رانا فرحان اسلم
ranafarhan.reporter@gmail.com
نومنتخب وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف نے ملک کے وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھالیا۔حلف برداری کی سنجیدہ وپروقار تقریب ایوان صدر میں منعقد ہوئی صدرپاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے شہباز شریف سے حلف لیاوزیراعظم محمد شہباز شریف وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد وزیراعظم ہاؤس پہنچے تومسلح افواج کے دستے کی جانب سے انہیں گارڈ آف آنر پیش کیاگیااس موقع پر قومی ترانہ بجایا گیاوزیر اعظم نے گارڈ آف آنر کا معائنہ کیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف سے وزیراعظم آفس کے عملے کا تعارف بھی کروایا گیا اور انوار الحق کاکڑ بطور نگران وزیراعظم ملک میں انتخابی عمل مکمل کروا کر سبکدوش ہو گئے ہیں۔کابینہ ڈویژن نے اس سلسلے میںباضابطہ نوٹیفکیشن جاری کردیا۔انوار الحق کاکڑ پاکستان کے 8 ویں نگران وزیراعظم تھے وہ پاکستان کی تاریخ کے طویل مدتی نگران وزیر اعظم رہے۔ انوار الحق کاکڑ نگران وزیراعظم کے منصب پر203 دن فائز رہے انہیں گارڈ آف آنر کے بعد وزیر اعظم ہاؤس سے الوداع کیا گیا ۔نومنتخب وزیر اعظم نے دیگر حکام کے ہمراہ انہیں الوداع کیا وزیر اعظم کی تقریب حلف برداری میں سابق وزیر اعظم قائد مسلم لیگ ن میاں محمد نواز شریف سابق صدر مملکت آصف علی زرداری اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی سمیت وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی اور دیگر نے خصوصی طور پر شرکت کی ۔قبل ازیں مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کو قومی اسمبلی میں اتحادی جماعتوں کے ارکان نے اپنا قائد ایوان منتخب کرکے ملک کے24ویں وزیراعظم کے منصب پر فائز کیا ہے ۔ اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیرصدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں قائد ایوان کے انتخاب میں شہباز شریف 201ووٹ لیکر وزیراعظم پاکستان منتخب ہوئے ہیں جبکہ ان کے مد مقابل امیدوار عمر ایوب خان صرف92ووٹ حاصل کر سکے۔ قومی اسمبلی میںڈالے گئے ووٹوں کے نتیجے میںاسپیکر سردار ایاز صادق نے واٹوں کی گنتی مکمل ہونے پر قائد ایوان کیلئے میاں شہباز شریف کے نام کا اعلان کیا۔
قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر سردار ایاز صادق کی زیر صدارت مقررہ وقت سے ایک گھنٹہ تاخیر سے شروع ہوا، تلاوت اور نعت رسول مقبولؐکے بعد سپیکر نے ایجنڈے کے مطابق کارروائی کا آغاز کیا گیا۔ سپیکر قومی اسمبلی نے ایوان میں جیسے ہی وزیراعظم کے انتخاب کا طریقہ کار پڑھ کر سنایا، اس دوران قومی اسمبلی میںدین کی نام لیوا سنی اتحاد کونسل کے اراکین نے نعرے بازی اور شور شرابہ شروع کر دیا۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے وزیراعظم کے انتخاب کیلئے ڈویژن کا طریقہ کار اختیار کیا۔ اس دوران سنی اتحاد کونسل کے اراکین نے اسپیکر کے ڈائس کے سامنے احتجاج شروع کر دیا، احتجاجی اراکین نے بانی پی ٹی آئی کی تصاویر اور پوسٹر اٹھا رکھے تھے اور مینڈیٹ چوری کے خلاف نعرے بازی کر رہے تھے۔ کچھ دیر تک یہ احتجاج اور نعروں کا شور جاری رہا اور ایوان مچھلی منڈ بنا رہا بعد ازاں احتجاجی اراکین اپنی نشستوں پر چلے گئے۔ نئے قائد ایوان کے انتخاب کے عمل سے قبل تمام ارکان کو آگاہ کرنے کیلئے اسپیکر کے حکم پر5 منٹ تک گھنٹیاں بجائی گئیں، گھنٹیاں بجائے جانے کے بعد ایوان کے دروازے بند کر دیے گئے اور اسپیکر کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ شہباز شریف کے حق میں جو اراکین ہیں لابی اے کی طرف چلے جائیں جبکہ عمر ایوب کے حق میں اراکین لابی بی میں چلے جائیں۔ جے یو آئی کے اراکین وزیراعظم کے انتخاب کی کارروائی کا حصہ نہ بنے اور قومی اسمبلی ہال کے دروازے بند ہونے سے قبل ہال سے باہر چلے گئے، جبکہ سردار اختر مینگل ایوان میں بیٹھے رہے اور انہوں نے کسی کو بھی ووٹ کاسٹ نہیں کیا۔
اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے وزیراعظم کے لیے ہونے والے انتخاب کے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ شہباز شریف 201ووٹ لیکر وزیراعظم پاکستان منتخب ہو گئے ہیں جبکہ ان کے مد مقابل امیدوار عمر ایوب خان نے92 ووٹ حاصل کر سکے ہیں۔ واضح رہے کہ حکمران اتحاد کی جانب سے وزارت عظمی کے منصب کیلئے شہباز شریف امیدوار تھے جبکہ ان کے مد مقابل سنی اتحاد کونسل کے عمر ایوب خان تھے میاں شہباز شریف پاکستان کے 24 ویں منتخب وزیراعظم ہیں جو قومی اسمبلی ایوان کی سربراہی کررہے ہیں انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے مسلسل دوسری مدت کے لئے عہدہ سنبھالاہے۔ اس سے قبل ان کے بڑے بھائی میاں نواز شریف تین بار اس منصب پر فرائض انجام دے چکے ہیں۔ پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم لیاقت علی خان تھے جو 15 اگست 1947سے 16 اکتوبر 1951 تک عہدے پر فائز رہے ان کے بعد خواجہ ناظم الدین نے یہ عہدہ سنبھالا۔ ان کے بعد 17 اپریل 1954 کو محمد علی بوگرہ پاکستان کے وزیراعظم بنے۔ 11 اگست 1953 کو ہی چودھری محمد علی اس عہدے پر فائز ہوئے اور فرائض انجام دیتے رہے۔ 12 استمبر 1956 کو حسین شہید سہروردی اس منصب پر فائز ہوئے اور بطور وزیراعظم ذمہ داریاں نبھائیں۔ ان کے بعد یہ عہدہ ابراہیم اسماعیل چندریگر کو ملا جو 16 دسمبر 1957 تک وزیراعظم رہے۔ پھر ملک فیروز خان نون پاکستان کے ساتویں وزیراعظم بنے اور 07 اکتوبر 1958 تک ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔ ان کے بعد سات دسمبر 1071 کو نورالامین پاکستان کے وزیراعظم بنے۔ 14 اگست 1973 کو ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ ان کے بعدمارچ 1985 میں محمد خان جونیجو وزارت عظمی کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 12 دسمبر 1988 کو بینظیر بھٹو پاکستان کی گیارھویں وزیراعظم منتخب ہوئیں۔اس کے بعد 6 نومبر 1990 کو میاں نواز شریف پاکستان کے تیرھویں وزیراعظم بنے۔ 19 اکتوبر 1993 کو محترمہ بے نظیر بھٹو نے دوسری مرتبہ یہ عہدہ سنبھالا، 17 فروری 1997 کو میاں نواز شریف دوسری بار پاکستان کے وزیراعظم بنے۔ 23 نومبر 2002 کو میر ظفراللہ جمالی پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ 30 جون 2004 کو ان کی جگہ چودھری شجاعت حسین وزیراعظم بنے۔ 26 اگست 2004 کو شوکت عزیز کو اس منصب کے لئے قومی اسمبلی نے منتخب کیا۔ 25 مارچ 2008 کو سید یوسف رضا گیلانی نے وزارت عظمی کا منصب سنبھالا اور سپریم کورٹ سے نااہلی کے باعث ان کی جگہ پیپلزپارٹی کے ہی راجہ پرویز اشرف کو ایوان نے وزیراعظم منتخب کیا۔ 5 جون 2013 کو میاں نواز شریف تیسری مدت کے لئے پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ پانامہ کیس میں نااہلی کے باعث انہیں عہدے سے معزول ہونا پڑا جس کے بعد وزیراعظم کا منصب شاہد خاقان عباسی کو ملا۔ 18 اگست 2017 کو عمران خان وزیراعظم منتخب ہوئے اور 10 اپریل 2022 کو تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں انہیں عہدے سے محروم ہونا پڑا ان کی جگہ میاں شہباز شریف نئے قائد ایوان منتخب ہوئے۔ پارلیمنٹ کی مدت مکمل ہونے پر ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کیلئے انوارلحق کاکڑ کو نگران وزیراعظم مقرر کیا گیا اور گزشتہ روز قومی اسمبلی ایوان نے میاں شہباز شریف کو پاکستان کا 24 واں وزیراعظم منتخب کر لیا ہے۔ میاں محمد شہباز شریف مسلسل دوسری دفعہ پاکستان کے نئے وزیراعظم منتخب ہوئے ہیں وزیراعظم شہبازشریف 1988 میں پہلی بار رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے ، 1990 میں وہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے جبکہ دوسری بار 1993 میں رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوکروہ قائد حزب اختلاف بنے۔ شہبازشریف تیسری بار 20فروری 1997میں رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوکر وزیراعلی پنجاب بنے شہبازشریف 2008میں چوتھی بار رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوکر دوسری بار وزیراعلی پنجاب بنے شہبازشریف 2013میں پانچویں بار رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوکر تیسری بار وزیراعلی پنجاب بنے شہبازشریف 2018میں دوسری دفعہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور قائد حزب اختلاف بنے شہبازشریف پہلی بار 11اپریل 2022 تا 12 اگست 2023تک پاکستان کے 23ویں وزیراعظم پاکستان رہے اور آج پاکستان کے 24ویں وزیراعظم کے طور پر حلف لیا ہے نومنتخب وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے قومی اسمبلی سے اپنے پہلے خطاب میں اپوزیشن کو میثاق معیشت کے ساتھ میثاق مفاہمت کی بھی دعوت دیدی میاں محمد شہبا زشریف نے کہا ہے کہ آئیں مل کر پاکستان کی قسمت سنواریں اور اس کو درپیش چیلنجزسے اسے نکالیں، غربت میں کمی، روزگار کی فراہمی، معاشی انصاف، سستا اور فوری انصاف ہمارا نصب العین ہے، بیرونی سرمایہ کاری میں اضافے کیلئے ویزہ فری انٹری کی سہولت دینگے، بجلی کی قیمتوں میں کمی لانے کیلئے تیل سے بجلی پیدا کرنے والی کمپنیاں فوری طور پر متبادل ذرائع سے بجلی کی پیداوار پر توجہ دیں سرمایہ کاری اور کاروبار دوست ماحول کے راستے میں حائل فرسودہ قوانین کا خاتمہ کرینگے، پورے ملک میں بہترین ٹرانسپورٹ کا جال بچھائیں گے، بجلی اور ٹیکس چوری سے نمٹنے کیلئے خود ذمہ داری ادا کروں گا، ایف بی آر میں خودکار نظام متعارف کرائیں گے، اب محنت کرنا ہو گی۔ اتوار کو وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے منتخب وزیراعظم محمد شہباز شریف نے اعتماد کا اظہار کرنے والی تمام اتحادی جماعتوں کے قائدین آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، چوہدری شجاعت حسین، چوہدری سالک حسین، عبدالعلیم خان، سردار خالد مگسی اور تمام اراکین کا شکریہ ادا کیا منتخب وزیراعظم نے کہا کہ محمد نوازشریف کی قیادت میں ملک میں ترقی اور خوشحالی کے جو انقلاب آئے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ محمد نوازشریف معمار پاکستان ہیں، بیس بیس گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ انہی کے دور میں ختم ہوئی۔ منتخب وزیراعظم نے کہا کہ قوم شہید ذوالفقار علی بھٹو کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھے گی جنہوں نے پاکستان کو جوہری طاقت بنانے کی بنیاد رکھی لیکن ذوالفقار علی بھٹو کو عدالتی قتل کا شکار بنایا گیا۔ منتخب وزیراعظم نے کہا کہ وہ یہ کہے بغیر آگے نہی بڑھ سکتے کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے جمہوریت، قانون اور انصاف کیلئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیاانہوں نے کہا کہ محمد نوازشریف کو اس بات کی سزا دی گئی ہے کہ انہوں نے پورے ملک میں ترقی اور خوشحالی کے مینار تعمیر کروائے، ملک کے تقریبا تمام عوامی اور اہم نوعیت کے منصوبوں پر ان کی تختیاں لگی ہیں۔ اس لئے بعض قوتوں کو یہ ترقی راس نہیں آئی اور تین بار ان کی منتخب حکومت کا تختہ الٹا گیا، انہیں سلاخوں کے پیچھے بھیجا گیا، ان پر ناجائز کیسز بنائے گئے اور انہیں جلاوطنی پر مجبور کیا گیا مریم نوازشریف کو جیل میں ڈالا گیا، آصف علی زرداری کی بہن بھی جیل گئی، محترمہ بینظیر بھٹو کو شہید کیا گیا، ان مظالم کے باوجود نوازشریف، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے کبھی بھی پاکستان کے مفادات کیخلاف بات کرنا تو درکار، ایسا سوچا بھی نہیں۔ جب محترمہ بینظیر بھٹو شہید ہوئیں تو آصف علی زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا، یہ وہ فرق ہے جس کیلئے قومی قیادت نے پاکستان کی تاریخ میں کردارادا کیا ۔ دوسری طرف میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ جب ان کی حکومت آئی تو پوری اپوزیشن کو سلاخوں کے پیچھے ڈالا گیا، خواتین اور بزرگوں تک کی پرواہ نہ کی گئی۔ اپوزیشن کیخلاف جو زبان استعمال کی گئی اس کو دہرایا نہیں جا سکتا۔پاکستان اور افواج پاکستان کیخلاف زہر اگلا گیا حتی کہ پاکستان کی سلامتی اور بقا کے اہم ترین معاملے پر دو صوبوں کے وزرائے خزانہ کو کہا گیا کہ وہ آئی ایم ایف کے حوالے سے کوئی مدد فراہم نہ کریں۔ یہ قیادت کا فرق ہے۔ منتخب وزیراعظم نے کہا کہ پورا ایوان گواہ ہے کہ ہم نے کبھی ادلے اور بدلے کی سیاست کا سوچا بھی نہیں۔ ہم نے ہمیشہ پرامن جدوجہد کی اور کبھی کوئی گملہ بھی نہیں ٹوٹا، مگر قوم نے وہ دن بھی دیکھا جب 9 مئی کو اداروں پر حملے کئے گئے جی ایچ کیو، کور کمانڈر ہائوسز اور ایئر فیلڈز پر حملے کئے گئے اور انہیں نشانہ بنایا گیا۔ ایک عام پاکستانی نے کبھی اس طرح کا تصور بھی نہیں کرسکتامنتخب وزیراعظم نے کہا کہ ہزاروں شہدا کے ورثا پر کیا بیتی ہو گی جن کے پیاروں نے اس مٹی کی محبت میں دہشت گردی کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ دہشت گردی کے ناسور کے خاتمے کیلئے اس قوم کے جوانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے۔ منتخب وزیراعظم نے کہا کہ وطن عزیز پر مشکل صورتحال جب آئی تو اتحادی جماعتوں نے بطور پاکستانی اور بطور سیاستدان اپنی سیاست کی قربانی دینے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے راجہ پرویز اشرف کے بطور سپیکر کردار پر انہیں خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بے پناہ وسائل سے مالا مال ہے۔ اس ایوان میں چاروں صوبوں سے قابل ترین لوگ آئے ہیں، ہم ملکر ملک کی کشتی کو منجدھار سے نکال کر کنارے پر لے جائیں گے۔ پاکستان کے کروڑوں نوجوان انمول موتی اور ہمارا اثاثہ ہیں، چیلنجوں سے مل کر نمٹیں گے اور پاکستان کو اس صحیح سمت میں گامزن کرینگے، یہ کام مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔ منتخب وزیراعظم نے ملک کو درپیش اقتصادی چیلنجوں اور مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں پاکستان کو درپیش چیلنجوں کا ادراک کرنا ہے، جاری مالی سال کے دوران 12300 ارب روپے کے محصولات کا ہدف مقرر کیا گیا ہے، این ایف سی ایوارڈ کے بعد 7 ہزار 300 ارب روپے وفاق کے پاس بچتے ہیں، سود کی ادائیگی 8 ہزار ارب روپے ہے، 700 ارب روپے کا خسارہ لے کر چلتے ہیں، ایسے میں ترقیاتی منصوبے، صحت ، تعلیم کی سہولیات، ملازمین کی تنخواہیں کہاں سے لائیں ، یہ سب کچھ 25 کروڑ عوام کا سنگین مسئلہ ہے جو قرض در قرض ادائیگیوں کی وجہ سے درپیش ہے ۔