قیام پاکستان کے بعد سے ہی ہم یہ "پڑھتے اور سُنتے"آرہے ہیں کہ ہماری آبادی کا 65سے 70فیصد حصہ دیہی علاقوں میں رہتا ہے اور ہماری معیشت کا تمام تر دارومدار بھی زراعت پر ہی ہے جبکہ ہماری برآمدات کا 60فیصد سے زائد حصہ براہ راست اور بالواسطہ زرعی شعبے کا مرہونِ منت ہے۔ یہ شعبہ ملک میں سب سے زیادہ روز گار بھی فراہم کررہا ہے اور ہماری فوڈ سکیورٹی کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہے ۔
یہ کس قدر دکھ کی بات ہے کہ ہم نے وقت پر اپنی زراعت کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں کیا ، جدید ٹیکنالوجی ، جدید تحقیق بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت رکھنے اور زیادہ پیداوار دینے والے تصدیق شدہ بیج کی تیاری اور فراہمی ، خالص اور ملاوٹ سے پاک کھاد اور زرعی ادویات کی کاشتکاروں کو فراہمی اور سب سے بڑھ کر کاشتکاروں کی تربیت اور عملی رہنمائی سے عدم توجہی، اور دیگر مسائل کی وجہ سے ہمارا یہ اہم شعبہ مسلسل تنزلی کا شکار ہے اور آج صورتحال یہ ہے کہ انہی مسائل کی وجہ سے کاشتکاری اب کسان کے لیے سراسر "گھاٹے کا سودا "بن چکی ہے جس سے زرعی خود کفالت اور زرعی انقلاب کے ہمارے تمام سنہرے خواب"چکنا چور ہو چکے ہیں۔
ہمارا ملک پہلے زرعی شعبے کی برآمدات سے بھاری زرمبادلہ کماتا تھا اور آج ناقص پالیسیوں اور منصوبہ بندی کی وجہ سے ہم اپنی غذائی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے اربوں ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ بے دریغ خرچ کررہے ہیں لیکن ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے زرعی پیداوار کا گراف نیچے کی طرف جارہا ہے اب صورتحال یہ کہ ہمارا زیرِ کاشت رقبہ بھی کم ہو رہا ہے اور فی ایکڑ زرعی پیداوار بھی۔ دوسری طرف ہماری زرخیز زرعی اراضی پر کسی منصوبہ بندی کے بغیر "دھڑا دھڑ"رہائشی سکیمیں بنتی جارہی ہیں اس وجہ سے بھی ہماری زراعت مکمل تباہی کے دہانے پر ہے لیکن افسوس کہ اس اہم مسئلے پر کسی حکومت نے بھی کوئی توجہ نہ دی ۔ دیہی علاقوں سے منتخب ہو کر "اقتدار کے ایوانوں"تک پہنچے والے عوامی نمائندے بھی نہ جانے کیوں زرعی اراضی پر ہاؤسنگ سیکٹر کے بے رحمانہ دھاوے پر مسلسل خاموش ہیں جبکہ بلدیاتی اور ترقیاتی اداروں سے تو اللہ ہی پوچھے گا کہ وہ محض اپنی فیس کھری کرنے کے لیے زرخیز زرعی اراضی کو "اجاڑ"رہے ہیں ۔
سب جانتے ہیں کہ محکمہ زراعت اپنے "وسیع نیٹ ورک"کی وجہ سے ملک کے چند بڑے محکموں میں شمار ہوتا ہے لیکن زرعی شعبے کی تباہ حالی اس کی "مثالی کارکردگی"کا واضح ثبوت ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنی زراعت کو بحران سے باہر کیسے نکالیں ؟ اس مقصد کے حصول کے لیے حکومت کو فوری طور پر ہنگامی عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ زراعت اور کسان کے مسائل کو حل کرنے اور انہیں زیادہ سے زیادہ سہولتیں دینا ہوگی۔ غذائی اجناس سبزیوں ، پھلوں اور پھولوں کی مقامی پیداوار کو بڑھانے کے لیے بے کار پڑے قابل کاشت رقبے کو زیرِ کاشت لانا ہوگا۔ زراعت سے متعلقہ اشیاء خاص طور سبزیوں اور پھلوں کی درآمد پر پابندی لگانی چاہیے تاکہ اس مد میں خرچ ہونے والا زرمبادلہ ، ملک زرعی پیداوار کو بڑھانے پر استعمال کیا جاسکے، یہ کس قدر تکلیف دہ امر ہے کہ ہم پیاز ، لہسن، مرچ ہلدی ادرک، ٹماٹر اور دیگر کئی سبزیاں درآمد کر رہے ہیں حالانکہ ہماری زمینیں آب و ہوا اور کاشتکار کی لگن، ان کی کاشت اور پیداوار بڑھانے کے لیے نہایت موزوں ہے۔
