ایسا کہاں سے لا?ں کہ تجھ سا کہیں جِسے

Mar 05, 2023

سید روح الامین....برسرمطلب

سیّد روح الامین

(ڈاکٹررشید امجد)

ممتاز ادیب، فکشن نگار، افسانہ نگار، نقاد، دانشور اور ظاہری و باطنی بے شمار صفات کے مالک جناب ڈاکٹر رشید امجد صاحب آج سے دو سال قبل 3مارچ 2021ئ￿ کو 82سال کی عمر میں ہمیں داغِ مفارقت دے گئے تھے۔ 2004ئ￿ میں جب اْردو کے حوالے سے میری پہلی کتاب ’’اْردو ہے جس کا نام‘‘ شائع ہوئی تو میں نے اْن کی خدمت میں بھی ارسال کی۔ بہت ہی خوبصورت خط مجھے لکھا اور حوصلہ افزائی کی۔ نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز اسلام آباد میں صدرِ شعبہ اْردو تھے۔ پھر آنے جانے کاسلسلہ شروع ہوا۔ میں نے اْن کو کس قدر شفیق، باوقار انسان پایا ایک کالم میں بیان کرنا ناممکن ہے۔ گروپ بندیوں سے بے نیاز، دوسروں کے لئے بلاتفریق آسانیاں پیدا کرنا، ہر انسان کی خیر خواہی چاہنا، یہ اْن کی فطرت میں شامل تھا۔ یہ اْن کی محبت تھی کہ میری کتابوں پر ایک بچی ربیعہ فخری سے اپنی زیر نگرانی تحقیقی مقالہ لکھوایا۔ میری آٹھ کتب کو نمل یونیورسٹی کے اْردو کے مجوزہ نصاب میں شامل کیا۔ ڈاکٹر عبدالکریم خالد نے ’’سیّد روح الامین کی تین کتابیں‘‘ اْس وقت مضمون لکھا۔ ڈاکٹر رشید امجد صاحب فرمانے لگے کہ مجھے بھیج دیں ہم ’’تخلیقی ادب‘‘ میں شائع کریں گے۔ لہٰذا ’’تخلیقی ادب‘‘ کے شمارہ  میں جب شائع ہوا تو مجھے بے حد خوشی ہوئی۔ اکثر میں اْن سے شرفِ ملاقات کے لئے اْن کی خدمت میں حاضر ہوتا جو خلوص و محبت اْن سے ملتا بخدا لفظوں میں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ وہاں ڈاکٹرعابد سیال، ڈاکٹر روبینہ شہناز، ڈاکٹر فوزیہ اسلم صاحبہ سے بھی ملاقات ہوتی بلکہ میری ڈاکٹر رشید امجد صاحب سے بھی خط و کتابت ہوتی رہتی۔ خط کا جواب دینے میں کبھی دیر نہ کرتے۔ میرے پاس ڈاکٹر رشید امجد صاحب کے درجنوں خطوط محفو ظ ہیں۔ انشائ￿ اللہ اْن کو بہت جلد منظرِ عام پر لا?ں گا۔ ناچیز کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کی محبت اور شفقت مثالی تھی۔ اکثر ناچیزکو گلستان کالونی اپنی رہائش گاہ پر بھی دعوت دیتے۔ سات آٹھ بار اْن کے گھر بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ بخدا دراز قد، خوبرو، انتہائی نفیس شخصیت کے مالک تھے۔ کسی کے بارے بھی بدگمانی سے کام نہیں لیتے تھے۔ سب کچھ جاننے کے باوجود بھی درگذرکر جاتے۔ کام، کام اور بس کام پر یقین رکھتے اور ساری عمر عملی طور پر اس پر کاربند بھی رہے۔ جس کام کا بھی ذِمہ لے لیتے جب تک اْسے کر نہ لیتے اْنہیں سکون نہیں ملتا تھا۔ اکثر فرماتے یارآپ میرے پاس Ph.Dمیں داخلہ لے لیں۔ ایک مرتبہ مجھے فرمانے لگے کہ ڈاکٹر جمیل جالبی نے مجھے فون کیا ہے کہ آپ روح الامین کو پی ایچ۔ ڈی کرائیں۔ کہنے لگے کہ میں نے اْن کو کہا کہ میری اپنی بھی یہی خواہش ہے۔ میری بدقسمتی کہ میں بوجوہ اْن کے حکم کی تعمیل نہ کر سکا تھا۔ عظیم افسانہ نگار اورعام آدمی کے نبض شناس تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ کوئی بھی پریشان حال نہ ہو۔ ڈاکٹر صاحب کی تصانیف میں نیا ادب، رویے اورشناختیں، یافت و دریافت، شاعری کی سیاسی و فکری روایت، اقبال : فکروفن، میرزا ادیب : شخصیت و فن، میرا جی : شخصیت و فن، بیزار آدم کے بیٹے، ریت پر گرفت، سہ پہر کی خزاں، پت جھڑ میں خود کلامی، بھاگے ہے بیاباں مجھ سے، کاغذ کی فصیل، عکسِ بے خیال، خودنوشت سوانح عمری، تمنا بے تاب ، افسانوں کی کلیات، دشت نظر سے آگے اور عام آدمی کے خواب وغیرہ شامل ہیں۔ ڈاکٹر رشید امجد صاحب کو ان علمی و ادبی خدمات کے حوالے سے 14 اگست 2006ئ￿ کو انھیں صدارتی تمغہ برائے حْسنِ کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔
ڈاکٹر رشید امجد صاحب ایک درویش منش شخصیت کے مالک تھے۔ ہرکسی کے ساتھ خْوش اخلاقی، مروّت سے پیش آنا یہ اْن کی خوبصورت شخصیت کا اہم خاصہ تھا۔ دوسروں کے اچھے کام کو سراہنا اور اس کی دلجوئی، حوصلہ افزائی کرنا اپنا فرض گردانتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب نے میری چار کتابوں کے دیباچے بھی تحریر فرمائے اور میری حوصلہ افزائی کی۔ دْعا ہے کہ اللہ کریم محترم ڈاکٹر رشید امجد صاحب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ اور ارفع مقام عطا فرمائے۔ آمین! 
ع اَب انہیں ڈھونڈ چراغِ رْخِ زیبا لے کر

مزیدخبریں