قونصل جنرل کا چھانگا مانگا میں پاکستان امریکہ دوستی جنگل کا افتتاح۔
ویسے بھی دیکھا جائے تو پاکستان اور امریکہ کی دوستی ہمیشہ سے ایک ایسے گھنے جنگل کی طرح رہی ہے جس میں داخلے کے بے شمار راستے ہیں مگر اس مہیب جنگل سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ کسی کو نہیں ملتا۔ یہ ایک ایسے حمام بادگرد کی شکل اختیار کر چکا ہے جو اس گنبد میں داخل ہوتا ہے وہ بھی حیران و پریشان ہوتا ہے۔ اس طرح جو باہر ہے وہ ہر ممکن طریقے سے اس میں داخل ہونے کی کوشش کرتا ہے گویا ’’جس نے دیکھا وہ بھی پچھتایا جس نے نہیں دیکھا وہ بھی پچھتایا‘‘ والی مثال سب پر صادق آتی ہے۔ اب گزشتہ روز امریکی قونصل جنرل نے چھانگا مانگا میں پاکستان امریکہ دوستی کے جنگل کا افتتاح ایک پودا لگا کر کیا۔ خدا کرے دونوں ممالک کے درمیان اچھی امیدوں ، توقعات اور دوستی کا جنگل بھی ہرا بھرا رہے اور اس میں جنگلی درندے اور زہریلے پودے گھر نہ کر سکیں۔ ایسا اگر ہو جائے اور امریکہ پاکستان کی دوستی کا احترام کرے اور اس کے مسائل حل کرنے میں مدد کرے نہ کہ ان مسائل میں اضافہ کرے۔ تب ہی یہ دوستی کا جنگل مہکے گا چہکے گا۔ ورنہ یہاں کی زہریلی آب و ہوا ہر جاندار کے لیے زہر قاتل ثابت ہو گی۔ دراصل امریکہ جانتا ہے کہ ہر پاکستانی سیاستدان اور جماعت برا بھلا کہنے کے باوجود بالآخر اس کے قلعے میں عافیت طلب کرتی ہے۔ ہماری اس دوغلی پالیسی کی وجہ سے ہمیں بالآخر پریشان ہونا پڑتا ہے۔ بہرحال اب بھی ہمارے بہت سے ساتھی پاکستان اور امریکہ کی دوستی سے بہت توقعات وابستہ کئے ہوئے ہیں۔ جبھی تو امریکی کانگرس میں نئی حکومت پاکستان کو تسلیم نہ کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اس میں بھی ہمارے اپنوں کا ہی دوش ہے۔
٭٭٭٭٭
ڈاکو کچن سے ایک ماہ کا راشن لے اڑے۔ صدمے سے دولہا بے ہوش۔
جی ہاں ایک نہیں دونوں دولہے بے ہوش ہو گئے اس ناگہانی صدمے سے۔ خدا غارت کرے ان ڈاکوئوں کو جنہیں یہ بھی ترس نہیں آیا کہ اس گھر میں دو روز قبل ہی ان دونوں بھائیوں کی شادی ہوئی تھی اور انہوں نے اپنی سلامی کے پیسوں سے گھر میں ماہ رمضان کی وجہ سے راشن اکٹھا ڈلوایا تھا۔ اب چونکہ موسم سرما ہے اور شادی کو بھی چند روز ہوئے ہیں اس لیے شاید بے خودی کی وجہ سے انہیں گھر میں رات کو ہونے والی اس واردات کا پتہ نہ چل سکا۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا جو سوتا ہے وہ کھوتا ہے اور اگر بندہ گھوڑے بیچ کر سویا ہو تو پھر بڑی سے بڑی واردات کا بھی پتہ نہیں چلتا۔ اب غریب آدمی کے پاس اس وقت اتنے پیسے ہی بڑی بات ہے کہ وہ ایک ماہ کا سارا راشن اکٹھا خریدے وہ بھی ماہ رمضان کے حساب سے جو باقی دو ماہ کے برابر ہوتا ہے۔ اب صبح جب ان بھائیوں کو اور ان کی دولہنوں کو اس چوری کا پتہ چلا ہو گا تو ان پر کیا قیامت ٹوٹ پڑی ہو گی۔ ڈسکہ میں متمول خدا ترس نیک لوگ بھی بہت ہیں۔ خاص طور پر وہ حاجی اور نمازی تاجر بھی جو دوگنا چار گناہ منافع پر سامان فروخت کر کے کافی ثواب کماتے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ ان صدمے سے بے ہوش ہونے والے دولہوں کی حالت پر بھی ترس کھائیں اور ان کے گھر راشن ڈلوا دیں تاکہ ان کا کچھ صدمہ تو کم ہو اور پولیس والے بھی ان بدبخت ظالم چوروں کا سراغ لگا کر انہیں راشن چرانے پر سخت سزا دیں۔
٭٭٭٭٭
میں آپ کے ووٹوں سے اپوزیشن لیڈر منتخب ہوا ہوں۔ وزیر اعظم کی زبان پھسل گئی۔
