اسلام آباد (عترت جعفری) الیکشن کمشن کے فیصلہ کے بعد مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی سمیت اتحادی جماعتیں قومی اسمبلی کے ایوان میں دو تہائی اکثریت کے قریب پہنچ جائیں گی۔ اس کے ساتھ پنجاب بلوچستان اور سندھ میں ان کی اپنی حکومتیں قائم ہیں۔ الیکشن کمشن کے فیصلہ کی روشنی میں پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی، کے پی کے اسمبلی مجموعی طور پر 77 کے قریب سیٹوں سے محرومی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 23 سیٹیں تو قومی اسمبلی کی ہیں۔ اتحادی حکومت کے لیے ایک موقع پیدا ہوا ہے کہ وہ اپنے بھاری مینڈیٹ کی بدولت ضروری قانون سازی کر سکے گی۔ پی ٹی آئی کو بھی کے پی کے اسمبلی میں بھاری مینڈیٹ حاصل ہے، اس طرح تمام بڑی جماعتیں کہیں نہ کہیں اقتدار کی بینچز پر موجود ہیں۔ یہ ایک موقع کے ساتھ ساتھ کہ وہ اپنی پالیسیوں اور سرعت کے ساتھ اقدامات کے ذریعے معیشت کو سنبھالا دینے کی کوشش کریں، ملک کے اندر سرمایہ کاری خصوصاً غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے سرخ فیتے سے نجات حاصل کریں اور بیوروکریسی سے کام لیں۔ مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی، ایم کیو ایم، مسلم لیگ ق، استحکام پارٹی کو اپنے اقتدار کے ابتدائی ہفتوں کے اندر جن مسائل پر فوری ڈیلیور کرنا ہوگا ان میں غربت سر فہرست ہے۔ گزشتہ ہفتے ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صرف ایک سال کے دوران 12 ملین سے زائد پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے آ چکے ہیں۔ اس وقت ملک کی تقریباً 240 ملین کی آبادی کا قریباً 40 فیصد حصہ غربت کی حد سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے۔ مہنگائی دوسرا بڑا مسئلہ ہے اور ملک کے تمام ادارے جو مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے ضمن میں آتے ہیں وہ اب ان جماعتوں کے اختیار کے تحت آ چکے ہیں۔ حکومت کا مہنگائی کی روک تھام کے لئے پہلا امتحان رمضان المبارک کے دوران ہوگا۔ مہنگائی سر اٹھا رہی ہے اور اس وقت تمام اشیاء ضروریات کے نرخ بڑھ رہے ہیں۔ کے پی کے نگران حکومت کے ایک ذمہ دار کا بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ ہم جاتے ہوئے 100 ارب روپے خزانے میں چھوڑ کر جا رہے ہیں جب ہم نے دفتر سنبھالا تھا تو ایک روپیہ بھی نہیں تھا۔ کے پی کے میں امن کے مسائل موجود ہیں اور آئے روز ایسے واقعات ہو رہے ہیں جو امن وامان کے بگاڑ کا باعث ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بارشوں اور سیلاب سے انفراسٹرکچر کو شدید نقصان ہوا ہے۔ صوبے میں اس حوالے سے کام کرنا ہوگا اور اس کے علاوہ کے پی کے وہ صوبہ ہے جہاں غربت کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ ان تمام جماعتوں کو فوری طور پر ایک دوسرے سے رابطے کے دروازے کھولنا ہوں گے اور مفاہمت کی طرف بڑھنا پڑے گا تاکہ ملک کے سنگین مسائل سے نبرد آزما ہونے کا موقع ملے۔ سنی اتحاد کونسل قومی اسمبلی میں 23 مخصوص نشستوں سے محروم ہوگئی۔ یہ قومی اسمبلی میں خواتین کی 20 جبکہ اقلیتوں کی 3 مخصوص نشستوں سے محروم ہوئی۔ سنی اتحاد کونسل پنجاب سے خواتین کی 12 اور خیبر پی کے سے 8 نشستوں سے محروم ہوئی۔
معیشت غربت مہنگائی اتحادےوں کےلئے چےنجر خےبرپی کے امن عامہ کے مسا ئل
Mar 05, 2024