اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) پی پی پی کے چیئر مین بلاول بھٹو زراداری نے کہا ہے کہ عوام منتخب قیادت کی طرف دیکھ رہے ہیں اور ان سب لوگوں کو ملک، جمہوریت، معیشت اور وفاق کو بچانے کے لئے کردار ادا کرنا پڑے گا۔ اگرحزب اختلاف نے کل وزیراعظم کی تقریر سنی ہے تو انہیں علم ہوگا کہ وزیراعظم بحرانوں کے حل کے لئے کوشش کر رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی وزیراعظم شہباز شریف اور اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کو دعوت دیدی ہے کہ آئیں بیٹھیں اور انتخابات میں بے ضابطگیوں کا مسئلہ حل کر لیں، حزب مخالف والے سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے عوام بیوقوف ہیں تو وہ غلطی پر ہیں۔ ہم سب کو یہ پتہ ہے کہ سائفر کی کاپی بین الاقوامی ادارے میں سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لئے چھپوائی گئی تاکہ ان کے خلاف چلنے والے کرپشن کے مقدمات کو متنازعہ بنایا جا سکے۔پاکستان کی سکیورٹی کو داو پر لگا دیا گیا،پاکستان کے عوام نے پیغام دیا ہے کہ وہ سیاستدانوں کی لڑائی سے تنگ آگئے ہیں اور اب قومی مفاہمت اور معیشت کے چارٹر پر ایک دوسرے سے بات کرنا ہوگی۔ وہ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے اس مطالبے کی حمایت کرتے ہیں کہ 9مئی کے واقعات کی عدالتی تحقیقات کرائی جائیں لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ پی ٹی آئی ہمیں اس بات کی یقین دہانی کروائے کہ عدالتی کمیشن کے فیصلے کو سب تسلیم کریں گے۔ بلاول بھٹو زراداری نے ان خیالات کا اظہار گذشتہ روز قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کیا ، اس موقع پر چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی نے کہا کہ جو لیکچر دینا چاہیں وہ ایک دوسرے کو لیکچر دیں ہمیں لیکچر نہ دیں۔اس کے بعد اپوزیشن کے ارکان نشستوں پر کھڑے ہو گئے جنہوں نے نعرے لگانا شروع کر دیے، اپوزیشن کے ارکان حکومتی ڈائس کے سامنے کھڑے ہو کر بھی نعرے بازی کرنے لگے۔اپوزیشن کے نعروں اور شور شرابے کے بعد ایوان مچھلی بازار کا منظر پیش کرنے لگا۔بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ یہ جھوٹا الزام لگائیں گے تو ہم جواب بھی دیں گے، یہ آئین کے خلاف کچھ کریں گے تو میں ان کے سامنے کھڑا ہوں گا۔انہوں نے کہا کہ جب یہ آئین کو توڑیں گے تو میں سب سے پہلا آدمی ہوں گا جو ان کے سامنے کھڑا ہو گا،بلاول بھٹو زرداری کے خطاب کے دوران سنی اتحاد کونسل کے ارکان کا شور شرابہ جاری رہا۔چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ یہ بہت جذباتی لوگ ہیں، یہ 2 گھنٹے سے شور مچا رہے تھے، اگر آپ بات کریں گے تو اتنا حوصلہ رکھیں کہ ہمارا جواب بھی سن لیں۔بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ یہ گالیاں دے رہے ہیں اور میں کہہ رہا ہوں کہ میں ان کا دفاع کروں گا۔سنی اتحاد کونسل کے ارکان گو زرداری گو کے نعرے لگانے لگے تاہم نعروں کے باوجود بلاول بھٹو زرداری نے خطاب جاری رکھا اورکہا کہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اگر ہم سیاست کے دائرے میں رہ کر سیاست نہیں کریں گے تو باقی اداروں سے بھی امید نہ رکھیں۔ عمر ایوب اسپیکر کے سامنے پہنچنے۔ بلاول بھٹو زرداری نے اسمبلی اراکین کو ادراک ہونا چاہیے کہ اس ادارے کو مستحکم کرنے کا مطلب پاکستان کے عوام کو مستحکم کرنا ہے اور اس کو کمزور کرنے کا مطلب نہ صرف یہ کہ اپنے آپ کو ، وفاق کو اور پورے جمہوری نظام کو کمزور کرنا ہے۔ پاکستان کے عوام نے انتخابات میں ووٹ اس لئے ڈالے ہیں کہ وہ جن معاشی مشکلات کا شکار ہیں ان سے نجات پائیں۔ قائد حزب اختلاف نے اعتراض کیا ہے کہ پی ٹی وی نے ان کی تقریر نہیں دکھائی۔ یہ انداز عمران خان نے شروع کیا تھا۔ پیپلزپارٹی کے اراکین اسمبلی میں فارم 45 اور فارم 47 کے ذریعے نہیں آئے بلکہ کارکنوں کے خون اور پسینے کی محنت سے آئے ہیں۔ عوام ان کی طرف دیکھ رہے ہیں اور ان سب لوگوں کو ملک، جمہوریت، معیشت اور وفاق کو بچانے کے لئے کردار ادا کرنا پڑے گا۔ اگرحزب اختلاف نے کل وزیراعظم کی تقریر سنی ہے تو انہیں علم ہوگا کہ وزیراعظم بحرانوں کے حل کے لئے کوشش کر رہے ہیں۔ وزیراعظم نے قومی مفاہمت کے لئے چارٹر پیش کیا جس کی تجویز پارٹی نے بھی دی تھی۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے مخالفین بھی اس عمل میں شریک ہوں۔ عوام نے کسی واحد سیاسی پارٹی کو فیصلے کرنے کا مینڈیٹ نہیں دیا۔ پیپلزپارٹی کے بغیر حکومت بنانے کے قابل نہیں تھے۔ پاکستان کے عوام نے پیغام دیا ہے کہ وہ سیاستدانوں کی لڑائی سے تنگ آگئے ہیں اور اب قومی مفاہمت اور معیشت کے چارٹر پر ایک دوسرے سے بات کرنا ہوگی۔ آج سے آٹھ نو سال پہلے جو خاندان 35 ہزار روپے میں گزارا کر لیتا تھا وہ اب 70 ہزار میں بھی نہیں کرسکتا۔ مہنگائی بڑھ گئی ہے لیکن لوگوں کی تنخواہیں نہیں بڑھیں۔ اگر اپوزیشن یہ موقع گنوا دیتی ہے تو پھر اسے تنقید کرنے کا بھی کوئی حق نہیں رہے گا۔ ہم تمام اپوزیشن کو دعوت دے رہے ہیں کہ عوام کو معاشی مشکلات سے نکالنے کے لئے ساتھ دیں۔ بھٹو زرداری نے کہا کہ اس مرتبہ پیپلزپارٹی وزارتیں نہیں لے گی۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وہ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے اس مطالبے کی حمایت کرتے ہیں کہ 9مئی کے واقعات کی عدالتی تحقیقات کرائی جائیں لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ پی ٹی آئی ہمیں اس بات کی یقین دہانی کروائے کہ عدالتی کمیشن کے فیصلے کو سب تسلیم کریں گے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے کہیں کہ وہ 9مئی کے عدالتی کمیشن کی سربراہی کریں تاکہ 9مئی کے مجرمان کو سزا دی جا سکے۔ اپنے خطاب کے آخر میں چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعظم شہباز شریف کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ قومی اسمبلی کا اجلاس ایاز صادق کی سربراہی میں شروع ہوا جس کی سربراہی بعد ازاں ڈپٹی سپیکر نے کی۔ قومی اسمبلی میں پی پی چیئرمین بلاول بھٹو اور خالد مقبول صدیقی کی تقاریر کے دوران سنی اتحاد کونسل کے اراکین نے شدید شور شرابہ کیا۔ اپوزیشن اور حکومتی اراکین کی تقاریر کے دوران کورم کی نشاندہی کردی گئی۔ تاہم اجلاس جاری ہی تھا کہ اس دوران کورم کی نشاندہی کی گئی جس پر ڈپٹی اسپیکرنے گنتی سے قبل ہی اسمبلی کا اجلاس جمعہ کی شام 5 بجے تک ملتوی کردیا۔ اس موقع پر سنی اتحاد کونسل کے ایم این اے اور پی پی کے آغا رفیع اللہ کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔ اسپیکر ایاز صادق نے سنی اتحاد کونسل کے اراکین کو اپنی نشستوں پر بیٹھنے کی ہدایت کی جب کہ اپوزیشن ارکان گو زرداری کے نعرے لگاتے رہے۔ بلاول بھٹو زرداری کی تقریر کے اختتام پر وزیر اعظم شہباز شریف ان کی نشست پر پہنچ گئے اور اچھی تقریر کرنے پر انہیں مبارک دی اور مصافحہ کیا۔ بعد ازاں WHO THE HELL ARE YOUکوکارروائی سے حذف کر دیا گیا۔ جس پر بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ میں بھی چاہتا ہوں اس کوکارروائی سے حذف کریں۔