جذباتی تقریروں کے حوالے سے وزیر اعظم شہباز شریف کا اپنا ہی انداز ہے۔ وہ وزیر اعلیٰ رہے ہوں یا وزیر اعظم۔ جوش خطابت میں کبھی ڈائس الٹ دیتے ہیں کبھی مکا مار کر اپنے ہاتھ کو چوٹ پہنچا لیتے ہیں۔ کبھی ڈائس پر رکھے تمام مائیک گرا دیتے ہیں۔ ان کی تقریر کے دوران ان کے قریبی دوست بھی ان کے قریب کھڑا ہونے سے ڈرتے ہیں کہ مبادا کہیں جوش خطابت میں وہ ان کو ہی جھانپڑ نہ رسید کر دیں اب قومی اسمبلی میں ان کی گزشتہ روز کی تقریر دیکھ لیں اپوزیشن نے شور مچا مچا کر ایوان پر اٹھایا ہوا تھا مگر انہوں نے کمال ضبط کے ساتھ نہایت مہارت سے اپنی تقریر والہانہ انداز میں جاری رکھی ان کے اردگرد ان کے جانثار حصار بنائے کھڑے رہے۔ مگر پھر ایک موقع پر وہ جذبات میں آ کر کہہ گئے کہ ’’میں آپ لوگوں کے ووٹوں کی وجہ سے اپوزیشن لیڈر بنا ہوں‘‘ جبکہ وہ وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں اور وہ بھی 201 ووٹوں کی بھاری اکثریت سے۔ شاید اس خوشی میں وہ جذباتی ہو گئے ہوں گے۔ اب اپوزیشن کی طرف سے گزشتہ روز جو شور شرابا ہوتا رہا اس سے معلوم تو یہی ہوتا ہے اب وہ اس شغل کو جاری رکھیں گے۔ وزیر اعظم کو بھی چاہیے کہ وہ اسمبلی میں تقاریر کا شوق دوسروں کو بھی پورا کرنے کا موقع دیں سارا بوجھ اپنے سر پر نہ اٹھائیں۔ اب انہیں عوام کے مسائل کے حل کے لیے میدان میں اترنا ہو گا اسی طرح جس طرح وہ لاہور کے لکشمی چوک میں گھٹنوں گھٹنوں سیلابی پانی میں لانگ بوٹ پہن کر اترتے تھے اور لاہور سے سارا پانی نکالنے کے بعد ہی آرام کا سانس لیتے تھے۔ یہ بات ابھی تک لاہوری یاد کرتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
نوجوانوں کا وفاقی جماعتوں پر اعتماد ختم ہو رہا ہے۔ اختر مینگل۔
یہ نادر خیال اختر مینگل کو اچانک کیسے آ گیا۔ ان کی جماعت عرصہ دراز سے بلوچستان میں حکومت کرتی رہی۔ اپوزیشن میں بھی رہی ، یہ ایک دو برس کی بات نہیں گزشتہ 75 برسوں کی داستان ہے۔ کئی گرم و سرد موسم آئے۔ مگر قوم پرست جماعتوں نے ہمیشہ وہی مرغ کی ایک ٹانگ والی پالیسی اپنائے رکھی۔ انہوں نے ہمیشہ دوسروں کے زیر اثر وفاق گریز پالیسیاں اپنائے رکھیں۔ صوبائی اور قومی اسمبلی میں وجود رکھنے کے باوجود انہوں نے عوام کی ذہنی تربیت نہیں کی۔ اگر انہوں نے وفاق کے اندر رہتے ہوئے مسائل کے حل کیلئے کام کیا ہوتا۔ عوام کو ان کے مسائل کا حل دیا ہوتا تو آج یہ حالت نہیں ہوتی۔ وفاقی جماعتوں پر اگر نوجوانوں کا اعتماد نہیں رہا تو اس میں قصور وفاق کا نہیں ہمارے صوبائیت یعنی قوم پرستی کا شکار سیاستدانوں کا ہے جو نوجوانوں کو گمراہ کرتے ہیں اور سارا الزام وفاق پر لگا کر اپنا دامن چھڑا جاتے ہیں۔ اب وفاق کی کرتا دھرتا قوتوں کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہیئے۔ ویسے بھی اگر مینگل کی بی این پی بلوچستان میں اکثریت حاصل کرتی اور قومی اسمبلی میں بھی اس کی چند اور سیٹیں ہوتیں تو کیاایسا کبھی ہوتا کہ مینگل جی ایسا مایوسانہ بیان دیتے۔ نوجوانوں کے دلوں میں وفاق سے محبت کی بات سیاستدانوں نے ہی ڈالنا ہوتی ہے۔ انہیں گمراہی سے بچانا ہوتا ہے۔ رہی بات اعتماد کی تو پورے ملک کے عوام کو آج بھی اپنے گھر سے وطن سے محبت ہے۔ رہی بات ہارنے والے سیاستدانوں کی تو یہ صوبائی جماعتوں کا المیہ ہے کہ وہ اپنی ہار کا غصہ وفاق پر نکالتے ہیں۔ اس بار قوم پرست جماعتوں کو ان کے اپنے صوبوں میں مطلوبہ کامیابی نہ ملنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اب زمانہ بدل رہا ہے۔ حالات تبدیل ہو رہے ہیں۔ آنے والے وقت میں صوبوں اور مرکز کے درمیان اعتماد کا رشتہ مزید بہتر ہو گا۔
٭٭٭٭٭
منگل‘ 23 شعبان المعظم 1445ھ ‘ 5 مارچ 2024ء
Mar 05, 2024