”نگران حکومت کی مدت میں توسیع قبول نہیں“ وزیراعظم کا پرامن اور شفاف الیکشن کرانے کا عزم

May 05, 2013

نگرانوں کو مدت میں توسیع کی پیشکش کس نے کی؟....
 نگران وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو نے عام انتخابات گیارہ مئی کو پر امن، آزادانہ، منصفانہ، شفاف اور غیر جانبدارنہ انداز میںکرانے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں امن و امان کا قیام نگران حکومت کی اہم ترجیح ہے، کسی کو عوام کی جان و مال سے کھیلنے اور امن کو خراب کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے، شفاف انتخابات کیلئے نگران حکومت تمام ضروری اقدامات کررہی ہے ۔ انتخابات کے بعد نگران حکومت عوام کے منتخب نمائندوں کو بغیر کسی تاخیر کے اقتدار منتقل کر دےگی، ہم کسی قیمت پر اور کسی صورت میں نگران حکومت کی مدت میں توسیع قبول نہیں کرینگے، بلوچستان، خیبر پی کے اور کراچی میں دہشت گردی قابل مذمت ہے، امن و امان کا قیام آئینی طور پر صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے، صوبائی وزرائے اعلیٰ اور قانون نافذ کرنیوالے تمام اداروں سے مسلسل رابطے میں ہوں۔ آزاد اور غیر جانبدار الیکشن کمیشن انتخابی عمل کے دوران کسی بھی چیلنج سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ ریڈیو اور ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے مزیدکہا کہ میں یقین دلانا چاہتا ہوں کہ عام انتخابات پ±رامن، آزادانہ، منصفانہ، شفاف اورغیرجانبدارنہ انداز میں انشاءاللہ 11 مئی کوہونگے۔ یہی الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کا آئینی مینڈیٹ ہے۔ ووٹ کے ذریعے رائے کا اظہار ہر پاکستانی ووٹر کا حق ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ ووٹر اپنی مرضی اور پسند کے مطابق آزادی کے ساتھ اپنے ووٹ کا استعمال کر سکے۔ ہم اس بات کو یقینی بنائینگے کہ ووٹ کا تقدس برقرار رکھا جائے۔ بلاشبہ عام انتخابات کو پرامن‘ آزادانہ‘ منصفانہ‘ شفاف اور غیرجانبدارانہ بنانا الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کا مینڈیٹ ہے جس کا اعتراف نگران وزیراعظم نے کیا جبکہ الیکشن کمیشن کا مو¿قف ہے کہ انتخابات کو پرامن بنانا نگران حکومت کی ذمہ داری ہے اور الیکشن کمیشن اس حوالے سے کئے گئے اقدامات پر مطمئن نہیں ہے۔ دوسری طرف الیکشن کمیشن انتخابات کو شفاف بنانے کا عزم ظاہر کرتا رہا ہے‘ قوم اسکی کارکردگی سے بھی مطمئن نہیں۔ آرٹیکل 62 اور 63 کے اطلاق کے بعد جس طرح دعوے کئے گئے‘ ان میں کہیں عمل ہوتا دکھائی نہیں دیا۔ یوں لگتا ہے کہ اس آرٹیکل کا اطلاق سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف پر ہی کیا گیا ہے۔ جعلی ڈگری والوں کو سزائیں سنا کر انتخابات لڑنے کی اجازت دے دی گئی‘ کرپشن کی بنیاد پر کتنے لوگوں کے کاغذات مسترد ہوئے؟ نگران حکومت اور الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کی اوورسیز پاکستانیوں کو الیکشن میں حصہ لینے کا حق دینے کی کوششوں پر بھی پانی پھیر دیا۔ زرمبادلہ کا سب سے بڑا ذریعہ تارکین وطن کی ترسیلات ہیں‘ ان کو ووٹ کا حق ترجیحاً دینا چاہیے تھا۔ سپریم کورٹ میں لیت و لعل سے کام لینے اور تاخیری حربے اختیار کرکے الیکشن کمیشن اور نگران حکمرانوں نے تارکین وطن کو مایوس کیا۔ ملک میں موجود پاکستانی بھی نگران حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں‘ ان کیلئے امن و امان کی صورتحال درد سر بنی ہوئی ہے۔ کراچی‘ بلوچستان اور خیبر پی کے میں دہشت گردی کی زور پکڑتی کارروائیوں کے باعث سیاسی پارٹیاں اور امیدوار اطمینان سے انتخابی مم چلانے سے قاصر ہیں۔ نگران وزیراعظم فرماتے ہیں کہ امن و امان کا قیام نگران حکومت کی اہم ترجیح ہے‘ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایسے عزم کا عملی اظہار کہیں نظر نہیں آتا۔ جس وقت وزیراعظم امن و امان کے حوالے سے قوم سے خطاب کر رہے تھے‘ عین اس وقت اے این پی کی قیادت نے کراچی میں اپنے امیدوار ایم این اے صادق خٹک اور انکے بیٹے کے قتل کا ذمہ دار نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کو قرار دیا‘ انہوں نے اسکی ایف آئی آر وزیر داخلہ‘ وزیراعلیٰ سندھ اور الیکشن کمیشن کیخلاف درج کرانے کا اعلان کیا ہے۔ اسفندیار ولی کہتے ہیں کہ انکے امیدوار کو سکیورٹی فراہم نہیں کی گئی تھی۔ کراچی میں اے این پی کے امیدوار پر حملے کی ذمہ داری حسبِ سابق طالبان نے قبول کی ہے۔ ایم کیو ایم‘ اے این پی اور پیپلز پارٹی کو عسکریت پسندوں نے ٹارگٹ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ نگران وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہمارے تہذیب و تمدن کی بنیاد صوفیائ، اولیا کرام اور بر گزیدہ ہستیوں کی تعلیمات پر مبنی ہے۔ انہوں نے امن، محبت، بھائی چارے اور رواداری کا پیغام دے کر لوگوں کے دل موہ لئے۔ تمام صوفیاءکرام بشمول بابا فرید، رحمن بابا، شاہ عبداللطیف بھٹائی اور مست توکلی کا بھی یہی پیغام ہے۔ صوفیاءکی تعلیمات اور پیغامات کا اثر تو باشعور اور درددل رکھنے والے لوگوں پر ہوتا ہے۔ دہشت گردوں پر نہیں۔ وزیراعظم صاحب ایسے پیغامات سے امن قائم نہیں کر سکتے۔ یہ زبان انکی سمجھ نہیں آسکتی۔ دہشت گردوں کے ساتھ اسی زبان میں بات کرنا ہو گی جو وہ سمجھتے ہیں۔ وہ زبان کڑے احتساب کی ہے‘ سخت کارروائی اور بے لاگ اپریشن کی ہے‘ قوم کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی ہے۔ اس کیلئے حکومت کو اپنی رٹ قائم کرنا ہو گی۔ دہشت گردی کے خاتمے کے بغیر امن کا قیام ممکن نہیں ہے۔ دہشت گردی گزشتہ دس گیارہ سال سے حکومتوں کیلئے چیلنج رہی ہے‘ اسکے خاتمے کیلئے مصمم ارادے اور غیرمتزلزل عزم کی ضرورت ہے جس کا نگران حکومت کے ہاں فقدان ہی فقدان ہے۔ اسکی رٹ کا یہ عالم ہے کہ وزیراعظم صاحب نے تین ہفتے قبل وزارت خزانہ کو ہنگامی بنیادوں پر لوڈشیڈنگ کا مسئلہ حل کرنے کیلئے 45 ارب روپے جاری کرنے کا حکم دیا‘ اس کو وزارت خزانہ نے کوئی اہمیت نہیں دی۔ لوڈشیڈنگ کا عذاب اضافہ کے ساتھ بدستور جاری ہے۔ نگران حکمران یہ تو چاہتے ہیں کہ ووٹر آزادی کے ساتھ ووٹ کا حق استعمال کر سکے‘ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ووٹر گنوں کی گھن گرج‘ خودکش حملوں اور بم دھماکوں میں گھر سے پولنگ سٹیشن تک جا کر صحیح سلامت واپس آجائیگا؟ انتظامیہ کو اپنے اقدامات سے تحفظ کا یقین دلانا ہو گا۔ نگران وزیراعظم نے اپنے خطاب میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کا عزم ظاہر کیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ نگران حکومت کی مدت میں توسیع قبول نہیں کی جائیگی۔ وزیراعظم کے اس اظہار سے جمہوری حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔ وہ بجا سوال کرتے ہیں‘ یہ وزیراعظم کے ذہن میں سوچ کہاں سے آئی؟ ایسی تو کوئی صورتحال نہیں کہ نگران حکومت کی مدت میں توسیع کر دی جائے‘ نگران حکمرانوں کا مینڈیٹ صرف اور صرف شفاف اور پرامن انتخابات کا انعقاد ہے‘ جبکہ اس حوالے سے انکی اب تک کی کارکردگی قابل فخر نہیں‘ البتہ محسوس ہوتا ہے کہ انکے اندر ہی کہیں اپنی مدت میں اضافے کی خواہش پائی جاتی ہے‘ جس کی ایک جھلک وزیراعظم کے خطاب کے اس حصے میں موجود ہے‘ جس میں کہا گیا ہے کہ میں نے وزارت خزانہ کو ہدایات جاری کی ہیں کہ آئندہ بجٹ حقیقت پسندانہ ہو، اخراجات کو کم سے کم سطح پر رکھا جائے، سادگی اختیار کی جائے اور قوم کے وسائل کا بہترین استعمال کیا جائے۔ بجٹ میں کسی شاہانہ یا غیر ضروری اخراجات کی گنجائش نہ رکھی جائے، عوامی فلاح و بہبود کو ترجیح دی جائے اور عام آدمی پر غیر ضروری بوجھ نہ ڈالا جائے۔ بجٹ سازی منتخب حکومت کا کام ہے‘ نگران وزیراعظم کو یہ پریشانی کیوں لاحق ہو گئی؟ وہ اپنے کام سے کام رکھیں‘ انتخابات کے التواءکے شکوک و شبہات کو ہوا نہ دیں۔ وزیراعظم صاحب واضح کریں کہ ان کو نگران حکومت کی مدت بڑھانے کی پیشکش کہاں سے ہوئی جو انہیں قابل قبول نہیں۔ بہتر ہے کہ وہ نگران حکومت کی توسیع کے معاملات کو بالائے طاق رکھ کر پرامن‘ شفاف اور منصفانہ انتخابات کی طرف بھرپور توجہ دیں‘ جو انکا اولین مینڈیٹ بھی ہے۔

مزیدخبریں