ہم کتنے سفاک لوگ ہیں۔ انسانی ہمدردی کی کوئی رمق بھی ہمارے قریب نہیں پھٹک پاتی۔ شرف انسانیت کی پاسداری تو ہمارے مزاج میں شامل ہی نہیں۔ بس اپنا سوچنا اور اپنا فائدہ دیکھنا ہے۔ کوئی جیئے یا مرے، ہمیں اس سے کیا غرض۔ قدرت ہماری آزمائش کے راستے نکالتی ہے، ہم جْل دیکر نکل جاتے ہیں۔ مگر بھائی صاحب کب تک۔ اتنا بے سمت نہ چل، لوٹ کے گھر جانا ہے۔ قدرت آپ کو موسموں کے تغیّر و تبّدل سے جھنجوڑ رہی ہے۔ سنبھل جاؤ ورنہ خانہ ویرانی کا سامان ہونے میں بھلا کوئی دیر لگے گی۔ قدرت نے تین دن قبل ملک بھر میں اولوں کے پتھر برسا کر نخوت و تکبر میں ڈوبے انسانوں کو ان کی وقعت کی جھلک دکھائی ہے تو قدرت کی کارسازی کے آگے آپ کی بھلا حیثیت ہی کیا ہے۔تین سال قبل ایسے ہی موسم میں مری میں جو المناک سانحہ ہوا کیا وہ ہمارے سنبھل جانے اور سبق حاصل کرنے کیلئے کم تھا کہ ہماری سرکشیاں تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہیں اور ہم اسی طرح حرس و ہوس میں ڈوبے بگٹٹ دوڑے چلے جارہے ہیں اور مری اور اس کے گردونواح کے سیاحتی علاقے آج بھی ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کو لوٹنے، ان سے بدسلوکی کرنے اور انکے ساتھ غیر اخلاقی حرکات پر مبنی ہمارے گھناؤنے چہرے اجاگر کرتے نظر آ رہے ہیں۔ ملک کا نادر اور قدرتی حسن و آرائش سے مزین یہ پہاڑی علاقہ مقامی اور غیرملکی باشندوں کیلئے اپنی انفرادیت کے باعث ہی سیاحتی مرکز بناہے۔ بے شک ربِ ذوالجلال نے اس ارضِ وطن کو بے پناہ قدرتی وسائل اور آنکھوں کو خیرہ کرنے والے جلوئوں سے مالامال کیا ہے اور تفریح طبع کیلئے ہمارے شمالی علاقہ جات کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ آپ ٹھنڈیانی ایبٹ آباد‘ کوہاٹ‘ مالم جبہ‘ دیر‘ سوات‘ چترال تک گھوم آئیں‘ جسم تھکاوٹ سے چور ہو جائیگا مگر آنکھوں کو جلوہ ہائے قدرت کے نظارے کرتے ہوئے کبھی تھکاوٹ کا احساس تک نہیں ہو پائے گا۔ امریکی نائن الیون سے پہلے ہمارے یہی علاقے ملکی اور غیرملکی سیاحوں کی طمانیت قلب کے اہتمام میں پیش پیش ہوا کرتے تھے۔ ان کا میلوں ٹھیلوں‘ مقامی کھیلوں اور لڈی‘ کتھک‘ بھنگڑا ڈانس کا روایتی کلچر روح کی بالیدگی کا باعث بنا کرتا اور مصطفی زیدی کا یہ شعر ایسے ماحول میں طرب و کیف کو دوچند کر دیتا کہ:
اس کے لہجے کی کھنک میں ہے تراوت اتنی
کہ مشینوں کی صدا ساز بنی جاتی ہے۔
نائن الیون سے پہلے والے سازگار ماحول میں مجھے کئی بار شمالی علاقہ جات کے سیاحتی مراکز میں جانے کا موقع ملا اور ہر بار میں ان علاقوں کی سہانی یادیں سمیٹ کر واپس لوٹا۔ مری کو سیاحت کے ناطے اس لئے زیادہ اہمیت حاصل ہوئی کہ شمالی علاقہ جات کی نسبت اس کا فاصلہ بہت کم ہے اور اسلام آباد سے ایک گھنٹے کی مسافت پر لوگ یہاں پہنچ جاتے ہیں۔ اسی ناطے سے مری زیادہ تر مقامی باشندوں کیلئے سیاحتی مرکز بن گیا اور بالخصوص موسم گرما کے جون‘ جولائی‘ اگست والے تین ماہ اور پھر برفباری والے دو ماہ دسمبر اور جنوری زیادہ تر مقامی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنتے بنتے ہنگامہ خیز دورانئے میں ڈھلتے گئے جبکہ اب بدلتے موسم نے ان علاقوں کی سیاحت کا دورانیہ فروری، مارچ تک بڑھا دیا ہے۔ چنانچہ لوگوں کو یہاں ہوٹلوں، ریستورانوں‘ کھانے پینے کی اشیاء اور پارچات و خشک میوہ جات پر مشتمل کاروبار کا نادر موقع مل گیا ہے جنہوں نے اپنے منافع کا مارجن بتدریج بڑھانا شروع کر دیا ہے۔
