پینتیس سے پینتالیس تک

یہ ہمارا ایم این اے ہے۔ اس نے موبائل فون میں تصویر دکھاتے ہوئے بتایا، چہرہ کچھ انجان سا لگا، نام اور حلقہ پوچھا تو خیال آیا کہ یہاں سے تو کوئی اور جیتا ہے ،وہ کہنے لگا نہیں اصل میں فارم 45 کے مطابق یہی جیتا ہے دوسرے کو تو دھاندلی سے فارم 47 میں جتوا دیا گیا ہے۔ اچھا ،لیکن تمہیں کیسے معلوم؟ تو اس نے فخریہ انداز میں کہا جی، یہی وہ شعور ہے جس سے آج بچے بچے کو معلوم ہے کہ فارم 45 کیا چیز ہے، ویسے فارم 45 ہوتا کیا ہے ؟ کہنے لگا یہی تو اصل نتیجہ ہوتا ہے ہر پولنگ سٹیشن کا، تو فارم 47 کیا ہوتا ہے ؟ کہنے لگا وہ تو بعد میں بنایا جاتا ہے اس میں تو اصل دھاندلی ہوتی ہے۔ لیکن فارم 45 اور 47 کے بیچ میں کوئی فارم 46 بھی تو ہوگا اس نے متجسس انداز میں پوچھا وہ کیا ہوتا ہے؟ اس میں جاننے کا تجسس دیکھ کر سمجھانے کا دل چاہا ،اسے بتایا کہ فارم 46 میں بیلٹ پیپرز کا حساب کتاب مرتب کیا جاتا ہے کتنے بیلٹ پیپرز تھے کتنے استعمال ہوئے کتنے بچ گئے۔ بولا لیکن وہ رزلٹ تو نہیں ہوتا، پوچھا کہ فارم 47 پر کیا گنتی ختم ہوجاتی ہے؟ آگے فارم 48 بھی ہوتا ہے بولا وہ کیا ہے اسے بتایا کہ اس میں سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ شامل کرکے نتیجہ مرتب کیا جاتا ہے اس نے فورا جواب دیا لیکن سمندر پار پاکستانیوں کو تو ووٹ کا حق ہی نہیں۔ اسے بتایا کہ حق حاصل ہے ،وہ ووٹ ڈال سکتے ہیں لیکن اس کیلئے انہیں پاکستان آنا پڑتا ہے جہاں وہ مقیم ہیں وہاں سے ووٹ ڈالنے کی سہولت انہیں ابھی تک میسر نہیں، اس پر کام ہورہا ہے اگر ایسا ممکن ہوپاتا ہے تو ان لوگوں کے ووٹ کو فارم 48 میں شامل کرکے رزلٹ مرتب کیا جائے گا وہ بولا لیکن پھر بھی اصل نتیجہ تو فارم 45 ہی ہے۔ اسے بتایا کہ ایک فارم 49 بھی ہوتا ہے، اچھا وہ کیا ہے؟ اس نے پھر پوچھا تو بتایا کہ فارم 49 میں وہ ووٹ شامل کئے جاتے ہیں جو جیلوں کے قیدی یا دوسرے علاقوں میں تعینات سرکاری ملازمین اور فوجی اہلکار پوسٹل بیلٹ کے ذریعے ڈالتے ہیں اور یہ ووٹ باقی ووٹوں کے ساتھ گن کر ان میں شامل کئے جاتے ہیں اور بعض اوقات جہاں ہار جیت کا مارجن کم ہو پوسٹل بیلٹ نتیجہ تبدیل کردیتے ہیں اور فارم 47 میں جیتنے والے فارم 49 میں ہار جاتے ہیں۔ وہ بولا لیکن ایسا تو کم کم ہی ہوتا ہوگا اصل نتیجہ تو پھر بھی فارم 45 ہی ہے۔ بحث ختم کرنے کیلئے اس کا رخ بدلنے کی کوشش کرتے ہوئے اسے کہا کہ اگر آپ کے امیدواروں کے پاس فارم 45 موجود ہیں اور وہ ان میں بھاری مارجن سے جیتے بھی ہوئے ہیں تو قانونی جنگ لڑیں۔ وہ بولا عدالتیں کہاں سنتی ہیں۔ جو لوگ عدالت گئے ان کی درخواستیں مسترد کردی گئیں۔ پوچھا کونسی عدالت نے مسترد کیں؟ بولا ہائیکورٹ نے ، پوچھا کیوں مسترد کیں ؟ بولا بس ،آپ کو معلوم ہے ہماری عدالتیں کہاں آزاد ہیں۔پھر اسے سمجھایا بھائی یہ درخواستیں اس لئے مسترد کردی گئیں کہ ہائیکورٹ کے پاس انہیں سننے کا اختیار ہی نہیں اس کیلئے پہلا فورم الیکشن ٹریبونلز ہوتے ہیں پھر ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ آتے ہیں۔
 اب اگر آپ لوگ ٹریبونل جائیں وہاں دو کام ہوں گے آپ کے فارم 45 کی تصدیق ہوجائے گی کہ وہ اصل ہیں یا نہیں اور پھر ان پر درج ووٹوں کی گنتی کرلی جائے گی آپ کی برتری ثابت ہوگئی تو کون اور کیسے آپ کے خلاف فیصلہ دے پائے گا،ہمارے پاس ہمارے ملک میں تو یہی طریقہ کار ہے اور اسی میں یہ سب کرنا ہے۔ اب عالمی عدالت انصاف میں تو یہ معاملہ جا نہیں سکتا، وہ کچھ دیر خاموش رہا پھر بولا نہیں یہ اتنا آسان نہیں۔ آپ کو تو معلوم ہے….وغیرہ وغیرہ ،اس کے بعد مزید سمجھانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ خود کو ہی سمجھ آگئی کہ یہ شعور صرف فارم 45 تک کا ہی ہے اس سے آگے کسی صورت نہیں جائے گا۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہمیں دس سال قبل پینتیس پنکچر کے بارے میں بتایا گیا کہ انتخابات میں پینتیس پنکچر لگائے گئے اور ہم نے پینتیس پنکچر،پینتیس پنکچر کا راگ الاپنا شروع کردیا ،یہ نہیں سوچا کہ آخر کس نے اور کیسے یہ پینتیس پنکچر لگائے، دس سال بعد آج ہمیں فارم 45 تک کا شعور دے دیا گیا ہے۔ اس سے زیادہ ہم سوچیں گے تو شاید ہمیں بہت سی حقیقتیں سمجھ میں آنا شروع ہوجائیں گی تو اس لئے اب تک فارم 45 تک کا شعور ہی کافی ہے۔
 دینے والا تو اتنا ہی شعور دیگا جتنا اس کے فائدے میں رہے گا ،ویسے یہ ضروری نہیں کہ ہمیں شعور کوئی اور ہی دے شعور تو ہم خود بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ لیکن اس کیلئے سوال اٹھانا ضروری چیز ہے۔ سوال ہی شعور کے راستے کھولتا ہے،یہ ہوا تو کیوں ہوا ؟ کس نے کیا ؟کیسے ہوا ؟ لیکن جب سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ہی چھین لی جائے تو سوالات اٹھانے کی سوچ بھی ختم ہوجاتی ہے اور پھر وہی شعور بچتا ہے جو ذہنوں میں ڈالا جائے۔ چاہے پینتیس پنکچر ہوں یا پھر فارم پینتالیس۔

ای پیپر دی نیشن