گلوبل ویلج
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
پاکستان میں حکومت سازی کا آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد آخری مرحلہ بھی مکمل ہو گیا۔ انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا رہا۔ اسی وجہ سے انتخابی مہم بھی اس طرح سے رنگ نا جما سکی۔ بہرحال قاضی فائز صاحب کی طرف سے کہا گیا تھا کہ آٹھ فروری کے انتخابات پتھر پر لکیر ہیں، شکوک و شبہات ایسے پیدا ہوئے کہ انتخابات کے روز ہی یقین آیا کہ انتخابات واقعی ہونے جا رہے ہیں۔انتخابات کے روز شفافیت پر کسی نے سوال نہیں اٹھایا لیکن نتائج سامنے آنے لگے تو اس کے بعد انگلیاں نتائج پر اٹھنے لگی۔فارم 45 اور 47 کے تنازعات سامنے آنے لگے۔دو روز قبل تین مارچ کو وزیراعظم کے انتخاب کے ساتھ ہی حکومت سازی کا آخری مرحلہ مکمل ہو گیا صدر علوی کی طرف سے پہلے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے سے انکار کیا گیا۔ان کی طرف سے کہا جا رہا تھا کہ پہلے ایوان کو مکمل ہونا چاہیے۔خصوصی نشستوں کا اعلان کیا جائے اس کے بعد اجلاس طلب کیا جائے گا صدر کے انکار کے باوجود سپیکر کی طرف سے تین مارچ کو اجلاس طلب کیا گیا تھا لیکن آدھی رات کو صدر صاحب کی طرف سے بھی سمری پر دستخط کر دیے گئے جس سے اس اجلاس کی حیثیت متنازع ہونے سے بچ گئی۔
شہباز شریف سے امید تھی کہ وہ اپنے خطاب میں وزیراعظم کے طور پر ملکی اور قومی مفاد میں بات کریں گے وزیراعظم کی طرف سے کافی حد تک ایسا کیا گیا لیکن ان کی طرف سے اپوزیشن کی طرف مفاہمت کا زبانی کلامی ہاتھ بڑھایا گیا انہوں نے کہا کہ پہلے میں نے میثاق معیشت کی بات کی تھی اب میں میثاق مفاہمت کی بات کرتا ہوں۔اس کو ایپریشیٹ کیا جانا چاہیے مگر ایک طرف شہباز شریف اپوزیشن کی طرف مفاہمت کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے نظر آئے، دوسری طرف ان کی طرف سے اپوزیشن پر جو واحد تحریک انصاف کی صورت میں ایک جماعت کے طور پر موجود ہے۔ اس پر اور اس کی لیڈرشپ پر طنز کیا گیا، تنقید کی گئی اور طعنے دیے گئے۔14 اگست 2014 کے دھرنے کی بات کی گئی اور یہ بھی کہا گیا کہ یہ راز بھی کبھی کھلے گا کہ اس دھرنے کے پیچھے کون تھا اور اس کے کیا مقاصد تھے؟ شہباز شریف ڈیڑھ سال تک پہلے بھی حکومت میں رہ چکے ہیں وہ مکمل طور پر با اختیار وزیراعظم تھے، ان دنوں ان کو چاہیے تھا کہ اس خفیہ ہاتھ کو سامنے لے آتے جس کے سامنے آنے کی اب وہ بات اور امید کر رہے ہیں۔وزیراعظم شہباز شریف نے نو مئی کے واقعات کا بھی ذکر کیا اور انہوں نے کہا کہ ایسے لوگوں کو کسی طور پہ معاف نہیں کیا جائے گا ،ساتھ انہوں نے کہا کہ جو لوگ ان واقعات میں ملوث نہیں تھے ان کو گزند تک نہیں آئے گی۔
اس روزسے تحریک انصاف کی طرف سے احتجاج کیا جا رہا تھا تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ کچھ ایسے لوگ ہمارے احتجاج میں شامل ہو گئے جو ہمارے لوگوں کو ان تنصیبات کی طرف لے گئے۔ایسے احتجاجوں میں ہمارے لوگ کم دوسرے زیادہ تھے۔عمران خان تحقیقات کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔کچھ لوگوں کا پاک افواج کی طرف اشارہ ہے کہ اس کی طرف سے یہ سارا ڈرامہ رچایا گیا تھا حالانکہ ایسا قطعی طور پر نہیں ہو سکتا۔تحریک انصاف کے احتجاج میں اگر کوئی لوگ شامل کیے گئے تھے تو وہ پھر نگران حکومت تھی جس کے کنٹرول میں پولیس تھی جس نے ایسے ہجوم کو جو کور کمانڈر ہاؤس کی طرف جا رہا تھا، اسے روکنے کی کوشش نہیں کی۔اس کا اعتراف نگران وزیر اطلاعات عامر میر کر چکے ہیں انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ واضح طور پر کہا کہ ان واقعات کو روکا جا سکتا تھا لیکن ہم نے پولیس کو کارروائی سے روک دیا تھا۔رانا ثنا اللہ کے گھر کی طرف بڑھنے والے ہجوم کو تو پولیس نے روک دیا لیکن جو ہجوم دفاعی تنصیبات کی طرف بڑھ رہا تھا اس کی اہمیت کسی انفرادی شخص کے گھر کے برابر بھی نہیں تھی؟