اس پھلتے پھولتے کاروبار نے ہی یہاں کا ماحول خراب کیا جبکہ مقامی انتظامی مشینری خود بھی خوب دیہاڑیاں لگانے کے فن میں مشاق ہوگئی۔ بالخصوص رہائشی کمروں پر مبنی ہوٹل کا کاروبار تو خوب چمکا۔ بالخصوص گزشتہ دو دہائیوں کے دوران جب امریکی نائن الیون کے ردعمل میں دہشتگردی کے خاتمہ کے نام پر شمالی‘ جنوبی وزیرستان میں شروع ہونیوالی جنگ اور اسکے ردعمل میں ہماری بدقسمتی کا آغاز کرنیوالے خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں سے شمالی علاقہ جات پر مشتمل ہمارے سیاسی مراکز اجڑنا شروع ہوئے تو سیروسیاحت کے ناطے سے مری کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی۔ یہی وہ دورانیہ ہے جس میں قومی دولت و وسائل پر قابض ہمارے حکمران اشرافیہ طبقات نے مری میں زمینیں سرکار سے پٹے پر حاصل کرکے دھڑادھڑ ہوٹل اور ریسٹ ہائوس تعمیر کرنا شروع کئے۔ان حکمران اشرافیہ طبقات کی جائیدادوں پر اور کسی کاروبار میں کوئی ناجائز کام بھی ہو رہا تو مقامی انتظامیہ کی انہیں ہاتھ ڈالنے کی بھلا جرأت بھی ہو سکتی ہے؟ جبکہ دوسرے بااثر کاروباری طبقات کی جانب سے انہیں ماہانہ بنیادوں پر حاصل ہونیوالا کمیشن انکے معاملات میں انکے ہاتھ باندھے رکھتا ہے۔
تین سال قبل کے سانحہ مری کا بھی یہی پس منظر تھا۔ مری میں ہوٹلوں کے عملہ کی جانب سے شب بسری کیلئے آئے ملکی و غیرملکی سیاحوں کی لوٹ مار ہی نہیں‘ انکی خواتین کے ساتھ اخلاق باختگی کا سلسلہ بھی چند سال قبل پورے دھڑلے سے شروع ہو گیا تھا۔ کچھ عرصہ قبل ایک غیرملکی خاتون ہوٹل سٹاف کی دست درازی کا نشانہ بنی تو اس خاتون کے احتجاج کی بنیاد پر معاملہ سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا مگر خاتون کی تسلی کیلئے محض رسمی کارروائی ہی عمل میں لائی گئی جس سے ہوٹل مافیا کے حوصلے مزید بلند ہوئے اور انہوں نے باقاعدہ جگاّ گیری شروع کر دی جن کے ہاتھوں اب تک نہ جانے کتنے خاندان لٹ چکے ہیں اور نہ جانے کتنی خواتین کی عزت برباد ہوچکی ہے۔ ان میں سے اکثر تو بدنامی کے ڈر سے اپنی ’’ہڈبیتی‘‘ بتانے سے بھی گریز کرتی ہیں اور اگر کوئی ہمت کرلے تو مافیا کے اثرورسوخ سے اسکی زبان بند کر دی جاتی ہے۔
میرا گمان غلط بھی ہو سکتا ہے مگر مجھے یہی محسوس ہوتا ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں اثرورسوخ رکھنے والے اسی مافیا کے ایماء پر بعض حکومتی نمائندوں کی جانب سے ملک کی معیشت کے استحکام کا تاثر دینے کیلئے ملکی اور غیرملکی سیاحوں کو دسمبر‘ جنوری اور اب فروری اور مارچ میں بھی مری میں ’’سنوفال‘‘ کا نظارہ کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ چنانجہ لوگوں کا شوقِ نظارہ ابھرنے سے ان کا ان سیاحتی علاقوں کی جانب جوق در جوق رخ کرنا فطری امر ہے۔ جب ہر نوعیت کی ہزاروں گاڑیاں بلاروک ٹوک مری کی جانب گامزن ہوں تو اس سے ٹریفک کا مسئلہ پیدا ہونا فطری امر ہے جبکہ ہوٹل مافیا کیلئے (جن کے ہاتھ اقتدار کے ایوانوں تک پھیلے ہوئے ہیں)، یہی دن غنیمت ہوتے ہیں کیونکہ سیاحوں کی دھڑا دھڑ آمد ان کے لیئیمن و سلویٰ بن جاتی ہے۔ ان کا تو کاروبار ہی اس طرح چمکتاہے کہ زیادہ سے زیادہ سیاح مری میں داخل ہو جائیں۔ انکے مرنے‘ جینے اور ہر قسم کے مسائل کا شکار ہونے سے اس لوٹ مار مافیا گروپ کو بھلا کیا سروکار ہو سکتا ہے جبکہ حکومت و انتظامیہ کی شہ بھی انہیں حاصل ہو۔
شومئی قسمت کہتین سال قبل مری میں ہجوم کی شکل میں داخل ہونے اور اپنی ٹرانسپورٹ کو کہیں نہ کہیں گھسیڑنے والوں کو معمول سے ہٹ کر زیادہ برف باری کا سامنا کرنا پڑا۔ نتیجتاً وہ جہاں پھنسے تھے‘ وہیں پھنسے رہ گئے جبکہ مقامی انتظامیہ اور باشندوں میں سے کسی نے مری کی شاہراہوں اور گلیوں میں پھنسے ان سیاحوں کیلئے برف ہٹا کر راستہ صاف کرنے کا کوئی تردد کیا نہ ان سیاحوں کی بے چارگی کم کرنے میں معاون بنے جبکہ انکی لوٹ مار میں وہ پیش پیش رہے۔ حکومتی وزراء سیاحوں پر ٹوٹی اس افتاد کو ملک کے اقتصادی استحکام اور عوام کی خوشحالی سے تعبیر کرنے میں مصروف رہے جبکہ بے چارے سیاح مسلسل 18 گھنٹے سے اپنی سٹارٹ گاڑیوں میں ٹھٹھرتے‘ سسکتے‘ مکمل بے بسی کی تصویر بن گئے اور پھر سٹارٹ انجن والی گاڑیوں میں کاربن مونو اکسائیڈ گیس کی لپیٹ میں آکر بے بسی کی موت مرنا شروع ہو گئے۔ بے شک کاربن مونو اکسائیڈ گیس ہی دو درجن افراد بشمول معصوم بچوں کی موت کا باعث بنی مگر گیس کی شکل میں موجود اس موت کو اشتہاء تو بھاری برف باری کے باعث جام ہونیوالی ٹریفک سے ملی۔ اگر مری کی استعداد سے باہر گاڑیوں کو مری سے باہر ہی روک لیا جاتا اور پھر انظامیہ راستے صاف کرنے میں متحرک رہتی تو سٹارٹ گاڑیوں کے اندر کاربن مونو آکسائیڈ پیدا ہونے کی نوبت ہی نہ آتی۔ پھر یہ نوحہ کس کے نام رقم کیا جائے اور کس کے چہرے سے نقاب الٹایا جائے۔ یہاں تو قدم قدم پر راہبروں کے روپ میں راہزن لوٹ مار کیلئے سرگرم بیٹھے ہیں اور کسی کی کرنی کوئی اور بھر رہا ہے۔ آج بھی مری اور اسکے ارد گرد کے علاقوں کی یہی کیفیت ہے جہاں دو روز پہلے تک سخت برف باری کے باعث تمام راستے اور سڑکیں برف کے پہاڑوں کا نقشہ پیش کررہے تھے اور سیاح کہیں راستوں میں پھنسے اور کہیں ہوٹلوں، ریسٹ ہاؤسوں کے کمروں میں دبکے بے بسی اور لاچارگی کی تصویر بنے بیٹھے تھے۔ اس دوران دوروز تک وہاں بجلی بھی بند رہی چنانچہ سیاحوں کیلئے مواصلاتی رابطہ بھی منقطع رہا۔ خدا کا شکر کہ وہاں تین سال قبل والے کسی سانحہ کی نوبت تو نہ آئی مگر ہوٹل مافیا نے اس دوران انسانی، اخلاقی اقدار ملیامیٹ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہی آج کا المیہ ہے کہ آپ پہلے پورے اہتمام کے ساتھ لوگوں کو مرنے دیتے ہیں اور پھر انکی موت پر سوگ مناتے ہیں۔ پہلے مرض لگاتے ہیں اور پھر مرنے والوں کے عرس کا اہتمام کرکے دھمالیں ڈالتے ہیں۔ ارے! ہم سا بے درد کوئی کیا ہوگا۔ حضور! جب مرض ہی خود لگایا ہو تو اسکی تشخیص ڈھونڈنے کیلئے کہیں اور جانے کی بھلا کیا ضرورت ہے۔ مافیاؤں کے راج میں عوام کی بھلائی کی سوچ؟ توبہ توبہ، خدا خدا کیجئے۔