مثال کے طور پر لہسن کی پیداوار کو مقامی طور پر بڑھانے میں سر گرم زرعی امور کے ماہر طارق اسماعیل میو کا کہنا ہے کہ ہم اپنے سرکاری قومی ادارے، NARCکا متعارف کردہ کہ لہسن G-Iکاشت کر کے اسکی ملکی پیداوارمیں کئی گنا اضافہ کر سکتے ہیں اس پر پیداواری اخراجات بھی کم آتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہمارے کاشتکاروں کی آمدنی میں بھی کئی گنا اضافہ ہو گا۔ اور ملک کا قیمتی زرمبادلہ بھی بچے گا تمام زرعی ماہر اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان میں پیدا ہونے والی غذائی اجناس سبزیاں اور پھل اپنی غذائیت ذائقے اور خوشبو کی وجہ سے دنیا بھر میں اول نمبر پر ہیں لیکن زراعت سے ہماری عدم توجہی نے ہمیں زرعی پیداوار برآمد کرنے والے ملک سے زرعی پیداوار در آمد کرنے والا ملک بنا دیا اور یہ ہمارے حکمرانوں ، زرعی سائنس دانوں، زرعی تعلیمی ماہروں اور خود کسانوں کے لیے بھی لمحہ فکر یہ ہے یاد رہے کہ دنیا آج بھی پاکستان کی گندم، کپاس، چاول اور سبزیوں کے اعلیٰ معیار ، ذائقے خوشبو کو یاد کرتی ہے۔
یاد رہے کہ لہسن قدرتی طور پر ایلی سن سے مالا مال ہے جو مختلف امراض شوگر، بلڈ پریشر کولیسٹرول کینسر ، السر، معدے اور دل کی بیماریوں کے خلاف قوت معدافعت پیدا کرتا ہے ۔
یہ بات خوش آئندہے کہ چاول کی کاشت کے علاقوں میں سموگ کے خاتمے کے لیے دھان کی پرالی کو جلانے کی بجائے اسے وٹوں پر بچھا کر لہسن کے پودوں کو موسمی شدت اور نمی کے کم ہونے کے مضر اثرات سے بچایا جاتا ہے۔ میں نے ضلع حافظ آباد کے ایک گاؤں میں 300ایکڑ پر دھان کی پرالی کے استعمال کرنے کے کامیاب تجربے کا خود مشاہدہ کیا ہے۔
یہ بات حقیقت ہے کہ ہماری زراعت میں حالیہ بحران کی وجہ سے دیہی علاقوں میں غربت اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے حکومت کی طرف سے ڈیزل، پٹرول ، بجلی کو قیمتوں میں مسلسل اضافے کی وجہ زرعی مداخل کی قیمتیں بھی آسمانوں کو چھو رہی ہیں جس کی وجہ سے ہمارا کاشتکار بد حال ہوچکا ہے اس کے فی ایکڑ پیداواری اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہوگیا یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی زمینوں پر کاشتکاری کرنے کی بجائے اُسے خالی چھوڑنے پر مجبور ہے حکومت یہ بات یاد رکھے کہ جب تک وہ زرراعت اور کسان کے مسائل کو ترجیجی بنیادوں پر حل نہیں کرتی یہ زرعی بحران کبھی بھی ٹل نہیں سکتا حکومت کی انہی ناقص منصوبہ بندیوں کی وجہ سے ہم کئی بارغذائی بحران کا پہلے بھی شکار ہو چکے ہیں ۔ جس سے نمٹنے کے لیے ہمیں گندم مختلف سبزیاں اور چینی ہنگامی طور پر برآمد کرنا پڑی تھی لیکن ہم نے اس سے پھر بھی کوئی سبق نہیں سیکھا وگرنہ ہمارے دیہات اور کسانوں کی یہ حالت نہ ہوتی ہمارے حکمران اور اس کے پالیسی ساز یہ بات اپنے پلے باندھ لیں کہ پاکستان کی ترقی کا ہر راستہ زراعت سے ہوکر گزرتا ہے کیونکہـ" زراعت کسان "اور پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کی ضامن ہے۔ اقتدار سنبھالنے والی نئی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو زراعت کی ترقی کے لیے دِن رات کام کرنا ہوگا تاکہ ہماری زرعی اور ملکی معیشت مضبوط ہو سکے اور عوام بھی خوشحالی کی دولت سے مستفید ہوسکے۔
زرعی ترقی کے سنہرے مگر ادھورے خواب
Mar 05, 2024