وہ وعدے اور قسمیں کو ن پورے کرے گا؟؟؟

ڈاکٹرعارفہ صبح خان                                                                              
تجا ہلِ عا رفانہ                           
اور لیئجیے جناب! شہباز شریف وزیر اعظم بھی بن گئے اور حلف بھی اٹھا لیا۔ دوسرے بار روزارت عظمیٰ کا مزا چھکتے ہو ئے شہباز شریف کو نہیں بھولنا چا ہیے کہ وہ کسی ترقی یافتہ ملک کے وزیر اعظم نہیں ہیں بلکہ ایک عذابوں، مصیبتوں، مسائل اور غربت میں دھنسی ہوئی قوم کے وزیر اعظم ہیں۔ اُمید تھی کہ شہباز شریف اُمید افزاء تقریر کریں گے کیونکہ الیکشن سے پہلے انہوں نے قوم کو بڑے بڑے خواب دکھائے تھے اور قسمیں وعدے کیئے تھے کہ ملک کو غربت افلاس مہنگائی اور بیروزگاری کی دلدل سے نکالیں گے۔ پسی اورگُھٹی ہو ئی عوام کو اُسکے حقوق دیں گے۔ معیشت کا پہیہ تیز چلائیں گے۔ عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے شروع کریں گے اور پاکستان کو ترقی کی سیڑھی چڑھائیں گے۔ کسی سے بدلہ یا انتقام نہیں لیں گے۔ عوام کے ہاتھ مضبوط کریں۔ ملک کو ایک کامیاب اور فلاحی مملکت بنائیں گے۔ خاص طو ر پر بجلی گیس پٹرول، آٹا چینی دال گوشت اور دیگر اشیائے خوردو نوش کی قیمتیںکم کریں گے۔ آئی ایم ایف سے چھٹکارا پائیں گے لیکن سب سے پہلے تو آئی ایم ایف نے شہباز شریف کو ایک ارب ڈالر کی منہ دکھائی دینے کاعندیہ دیا ہے اور اس خطیر منہ دکھائی کے عوض شہباز شریف کو ایک ارب ڈالر کا گھر جوائی بنکر رہنا پڑے گا کیونکہ آئی ایم ایف نے اس رقم کے بدلے کڑی شرائط عائد کی ہیں مثلاً بجلی گیس پٹرول کی قیمتیں اتنی زیادہ کرنے کا حکم جاری کیا ہے کہ پہلے پاکستانی درجنوں کے حساب سے خودکشی کررہے تھے۔ اب سینکڑوں کے حساب سے خودکشیاں ہونگی کیونکہ ملک میں نہ روزگار ہے نہ نوکریاں نہ کاروبار۔ لوگوں کے ذرائع آمدن آج بھی تین چار سال پہلے والے ہیں جبکہ مہنگائی دو سو گنا بڑ ھ چکی ہے اور بجلی گیس پٹرول کی قیمتوں میں پانچ سالوں کے مقابلے میں تین سو گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ لوگ انتہائی تکلیفدہ اور اذیتناک زندگی کاٹ رہے ہیں۔ کیا کبھی کسی صا حبِ اختیار نے سو چا ہے کہ لو گ کیسے جی رہے ہیں، کیسے گزارہ کر رہے ہیں اور یہ کہ آئی ایم ایف ہر بار بِلوں اور اشیا ئے خورد و نوش کی قیمتیں کیوں بڑھانے پر کیوں مُصِر رہتا ہے۔ کیا کبھی آئی ایم ایف نے یہ شرط عا ئد کی ہے کہ کابینہ دس بارہ افراد سے زیادہ پر مشتمل نہیں ہونی چاہیے۔ تمام وزیروں مشیروں کے مراعات اللّے تللّے ختم ہونے چاہیں۔ کیا آئی ایم ایف اندھا ہے۔ اُسے نظر نہیں آتا کہ کھربوں روپیہ اشرافیہ کی عیاشیوں پر خرچ ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف ایسی پھا پھا کٹنی ہے جو ملک میں غریبوں کو غریب ترین اور امراء کو امیر ترین بنانے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے جس سے امیروں غریبوں میں خلیج پیدا ہو رہی ہے۔ نفرتیں اور انتقام کی آگ بھڑک رہی ہے۔ آئی ایم ایف کی پالیسیوں سے جہاں پاکستان قرضوں کی دلدل میں دھنس رہا ہے، وہاں پاکستان میں نفرت حسد بغض اور انتقام کی فضا بڑھتی جا رہی ہے۔ لوگ غربت سے عاجز آ کر جرائم کر رہے ہیں۔ سوال یہ کہ آئی ایم ایف دی گئی رقم کا آڈٹ کیو ں نہیں کراتا؟؟ آئی ایم ایف اپنی دی گئی رقم سے ترقیاتی منصوبوں پر کام کیوں نہیں کرواتا؟کارخانے فیکٹریاں ملیں اور ادارے کیو ں نہیں بنواتا جس سے روزگار پیدا ہو۔ آئی ایم ایف کی بدنیتی کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ وہ اشرافیہ پر ٹیکس کے لیے نہیں کہتا۔ اشرافیہ کی عیا شیاں ختم کرنے کی کوئی شرائط نہیں لگا تا۔ آخر آئی ایم ایف سے پاکستان نجات کیو ں نہیں حا صل کرتا۔ ترکی اور سری لنکا اور کئی ممالک نے آئی ایم ایف کے چنگل سے نجا ت حا صل کر لی۔ سری لنکا کو ڈیفا لٹر قرار دیا گیا لیکن سری لنکا آج بھی ایک آزاد خود مختار ملک کی حثیت سے زندگی گزار رہا ہے۔ اب یہ شہباز شریف کا امتحا ن ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے دامن چھڑا لیں۔ اصولاً ایک غریب ملک کی کابینہ ایک درجن افراد سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے لیکن اب ہم دیکھیں گے کہ ابتدائی طور پر تیس سے چالیس افراد کی کابینہ بنے گی۔ ایک ماہ بعد پھر بیس افراد کو وزارتیں دی جا ئیں گی اور تیسرے مر حلے میں بھی پندرہ سے بیس افراد کو وزارتیں دیکر ہمنوا بنا یا جائے گا۔ مُخلص یا دوست وہی ہوتا ہے جو حقا ئق بتا تا ہے۔ چاپلوسی اور خو شامد یا تعریفیں کرنے والے تو اپنا مطلب نکالتے اور اندھیرے میں دکھا دیتے ہیں۔ شہباز شریف نے آتے ہی 80 ہزار ارب روپے کے قرضوں کا رونا شروع کر دیا۔ یہ نا امیدی اور ناکامی ا بتدائیہ ہے ۔ آئی ایم ایف کے قرضوں، سعودیہ، چا ئنہ، امریکہ، عرب امارات اور یورپی یونین سے کروڑوں ڈالر وں کی امدادیں اور ملک سے اکھٹا ہونے والا کھربوں کا ریونیو ہو تا ہے۔ پھر بھی حکومت قرضوں کا رونا روئے تو یہ ناکامی کی پہلی نشانی ہے۔ شہباز شریف کے مقابلے میں مریم نواز کی تقریر امیدوں، اُمنگوں اور روشنیوں سے لبریز تھی۔ مریم نواز نے ایک جامع، مدلل اور عوام کی توقعات کے مطا بق تقریر کی تھی۔ اپنی وزارتِ اعلیٰ کے صرف ایک ہفتہ میں مریم نواز نے کئی اقدامات بھی کیے ہیں۔ مریم نواز کی وزارتِ اعلیٰ اور تقریر پر لکھے گئے میرے کالم کو سوشل میڈیا پر کافی تنقید کا بھی سامنا کر نا پڑا۔ جس پر مجھے اپنے فا لورز کو بتانا پڑا کہ مریم نواز ایک ذہین اور متحرک خاتون ہے اور اگر وہ اچھا سوچ رہی ہیں یا اچھا کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں تو اُنکی حو صلہ افزائی اور تعریف میں بُخل نہیں کرنا چا ہیے۔ مریم نواز کبھی بھی یہ نہیں چا ہیں گی کہ وہ پہلی ہی بار ی میں ایک ناکام وزیر اعلیٰ بنیں۔ اپنی کامیابی کے لیے وہ ہر قدم اٹھائیں گی جو کل کو اُنکے سیاسی کیر ئیر کو مظبوط بنائے۔ پھر بھی مجھے بہت سے لوگوں نے کہا کہ مریم نواز سے آپ نے بہت اُمیدیں باندھ لی ہیں۔ اس ساری صورتحال کو میں مریم نواز کے سامنے رکھتی ہوں اور جلد ہی کسی ملاقات میں انھیں بتا ئوں کی کہ لوگ آپ سے توقعات سے زیادہ خدشات رکھتے ہیں۔ اس لیے وہ اتنے اچھے کام کریں اور عوام کے دُکھوں کو دور کریں۔ مہنگائی سے نجات دلائیں تاکہ لوگوں کا اُن پر بھروسہ قا ئم ہوسکے۔ اب مریم نواز شریف پر مُنحصر ہے کہ میرے مثبت اور نیک جذبات کی بھی لاج رکھیں۔ مریم نواز کو ہیلی کا پڑوں جہازوں میں نہیں پھرنا چا ہیے کیونکہ یہ مہنگی ترین سواری ہے اور آپکی قوم غریب ترین، مفلوک الحال اور قرضوں میں جکڑی ہے۔ آپ بچپن سے جہازوں کی سیر کرتی رہی ہیں۔ دوسرے یہ سابقہ پرا ئم منسٹر کے چو نچلے تھے کہ بیس منٹ کے فا صلے پر بنی گا لہ سے ایوانِ وزیر اعظم ہیلی پر چڑ ھکر جاتا تھا۔ ان قیمتی سواریوں پر بیٹھنے سے کو ئی بڑا آدمی نہیں بنتا۔ بڑا لیڈر یا بڑا آدمی اپنے بڑے کاموں سے بنتا ہے۔ مریم نواز ہوں یا شہباز شریف ۔۔۔دونوں کو الیکشن میں کیے گئے اپنے وعدوں، دعووٰں اور قسموں کا پاس رکھنا ہے کیونکہ قوم بہت دکھوں مصیبتوں سے گزر چکی ہے۔ اب قوم کے لیے لیڈروں اور حکمرانوں نے کچھ نہیں کیا تو عوام میں اشتعال پیدا ہو گا اور پھر ایسا انقلاب آئیگا جو پاکستان سے جمہوریت اور لیڈروں کو مٹا دے گا۔ شہباز شریف ، مریم نواز، مرا د علی شاہ، سرفراز بگٹی، آصف زرداری،بلاول بھٹو کے ہاتھوں ملک کی باگ دوڑ ہے۔ لوگوں کی اُمیدیں اور مستقبل ہے۔ کوشش کریں کہ جس ملک نے آپکو عزت دولت شہرت اقتدار دیا ہے۔ اُس کی جڑیں کمزور کرنے کے بجائے مضبوط کریں۔ اب اپنے وعدے قسمیں پوری کرنے کی آپکی باری ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...