ایک تجزیہ! BENAZIR,S MURDER MYSTERY

یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ سقوط ڈھاکہ کے تینوں مرکزی کردار طبعی موت نہ مرے۔ تختہ دار اور دستِ قاتل نے جسم و جاں کا رشتہ منقطع کر ڈالا۔ ذوالفقار علی بھٹو کا ’جوڈیشل مرڈر ہوا‘ شیخ مجیب الرحمان اور اندرا گاندھی بھی گولیوں کا نشانہ بنے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ تینوں مقبول لیڈر تھے۔ پاکستانیوں کی اکثریت بھٹو مرحوم سے پیار کرتی تھی اور انہیں قائد عوام اور فخر ایشیا تک کے القابات سے نواز ڈالا تھا۔ شیخ مجیب بھی بوجوہ ’بنگلہ بندھو‘ تھا۔ اندرا گاندھی کو ہندوستان کا سب سے بڑا سول ایوارڈ دیا گیا۔ پارلیمنٹ میں جو شخص اسے متعارف کرا رہا تھا اس نے بڑے فخریہ اور جذباتی انداز میں کہا
MEMBERS OF THE PARLIAMENT
I AM GIONG TO INTRODUCE YOU TO A LADY PRIEMINISTER WHO HAS NOT ONLY MADE HISTORY BUT ALSO GEOGRAPHY
اہل وطن اگر بین السطور ان الفاظ کے معانی اور مفاہیم سمجھیں تو ان میں نہ صرف ماضی کے فخر و مباہات کا تذکرہ ہے بلکہ ہندوستان کے مستقبل کے عزائم کی ہلکی سی جھلک بھی نظر آتی ہے۔
بدقسمتی سے مرگ ناگہانی صرف اس تثلیث تک محدود نہ رہی بلکہ ان کی اولاد تک کا پیچھا کرتی رہی۔ سنجے گاندھی جہاز چلاتا ہوا ایک ہوائی حادثے کا شکار ہوگیا۔ ایک طویل عرصے تک شک کیا جاتا رہا کہ انجن میں کسی سازش کے تحت خرابی پیدا کی گئی تھی اندرا گاندھی کو اس کے سکیورٹی گارڈز نے بھون ڈالا۔ سکھ سپاہیوں کو اس بات کاقلق تھا کہ گولڈن ٹیمپل کی DESECRATION کی مرتکب ہوئی تھی۔ سرگباش ایک زیرک خاتون تھیں۔ پتہ نہیں وہ ایک تاریخی حقیقت کیسے فراموش کر بیٹھیں کہ خالصہ کچھ نہیں بھولتا۔ بدلہ لینا اس کی سرشت میں شامل ہے۔ انہوں نے تو کئی سالوں بعد اس خون آشام بھیڑئیے جنرل ڈائر کو بھی مار ڈالا تھا جو جلیانوالہ باغ کے قتل عام کا محرک تھا۔ ایک دھان پان سی لڑکی بظاہر راجیو گاندھی کے چرنوں کو چھونے کےلئے جھکی۔ انہوں نے اپنا دست شفقت اس کے سر پر رکھا۔ ایک زبردست دھماکہ ہوا اور تیسری بار وزیراعظم بننے کی آرزو لئے وہ پر لوک سدھار گئے۔
-3شاہنواز کے قتل میں ضیاءالحق پر شک کیا جاتا رہا۔ میں نے کانز جا کر وہ فلیٹ دیکھا ہے جہاں صبح وہ مردہ حالت میں پایا گیا۔ اس کے معدے سے خواب آور گولیوں کی خاصی مقدار نکلی تھی۔ دروازہ اندر سے مقفل تھا۔ ضیاءالحق صرف اس کی بیوی سے ساز باز کرکے ہی اس تک پہنچ سکتا تھا۔ فرنچ پولیس کی تفتیش کے مطابق وہ بے قصور تھی لیکن آج بھی اکثریت اس کی افسوسناک موت کو ’شہادت‘ ہی سمجھتی ہے۔ ایک بات کی وضاحت شاید ضروری ہو۔ بھٹو مرحوم کا بیرون ملک بینکوں میں ایک ٹکہ تک نہ تھا۔ دنیا کے اس مہنگے ترین علاقے میں یہ خاندان اپنی خالہ بہجت حریری کے ولا میں ٹھہرا ہوا تھا جس کا شمار ایران کی امیر عورتوں میں ہوتا تھا۔ شاہنواز کا الگ ٹھہرنا محل نظر ہے۔ بعض عرب حکمران وقتاً فوقتاً ان کی مالی مدد کرتے رہتے ہیں۔
-4 مرتضیٰ بھٹو کو جس طرح اور جن حالات میں مارا گیا وہ یقیناً افسوسناک ہے۔ معاملہ چونکہ ہنوز عدالت میں ہے لہٰذا کچھ کہنا مناسب نہیں ہے۔ اگر فاطمہ بھٹو اور غنویٰ بھٹو کے بیانات پڑھے جائیں تو ایک ہی گمان ہوتا ہے۔
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
ملک کی نامور شاعرہ پروین شاکر نے نہ جانے کیا سوچ کر برسوں پہلے کہا تھا
کھینچا ہے جب بھی طول وراثت کی جنگ نے
وارث رہا ہے تاج کا اور تخت بھی نہیں
-5 اس تناظر میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت ایک بہت بڑا حادثہ اور قومی المیہ تھی۔ وہ نوجوان ناتجربہ کار جسے حبیب جالب مرحوم نے نہتی لڑکی کہا تھا اپنی فہم و فراست عزم و ہمت اور جوش و ولولے سے قومی سیاست پر چھا گئی۔ ایک ایسے ملک میں جہاں عورت کی حکمرانی کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔ اس نے دو بار حکومت کی۔ اس کی شہرت چار دانگ پھیل گئی۔ ہندوستان کے وزیراعظم راجیو گاندھی نے ایک بار کہا تھا
She has become the house hold tack in India
(اس کے کارناموں کا ذکر ہندوستان کے ہر گھر میں ہوتا ہے) (جاری ہے)

ای پیپر دی نیشن