نیرنگی سیاست دوراں

 سچی باتیں …پروفیسر سید محمد ابرار شاہ بخاری  
 peerji63@mail.com


انسان کو زندگی کے کسی بھی شعبہ میں جانے کے لئے تعلیم، تربیت، مہارت ، قابلیت، صلاحیت اور اہلیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر شعبہ طب جانے کے لئے پہلے میٹرک، پھر ایف ایس سی اور اس میں کامیابی کے بعد پانچ سال تک میڈیکل کالج میں پڑھنا پڑ تا ہے ا تنی محنت شاقہ کے بعد میڈیکل میں گریجویشن کی ڈگری ملتی ہے۔ گریجویشن کے بعد ایک سال کا ہائوس جاب کرنا ہوتا ہے۔ اگر طب کے کسی شعبے میں تخصص کرنا ہو تو اس کے لئے مزید تین چارسال  پڑھناپڑتا ہے۔ اتنے مراحل سے گزر کراور اپنی عمر کے کم و بیش تیس سال گزارنے کے بعد ایک شخص مکمل ڈاکٹر بنتا ہے ، اسی طرح اگر کوئی شخص عالم دین بننا چاہے تو اسے میٹرک کے بعد آٹھ سال درس نظامی کی ڈگری حاصل کرنا ہوتی ہے جس میں قرآن ، حدیث، فقہ ،عربی زبان، صرف و نحو کی تحصیل ہوتی ہے اگر دین کے کسی شعبے میں تخصیص کرنی ہو تو پھر ایم فل، اور اس کے بعد پی ایچ ڈی کرکے کوئی شخص اس مخصوص شعبہ دین کا سکالر بنتا ہے۔ ایسے ہی فوج میں کمیشن حاصل کرنے والا جوان پہلے جسمانی تربیت کے انتہائی سخت مراحل سے گزر تا ہے اور ملٹری اکیڈ می میں دو سال تک اسے تربیتی انسٹرکٹر ز کے زیر نگرانی ، نظم و ضبط کا مثالی مظاہرہ کرنا ہوتا ہے جس میں حکم عدولی ، بے ضابطگی ، غفلت ، لاپرواہی اور سرتابی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ ان کڑے تربیتی مراحل سے گزر کر وہ جوان راتوں رات جرنیل نہیں بن جاتا بلکہ وہ بطور سیکنڈ لیفٹیٹنٹ فوج میں شمولیت اختیا رکرتا ہے اس کی تربیت اور پیشہ و رانہ مہارت کا سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ اسے کئی محکمانہ کورسز ، امتحانات اور ٹریننگ کرنی پڑتی ہے اور اعلی فوجی منصب تک پہنچنے کے لئے سٹاف کالج کا مشکل امتحان پاس کرنا پڑتا ہے تب کہیں جاکر وہ فوج کے اعلی عہدے تک پہنچتا ہے ۔ اقبال نے کہا تھا
 بے محنت پیہم، کوئی جوہر نہیں کھلتا 
 روشن شرر سنگ سے ہے تیشہ فرہاد    
ان سب مثالوں کا مقصد یہ ہے کہ زندگی میں کوئی مقام، مرتبہ، عہدہ، عزت اور کامیابی حاصل کرنے کے لئے خام سونے کے طرح بھٹی میں پگھل کر کندن بننا پڑتا ہے۔ جب زندگی کے ہر میدان میں کامیابی کے لئے اتنی تعلیم ، تربیت ، مہارت ، صلاحیت اور قابلیت کا ایک معیار درکار اور مطلوب ہوتا ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیاست کی وادی میں قدم رکھنے والوں کے لئے کوئی تعلیم ، تربیت، صلاحیت، اہلیت اور اخلاقی معیار کیوں درکار نہیں۔ سیاست دان صوبائی اور قومی اسمبلیوں اور سینٹ میں جاکر عوام کی ترجمانی اور نمائیندگی کرتے ہیں ۔ سیاستدان جمہور کی آواز ہوتا ہے اس کا بنیادی کام ، عوام کی فلاح و بہبود ، ترقی، خو شحالی اور ملکی و قومی استحکام،تحفظ اور سلامتی کے لئے قانون سازی کرنا ہے ۔ یہ سیاست دان ہی ہوتا ہے جو ملکی دفاع ، امن و امان، معیشت، داخلی و خارجی تعلقات ،مسائل اورمعاملات اور ملکی مفادات کی منصوبہ بندی کرتے ہیں جو قوم کی فکری ، نظریاتی اور ذہنی سیادت و قیادت اور راہنمائی کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں ،  اس لئے سیاسی راہنماء کے منصب پر قوم کے اعلی تعلیم یافتہ ذہین ، عالی دماغ، دانشوراور مخلص و محب وطن منصوبہ ساز لوگوں کو فائز ہونا چاہئے ۔ دوسرے شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کی طرح سیاست دانوں کی بھی تربیت ہو، ضروری ہے کہ وہ نچلی سطح سے ابھریں اور سیاسی تربیت کے
مراحل سے گزر کر صو بائی و قومی اسمبلیوں اور ایوان بالا تک پہنچیں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ سیاست دانوں کا ایک اخلاقی پیمانہ اور معیار ہو۔ وہ ایمان دار ، دیانت دار، محب وطن ، مخلص قابل اعتبار شہرت کے حامل ہوں، ان کے دامن پر بدعنوانی ، بد کرداری اور بد اخلاقی کا داغ نہ ہو۔دنیا کے ترقی یافتہ معاشروں اور جمہورتیوں میں عوام نے اپنے حکمرانوں کے انتخاب کا ایک معیار اور پیمانہ مقرر کر رکھا ہے ۔یورپی اور امریکی معاشرے میں شراب نوشی،  بے حیائی، فحاشی، اخلاقی باختگی اور جنسی بے راہ روی اور آزادی عام ہے لیکن یہاں کے عوام بھی اپنے حکمرانوں میں یہ خباثتیں برداشت نہیں کرتے اور انہیں ہرلحاظ سے ایک مثالی حکمران دیکھنا چاہتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ اگر وہ اپنے حکمرانوں میں کوئی جنسی، اخلاقی یا مالی کمزوری، بدعنوانی، اخلاقی یا مالی بے ضابطگی دیکھیں تو اسے قبول  نہیں کرتے ، حالیہ اور ماضی کی تاریخ بتاتی ہے کہ کئی صدور اور وزرائے اعظم کو جنسی ، اخلاقی یا مالی سکینڈل سا منے آنے پر اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔بدقسمتی سے پاکستانی سیاست، خاندان، قبیلے، برادری، نسلی اور لسانی بنیادوں پر تشکیل ہوئی ہے۔ موروثی سیاست نے جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا۔ سیاست دانوں کے لئے کوئی اخلاقی یا تعلیمی معیار، کوئی سیاسی تربیت، کوئی اہلیت اور قابلیت کا کوئی پیمانہ مقرر نہیں۔ سیاست دان بننے کی واحد اہلیت ، دولت اور خاندانی یا موروثی وابستگی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر سیاست دانوں میں وہ قابلیت ، صلاحیت، اہلیت ا ور تربیت نہیں کہ وہ عوام کی حقیقی، موثر اور صحیح ترجمانی کرسکیں۔ ایک سیاست دان کو نہ صرف ملک کے معاشی ، معاشرتی، کاروباری ، تجارتی تعلیم ، دفاعی، جغرافیائی اور ملک کے داخلی وخارجی معاملات اور مسائل کا ادراک ہونا چاہئے بلکہ اسے بین الاقوامی تعلقات اور عالمی حالات و واقعات سے بھی آگاہ ہونا چاہئے چنانچہ ضروری ہے کہ سیاست ، خاندانی مورو ثیت سے نکل کر متوسط طبقے کے ایسے افراد کے پاس آئے جو اعلی تعلیم یافتہ ہوں۔ جن کے دل میں حب الوطنی ، دردمندی، قومی اور ملکی سلامتی ، تحفظ ، خوشحالی اور استحکام کا وژن ، ذاتی اغراض و مفادات سے عدم دلچسپی ، بدعنوانی ، بداخلاقی اور اقرباء پروری جیسے ناسوروں سے بے رغبتی اور لاتعلقی ، ملکی و بین الاقوامی معاملات و مسائل کا ادراک اور آگہی، دیانت داری، ایمانداری، تقوی، خوف خدا اور دنیا میں عوام اور آخرت میں اللہ کے سامنے جوابدہی کا کا احساس ہو، جن کے پاس ملک و قوم کے مسائل حل کرنے ، قوم کو آگے لے جانے اور دنیا کی ترقی یافتہ قوموں میں ایک معزز ، محترم اور معتبرمقام دلوانے کی منصوبہ بندی اور سوچ ہو، سیاسی تربیت کے ذریعے ملک کو جھوٹے ، بدعنوان، خودغرض مفادپرست، اقرباء پرور، خائن، نا اہل، ان پڑھ ، بے بصیرت، ضمیر فروش اور بدقماش سیاست دانوں سے نجات دلا کر ، اور ایک سیاسی شعور اور آگہی کے ذریعے ایسے افراد کو سیاست میں لانا چاہئے جو حق پرست، نڈر، بے باک ، جرات مند، قابل، اہل، باصلاحیت، محب وطن ، دردمند، ملک و قوم کے خیرخواہ ، مخلص، باکردار، دانشمند، اعلی تعلیم یافتہ، مستقبل پر نظر رکھنے والے ، اپنے موقف اور نکتہ نظر کے اظہار پر قدرت رکھنے والے ، غیرملکی سامراجی اور استحصال قوتوں کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنے والے، ایک حقیقی آزاد اور خودمختار ریاست کے علم بردار ہوں۔ ایک ایسے ادارے کے قیام کی ضرورت ہے جوسیاسست دانوں کی تعلیمی قابلیت ، قائدانہ صلاحیت ، فہم و فراست، دوراندیشی، قوت خطابت، فکری اور نظریاتی صلاحیت اور اخلاقی معیار کو جانچ اور پرکھ سکے اور جو لوگگ ادارے کے متعین کردہ معیار اور کسوٹی پر پورا اتریں صرف انہیں سیاست میں حصہ لینے کی اجازت دی جائے اور اس معیار سے کم تر لوگوں کو سیاست کے لئے ناموزوں اور نااہل قرار دیا جائے۔ 
سیاسی تربیت کے عمل سے گزر کر ایسے افراد تیار کرنے کی ضرورت ہے جو ایک اعلی فکری، نظریاتی  اور ذہنی معیار کے حامل ہوں اور اقتدار کے ایوانو ں میں پہنچ کر حقیقی عوامی اور ملکی مسائل اور مشکلات کی نشاندہی کرنے ، انہیں حل کرنے اور بین الاقوامی اور خارجی معاملات سے نبٹنے کی صلاحیت ، اہلیت اور ادراک رکھتے ہوں ، جب زندگی کے ہر میدان میں کامیابی کے لئے معیار اور تربیت درکار ہوتی ہے تو سیاست دان جو ملک و  قوم کی راہنمائی اور قیادت کرتے ہیں اور عوام کی آواز ، ترجمان اور نمائندے ہوتے ہیں تو ان کے لئے ایک تعلیمی ، اخلاقی اور ذہنی معیار اور تربیت ، وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔ جب تک ایسی سیاسی قیادت میسر نہیں آئے گی ، پاکستان کی ترقی، خوشحالی، فلاح، سلامتی، استحکام، تحفظ، امن و امان اور اسلامی فلاحی ریاست کا تصور اور خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا۔


    

ای پیپر دی نیشن