آج بھی نو مئی کے واقعات کی مکمل طور پر تحقیقات کی ضرورت ہے اس میں جتنے تحریک انصاف کے لوگ ملوث ہیں ان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ اگر کوئی ایسے عناصر بھی ہیں جو ان کو گمراہ کر کے حساس مقامات کی طرف لے گئے جیسا کہ عمران خان کی طرف سے بار بار الزام لگایا جاتا ہے تو ان کو بھی بخشا نہ جائے۔باقی اگر اداروں پر تنقید کی جائے گی تو پھر اداروں کا احترام کیسے باقی رہے گا۔قومی سلامتی سالمیت اور دفاع کے لیے فوج جیسے اداروں کا احترام لازم ہے۔ان پر جو لوگ بے جا اور جھوٹی الزام تراشی کرتے ہیں ان کے بھی احتساب کی ضرورت ہے۔پاک فوج کو آج تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں یا ماضی میں بنایا گیا سب کو کٹہرے میں لانے کی ضرورت ہے۔ ’’یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے‘‘ یہ جس جلسے میں بھی، جس جلوس میں بھی، جس پارٹی کی طرف سے بھی نعرے لگائے گئے ہیں ان سب کو آرمی ایکٹ کی زد میں لانا ناگزیر ہے۔ دوسری صورت میں لوگوں کو شہہ ملتی رہے گی اور پاک فوج کو اسی طرح تضحیک کا تذلیل کا اور توہین کا نشانہ بنایا جاتا رہے گا جو قوم کے لیے قابل برداشت نہیں ہو سکتا۔
وزیراعظم کی طرف سے اپنی تقریر میں کہا گیا کہ جس طرح نفرتیں سیاست میں درآئی ہیں یہ کئی دہائیاں تک ختم نہیں ہوں گی۔ ایسی بات ہرگز نہیں ہے آپ کل ہی فارم 45 کے مطابق نتائج مرتب کر دیں۔ کل یہ نفرتیں یہ دشمنیاں یہ اختلافات یکدم ختم ہو جائیں گے۔قومی اسمبلی میں وزیراعظم کی پہلی تقریر بڑے اہتمام کے ساتھ پی ٹی وی اور دیگر چینلز پر دکھائی جاتی رہی اس کے بعد ان کے حریف عمر ایوب کی تقریر کی باری آئی تو سارے ٹی وی چینل خاموش ہو گئے کیا یہ اپوزیشن کیلئے خیر سگالی کا پیغام تھا۔
نئی حکومت جس طرح سے معرض وجود میں آئی ہے اس سے پہلے بھی کوئی بڑی توقعات نہیں تھی لیکن ایک امید ضرور تھی کہ حالات بہتری کی طرف جائیں گے۔ وزیراعظم کی طرف سے اپنی تقریر میں اپوزیشن کے لیے جو کچھ کہا گیا اس سے ایک مایوسی نظر آتی ہے جیسے ہی اجلاس شروع ہوا اپوزیشن نے نعرے بازی شروع کر دی ان کی نعرے بازی کا ٹارگٹ مسلم لیگ نون کی قیادت تھی حالانکہ اس حکومت میں پیپلز پارٹی سمیت کئی جماعتیں شامل ہیں لیکن کسی اور جماعت کو مسلم لیگ نون کے علاوہ ٹارگٹ نہیں کیا گیا جب تک شہباز شریف تقریر کرتے رہے نعرے بازی ہوتی رہی اس سے حکومتی پارٹی کو مائنڈ کرنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ ایک پارٹی کو جس طرح سے دبایا گیا اس کے باوجود بھی بہتر ہوتا کہ وہ اس طرح کا شور شرابہ اورایوان کو مچھلی منڈی نہ بناتے بہر کیف ان کی طرف سے اگر ایسا کیا گیا تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ 2018 کی اسی اسمبلی میں جب عمران خان وزیراعظم کے طور پر تقریر کر رہے تھے تو ساری پارٹیوں نے مل کر ان کا ناطقہ ایسا بند کیا کہ وہ اپنی تقریر مکمل نہ کر سکے۔
آج ایک بار پھر سیاسی جماعتوں میں اور سیاست دانوں میں یکجہتی، ہم مہنگی اور اتحاد کی ضرورت ہے،اختلافات اپنی جگہ پر اہم قومی مقاصد پر ایک پیج پر آنا ہوگا کیونکہ پاکستان ہے تو سیاستیں ہیں، بادشاہتیں ہیں، وزارتیں ہیں، ساری مراعات ہیں۔ اگر پاکستان نہیں تو پھر کچھ بھی نہیں۔ نہ سمجھے تو پھر ہماری حالت بھی فلسطینیوں اور کشمیریوں جیسے ہی ہو سکتی ہے۔
قارئین!مخصوص نشستوں کی الاٹ منٹ مکمل نہیں ہوئی مگر پھر بھی چار صوبائی اسمبلیاں حلف اٹھا چکی ہیں اور اپنے اسپیکر،ڈپٹی سپیکر اور وزرائے اعلیٰ بھی منتخب کر چکی ہیںجب کہ گذشتہ روز قومی اسمبلی کے سپیکر و ڈپٹی سپیکر کے علاوہ وزیراعظم کا انتخاب بھی عجلت میں کر لیا گیا ہے اور اگلے چند دنوں میں صدر مملکت کا انتخاب بھی ہو ہی جائے گامگر نامکمل قومی و صوبائی اسمبلیاں اس سب پراسیس کو کرتے ہوئے کہیں کوئی بڑی آئینی انحرافی کا مرتکب تو نہیں ہو رہیں؟ایک تجزیہ نگار اور سیاست کا طالب علم ہونے کے ناطے مجھے تو یوں لگتا ہے کہ کچھ دن بعد ہم لوگ شیخ ابراہیم ذوقؔ کا یہ شعر گنگناتے ہوئے نظر آئیں گے۔
پھول تو دو دن بہارِجانفزا دکھلا گئے
حسرت اُن غنچوں پہ ہے جو بِن کِھلے مرجھا گئے