کمپنی کیسے چلے گی۔۔؟ 

مرکز اور چاروں صوبوں میں حکومتیں تشکیل پا چکی ہیں۔ نئے دور کا آغاز ہوا چاہتا ہے لیکن یہ نیا دور تو پرانے دور کا تسلسل لگتا ہے اور فلم میں ایکشن پر زور کچھ زیادہ ہی نظر آ رہا ہے۔ بنائی جانے والی حکومتیں ڈیفنسیو ہو رہی ہیں اور اپوزیشن فل چڑھائی کے موڈ میں کھڑاک کر رہی ہے۔ عوام کی طاقت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ حکمرانوں کی باڈی لینگویج سے پتہ چلتا ہے جیسے بادل ناخواستہ حکمران بنا دیے گئے ہوں۔ میاں شہباز شریف دوسری بار وزیر اعظم بنے ہیں۔ انھیں 201 ووٹ ملے ہیں اور یہ تعداد ایک بڑی تعداد ہے اور عددی اعتبار سے میاں شہباز شریف ایک مضبوط وزیراعظم ہیں کیونکہ ان کے مخالف عمر ایوب خان نے ان سے آدھے سے بھی کم ووٹ حاصل کیے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن اور اختر مینگل نے کسی کو ووٹ نہیں دیا۔ لیکن نہ جانے کیوں قومی اسمبلی کے آدھے سے کم تعداد میں اپوزیشن ارکان حکومتی ارکان کی تعداد ڈبل ہونے کے باوجود ان پر بھاری نظر آتے ہیں اور شاید اسے اخلاقی برتری کہتے ہیں۔ مانگے تانگے کی سواریاں ایسی ہی ہوتی ہیں اور آخر کار اپنے ہی بازو کام آتے ہیں لیکن پتہ نہیں کیوں وڈے پائی جان وی ناراض ناراض اور بجھے بجھے سے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ بھی کوئی متحرک کردار ادا نہیں کر رہے۔ 
بقول میاں جاوید لطیف مرکزی حکومت زبردستی ان کے سر تھوپی گئی ہے۔ ایک طرف بوجھل دل سے اقتدار حاصل کیا جا رہا ہے جبکہ دوسری جانب حالت یہ ہے کہ ردعمل سنگین تر ہوتا جا رہا ہے۔ جس طرح عوام نے 8فروری کو ردعمل کا اظہار کیا ہے اسی طرح اسمبلیوں میں اپوزیشن کے ارکان ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں اور ایسے معلوم ہوتا ہے کہ ہر رکن میں بارود بھرا ہوا ہے۔ سو جس کو ذرا سا موقع ملتا ہے وہ برملا اظہار کرتا ہے اور لوگ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپوزیشن رہنماوں کی تقریریں سن رہے ہیں۔ 
 بانی پی ٹی آئی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی سب سے توانا آواز مولانا فضل الرحمن تھے لیکن جب سے انھوں نے تحریک انصاف کے مینڈیٹ کے حق میں آواز اٹھائی ہے، عوام نے ان کو سر پر بٹھا لیا ہے۔ اسی طرح محمود خان اچکزئی پر کیا کیا الزام نہیں لگائے جاتے رہے انھوں نے جتنا نواز شریف کی سیاست کے لیے سہولت کاری فراہم کی ہے شاید ہی کوئی دوسرا اتنی خدمت کر سکتا۔ لیکن انھیں کبھی اتنی پذیرائی نہیں ملی جتنا قومی اسمبلی میں ان کی ایک تقریر نے انھیں ہیرو کا درجہ دے دیا ہے۔ اوپر سے سنی اتحاد کونسل نے انھیں آصف علی زرداری کے مقابلے میں صدارتی امیدوار نامزد کر دیا ہے۔
 آصف زرداری بلاشبہ صدر منتخب ہو جائیں گے لیکن محمود اچکزئی ایک دفعہ، وخت ،ڈال دیں گے۔ نومنتخب وزیراعظم میاں شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں اپنے پہلے خطاب میں میثاق معیشت اور میثاق مفاہمت کی بات کی لیکن ساتھ ہی 9مئی کے ذمہ داران کو سزائیں دلانے کا بھی اعادہ کیا۔ بلاشبہ 9مئی کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے تحریک انصاف خود اس کی حامی ہے لیکن ان کا مطالبہ ہے کہ بے گناہوں کو رگڑا نہ لگائیں پہلے جوڈیشل انکوائری کروائیں۔ جو بھی ذمہ دار ہیں انھیں کیفر کردار تک پہنچائیں لیکن اس کی آڑ میں سیاسی مخالفین کو نہ کچلا جائے۔ نگران دور میں جو کچھ ہوتا رہا اس کی ذمہ داری کہیں اور جاتی تھی لیکن اب جو کچھ ہو گا اس کی ذمہ داری براہ راست شہباز حکومت پر ہو گی۔ بظاہر میاں شہباز شریف کی جانب سے اپوزیشن کو مفاہمت کی دعوت دی جا رہی ہے لیکن واقعات کا تسلسل بدستور جاری ہے۔ جمہوری دور میں آج بھی پرامن احتجاج کی اجازت نہیں۔ اسی طریقے سے گرفتاریاں ہو رہی ہیں خوف کے پہرے اسی طرح برقرار ہیں۔ ایسے میں بہتری کیسے آسکتی ہے اور کس طرح مفاہمت کا ہاتھ بڑھایا جا سکتا ہے۔ 
نگران دور تک اظہار کا کوئی ذریعہ نہ تھا لیکن اب منتخب نمائندے ہر ایشو پر اسمبلیوں میں آواز اٹھائیں گے اور اس کی ذمہ داری حکومت کو لینی پڑے گی اس لیے حکومت کو اپوزیشن کو جائز مقام دینا پڑے گا ورنہ ہر روز دما دم مست قلندر ہوگا۔ حکومت کو چاہیے کہ پیچھے جو ہو چکا وہ نگرانوں پر ڈالیں اور خود اچھا بچہ بننے کی کوشش کا آغاز کرتے ہوئے مخصوص نشستوں پر مفاہمت کی بنیاد رکھیں۔ یہ ذہن میں رکھیں کہ اسمبلیوں کے ماحول میں بہتری لائے بغیر کمپنی نہیں چل پائے گی کیونکہ عوام پہلے ہی بھرے بیٹھے ہیں اور تحریک انصاف نے اپنی سیاست میں لچک پیدا کر کے سیاسی قوتوں کو ساتھ جوڑنا شروع کر دیا ہے۔ یہ ایک نئی تحریک کا آغاز ہو رہا ہے۔ ملک دوراہے سے چوراہے پر آچکا ہے۔ اب بھی اگر حکمت کی بجائے طاقت سے کام لیا گیا تو معاملات کہیں اور نکل جائیں گے۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن