نئی قومی اسمبلی وجود میں آ چکی ہے۔ پرانے سیاستدان گھسے پٹے اور پرانے انداز میں قومی اسمبلی میں تقاریر کر رہے ہیں۔ وہ اسمبلی جہاں سے اتحاد کا پیغام آنا چاہیے، وہ اسمبلی جہاں سے تعمیر کا پیغام آنا چاہیے، وہ اسمبلی جہاں سے ترقی کا پیغام آنا چاہیے، وہ اسمبلی جہاں سے نفرت کے خاتمے کا پیغام آنا چاہیے، وہ اسمبلی جہاں سے تحمل اور برداشت کا پیغام آنا چاہیے وہاں سب ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں مصروف ہیں۔ کیا قوم نے اس کام کے لیے منتخب نمائندوں کو پارلیمنٹ میں بھیجا ہے، کیا انتخابات کے انعقاد پر قوم کے اربوں روپے صرف اس تماشے کو دیکھنے کے لیے خرچ ہوئے ہیں۔ کیا یہ قومی اسمبلی ہمارے مسائل حل کرنے کے قابل ہے، کیا یہ لوگ ملک کی تعمیر اور قوم کی رہنمائی کریں گے، کیا اسمبلی میں پہنچنے والے سینکڑوں افراد کو ملک کے کروڑوں انسانوں پر رحم نہیں آتا۔ سب کو بولنے کا جنون ہے، کوئی سننا نہیں چاہتا، سب الزامات پر نظام آگے بڑھانا چاہتے ہیں، کیا مسائل صرف بولنے سے حل ہو سکتے ہیں، کیا ایسی کوئی بھی اسمبلی جہاں ہر وقت پگڑیاں اچھالی جائیں، غیر پارلیمانی زبان استعمال ہو، ڈیسک بجائے جائیں، اسمبلی کو جلسہ گاہ میں بدل دیا جائے، کیا وہاں سے اچھی خبر آ سکتی ہے۔ کون لوگ ہیں، کہاں سے آئے ہیں، کیسے کر لیتے ہیں یہ سب، کیا اسمبلی سیشن میں شریک اور یہاں تقاریر کرنے والے کبھی واپس جا کر سوچتے بھی ہیں کہ وہ کیا کر کے آئے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ پارلیمنٹیرینز میں یہ سوچ بھی پائی جاتی ہے اگر وہ یہ سوچیں تو یقینا یہ اسمبلی مختلف نظر آئے۔ میرے نزدیک تو ووٹرز قابل رحم ہیں جو پہلے انتخابی جلسوں اور نعروں پر خوش ہوتے ہیں پھر اسمبلی میں سیاسی قیادت کے ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے پر خوشیاں مناتے ہیں۔ یعنی یہ وہ وقت ہے کہ ووٹ دینے والا نہیں جانتا کہ وہ کس کو اور کیوں ووٹ دے رہا ہے اور ووٹ لینے والا بھی نہیں جانتا کہ وہ کیوں ووٹ لے رہا ہے۔ کاش کہ اس قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں سے کوئی خبر برآمد ہو، یہاں سے قوم کی تربیت اور ملک کی تعمیر کا سامان ہو بظاہر ایسا مشکل لگتا ہے کیونکہ سیاسی درجہ حرارت میں جتنی شدت ہے اس میں کمی مشکل کام ہے۔ آج بھی ہماری سیاست سائفر اور نو مئی کے افسوسناک، دلخراش اور تکلیف دہ واقعات کے گرد گھوم رہی ہے، ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو نو مئی کے واقعات کی مذمت بھی کرتا ہے اور ساتھ یہ بھی کہتا ہے کہ نو مئی کے بعد ان کی قیادت اور کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اگر کسی نے قانون ہاتھ میں لیا ہے ریاستی اداروں پر چڑھائی کی ہے، شہداءکی یادگاروں پر حملے کیے ہیں اور ریاستی املاک کو نقصان پہنچایا ہے کیا یہ سب کرنے کے بعد ایسے لوگوں کو صرف اس لیے چھوڑ دیا جائے کہ وہ ایک سیاسی جماعت کے کارکن ہیں اور احتجاج ان کا بنیادی حق ہے، کیا ایسا فساد اور تباہی پھیلانے والوں کو ہر قسم کی آزادی ہونی چاہیے؟
مان لیا کہ احتجاج ہر شہری کا بنیادی حق ہے لیکن یہ بھی یاد رکھیں کچھ ذمہ داری پھر ریاست کی بھی بنتی ہے آپ نے احتجاج کا حق پورا کیا اس کے بعد ریاست اپنی ذمہ داری نبھا رہی ہے تو پھر چیخ و پکار کیوں ہے۔ بہرحال یہ سمجھنے والوں کے لیے ہے۔چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے چیف جسٹس کی سربراہی میں 9 مئی واقعات کی عدالتی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے لیکن انہوں نے یہ شرط بھی رکھی ہے کہ خیبرپختونخوا کے وزیر اعلٰی یہ یقین دہانی کروائیں کہ انکوائری کے فیصلے کو تسلیم کریں گے۔ بلاول بھٹو ذرداری کا مطالبہ بھی جائز ہے اور ان کا علی امین گنڈا پور سے تقاضا بھی جائز ہے کہ کیا آپ تحقیقات کے نتائج کو تسلیم کریں گے۔ بنیادی طور پر یہ کمیشن ہونا چاہیے اور اگر کوئی بھی جماعت یہ چاہتی ہے کہ ایسے واقعات کے اصل ذمہ داران تک پہنچنا ہے تو یہ پہلے یہ طے کر لیں کہ تحقیقات کے نتیجے میں جو بھی قصوروار قرار پاتا ہے اس کے ساتھ قانون کی روشنی میں برتاو¿ ہو گا اور کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہو گی۔ وزیر اعلٰی خیبر پختون خوا کو اپنے اس مطالبے پر اب قائم رہتے ہوئے تحقیقات میں تعاون اور نتائج کو تسلیم کرنے کی ضمانت بھی دینی چاہیے۔ اس سے پہلے ہمیں اپنے جوڈیشل سسٹم پر اعتماد کو بحال کرنا ہے۔ سیاست دان تو کسی سے خوش نہیں ہوتا آج بھی نظام عدل پر سوالات ہوتے ہیں جنہوں نے جوڈیشل کمیشن بنانا ہے یا تحقیقات کی ذمہ داری نبھانی ہے اگر ان پر اعتماد ہی نہیں رکھتے ہیں تو پھر ایسے کمیشن کا کیا فائدہ ہے۔ لیکن یہ درست ہے کہ تحقیقات کا ہونا ضروری ہے۔ اس کے بغیر آگے بڑھنا مشکل ہو جائے گا۔ اگر پاکستان تحریک انصاف تحقیقات میں بےقصور قرار پائے تو اس کو تسلیم کرنا چاہیے اور اگر کمیشن انہیں ذمہ دار ٹھہرائے تو پھر اس نتیجے کو بھی قبول کرنا پڑے گا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی بھی سیاسی جماعت اپنی مرضی کے فیصلے کی خاطر جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ کرتی رہے۔ اس مطالبے سے اہم تحقیقات کو تسلیم کرنا ہے۔ جب نو مئی کے واقعات کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ ہو رہا ہے تو پھر سائفر کیس کی عدالتی تحقیقات بھی ہونی چاہیے تاکہ ایک ہی وقت میں ان دونوں واقعات کے ذمہ داران تک پہنچا جا سکے ان کے خلاف کارروائی ہو، قصور وار افراد کو سزا ملے اور یہ روز روز ہونے والی پریس کانفرنس بلکہ دن میں کئی کئی مرتبہ ہونے والی پریس کانفرنسوں سے جان چھوٹے اور حقیقت قوم کے سامنے آ سکے۔ یاد رکھیں جوڈیشل انکوائری کا وہ حال نہ کریں جو انتخابی نتائج کا ہو رہا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر خان کہتے ہیں کہ "سائفر ایک حقیقت ہے، جس نے حکومت ختم کی اس کا ٹرائل ہونا چاہیے۔ جب پاکستان کے دفاع کی بات آئے گی تو ہر کسی کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور پاکستان کے دفاع پر کوئی آنچ نہیں دیں گے، آئین میں یہ کہیں نہیں لکھا عدالت کسی کو یہ کہہ سکتی ہے کہ کوئی محب وطن ہے کہ نہیں، ہم سب سے زیادہ محب وطن ہیں اور ہمارا لیڈر سب سے زیادہ محب وطن ہے۔"
گوہر صاحب شاید یہ بھول گئے ہیں کہ عدالت کے پاس اگر کوئی کیس جائے گا اور وہاں ثبوت اور شواہد کی بنیاد پر کسی شخص کو بھی کسی مقدمے میں سزا ہوتی ہے تو وہ قانونی پہلوو¿ں پر جائزے کے بعد ہی ہوتی ہے۔ وہ سزا کیوں ہوتی ہے کس وجہ سے ہوتی ہے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہر شخص خود کو دوسرے سے زیادہ محب وطن سمجھتا ہے اس لیے وہ خود ہی یہ بتائیں کہ کیا یہ کہنا مناسب ہے کہ صرف ایک لیڈر ہی سب سے زیادہ محب وطن ہے، حب الوطنی کا پیمانہ اور معیار مقرر کون کرے گا اور فیصلہ کون کرے گا؟؟ سائفر کیس کا ٹرائل ضرور ہونا چاہیے لیکن کیا بیرسٹر گوہر اور ان کے ساتھی اس سلسلے میں تحقیقات کے نتائج تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں؟؟؟؟
آخر میں قتیل شفائی کا کلام
حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا
ٹوٹے بھی جو تارا تو زمیں پر نہیں گرتا
گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا
لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا
سمجھو وہاں پھلدار شجر کوئی نہیں ہے
وہ صحن کہ جِس میں کوئی پتھر نہیں گرتا
اِتنا تو ہوا فائدہ بارش کی کمی سے
اِس شہر میں اب کوئی پھسل کر نہیں گرتا
انعام کے لالچ میں لکھے مدح کسی کی
اتنا تو کبھی کوئی سخنور نہیں گرتا
حیراں ہے کوئی روز سے ٹھہرا ہوا پانی
تالاب میں اب کیوں کوئی کنکر نہیں گرتا
اس بندہءخوددار پہ نبیوں کا ہے سایا
جو بھوک میں بھی لقمہءتر پر نہیں گرتا
کرنا ہے جو سر معرکہِ زیست تو س±ن لے
بے بازوئے حیدر، درِ خیبر نہیں گرتا
قائم ہے قتیل اب یہ میرے سر کے ستوں پر
بھونچال بھی آئے تو مرا گھر نہیں گرتا