر کنڈیر، کھپہ،ہنڈایا، گچھی کے نام دیئے جاتے ہیں۔