نوجوان ووٹر

May 05, 2013

سید شعیب الدین احمد

الیکشن 2013ءسر پر آپہنچا ہے۔ ہر طرف شور برپا ہے کہ ”میری پارٹی“ جیتے گی۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ”مستند“ سیاسی جماعتیں ہیں۔ مسلم لیگ (ن) ملک بنانے والی مسلم لیگ کا تسلسل ہے (بے شک اس تسلسل کی دعویدار مزید مسلم لیگیں بھی موجود ہیں) جبکہ پیپلز پارٹی دائیں بازو کی مسلم لیگ کو چیلنج کرنیوالی واحد اعتدال پسند، روشن خیال بلکہ سیکولر کہلانے والی جماعت ہے جو مسلم لیگ کی طرح ملک کے چاروں صوبوں، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر میں موجود ہے مگر آج ان دونوں ملک گیر جماعتوں کو ایک تیسری اور تیزی سے ابھرتی سیاسی قوت کا سامنا ہے۔ یہ تیسری قوت پاکستان تحریک انصاف ہے۔ 1992ءکا عالمی کپ کرکٹ ٹورنامنٹ جیت کر پہلے سماجی شعبے اور پھر سیاست کے میدان میں اترنیوالے عمران خان اس جماعت کے سربراہ اور بانی ہیں۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ نوجوانوں کے پسندیدہ لیڈر ہیں اسی لئے اپنی کامیابی کی کنجی وہ ساڑھے تین کروڑ نوجوان ووٹرز کو قرار دیتے ہیں حالانکہ یہ ”دعویٰ“ حقائق کے برعکس ہے۔ 2008ءمیں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 8 کروڑ 7 لاکھ 96 ہزار 382 تھی جو گزشتہ پانچ برس میں بڑھ کر 8 کروڑ 61 لاکھ 79 ہزار 802 ہوگئی ہے۔ اس طرح ووٹروں کی تعداد میں اضافہ 53 لاکھ 83 ہزار 420 ہے۔ 18 سالہ نوجوان کو ووٹ کا حق پرویز مشرف نے 2001ءمیں دیا تھا اور عمران خان جس ووٹر کی بات کررہے ہیں ان کی اکثریت دو بلدیاتی اور دو قومی انتخابات میں پہلے بھی ووٹ ڈال چکی ہے۔ اس دفعہ نوجوان ووٹ میں اضافہ تقریباً 54 لاکھ ووٹوں کا ہے۔ یہ 54 لاکھ ووٹرز یقیناً صرف تحریک انصاف کا نہیں ہے۔ اس میں مسلم لیگی ووٹرز بھی ہے اور پیپلز پارٹی کا جیالا بھی شامل ہے مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ سب سے بڑی جماعت ہونے کی دعویدار پیپلز پارٹی کی حکومت اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں نوجوانوں کیلئے کچھ نہ کرسکی۔ نوجوانوں کی اکثریت کا رجحان عمران خان کی مقناطیسی شخصیت کی طرف ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی کے بزرجمہروں نے اس طرف سے آنکھیں بند کئے رکھیں۔ مسلم لیگ (ن) نے نوجوانوں کو عمران خان سے ”بچانے“ کیلئے اربوں روپے لیپ ٹاپ سکیم پر خرچ کردئیے مگر پیپلز پارٹی سوتی رہی۔ پیپلز پارٹی کی قیادت ذوالفقار علی بھٹو کے بعد بے نظیر بھٹو نے سنبھالی تو نوجوان اور خوبصورت بے نظیر ایک ایسی لیڈر تھی جس کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے لاکھوں افراد اپریل 1986ءمیں لاہور ائرپورٹ سے لیکر کئی کلومیٹر طویل شاہراہ قائداعظم پر قطاریں باندھ کر کھڑے تھے۔ بے نظیر بھٹو کی ذات کا یہ کرشمہ انکی موت تک جاری رہا مگر اسکے باوجود ےب نظیر بھٹو نے اپنے پہلے ہی دور حکومت میں سندھ کے نوجوان رکن قومی اسمبلی سید پرویز علی شاہ کو نوجوانوں کا وزیر بنا دیا۔ بے نظیر بھٹو نے جونیجو دور میں بننے والے یوتھ انوسٹمنٹ پروموشن سوسائٹی کی صحیح معنوں میں سرپرستی کی اور بیروزگار نوجوانوں کو خود روزگار سکیم کے تحت دل کھول کر قرضے دئیے۔ نوجوانوں کو بیرون ملک پڑھائی کیلئے بھی مدد فراہم کی گئی مگر آج نہ بے نظیر بھٹو کی کرشماتی شخصیت ہے اور نہ ہی کابینہ میں نوجوانوں کیلئے کوئی وزیر بنایا گیا۔ نوجوانوں کا وزیر تو دور کی بات ”نوجوان وزیر“ بھی کوئی نہیں تھا۔ وزراءکی اکثریت ”بزرگوں“ پر مشتمل تھی۔ واحد ”نوجوان“ وزیر حنا ربانی کھر تھیں۔ پیپلز پارٹی نے انہیں بہت اہم وزارت سوپنی ورنہ بطور ”یوتھ منسٹر“ وہ بے حد کامیاب رہتیں۔ اس وقت پیپلز پارٹی کی قیادت میں نوجوانوں کی کمی نہیں۔ نوجوان قیادت بلاول بھٹو اور آصفہ بھٹو ہیں مگر یہ نوجوان قیادت صرف ”ٹویٹر“ پر دستیاب ہے۔ انکا اپنے جیالوں سے دور کا بھی تعلق نہیں تو عوام سے کیا معاملہ ہوگا؟ پیپلز پارٹی کی اسی کمزوری کا صحیح معنوں میں فائدہ تحریک انصاف نے اٹھایا ہے۔ ورلڈکپ جیتنے والے اپنے دور کے ”لیڈی کلر“ کی شہرت رکھنے والے عمران خان آج نوجوان نسل کے پسندیدہ لیڈر ہیں۔ انکی اسی پسندید گی سے خوفزدہ ہو کر مسلم لیگ (ن) نے اربوں روپے لیپ ٹاپ سکیم پر خرچ کرڈالے۔ لیپ ٹاپ کے بعد سولر لیمپس بھی دئیے گئے۔ نوجوانوں کو تحریک انصاف سے چھیننے کیلئے پنجاب بھر میں اربوں روپے خرچ کرکے یوتھ فیسٹیول کا انعقاد کروایا جبکہ دوسری طرف پیپلز پارٹی کی طلبہ تنظیم پی ایس ایف بھی نہ ہونے کے برابر تھی اور بمشکل چند طلبہ پر مشتمل تھی۔ پیپلز یوتھ آرگنائیزشن کا سربراہ میاں ایوب ”ادھیڑ عمری“ کی منازل میں تھا مگر نوجوانوں کا صدر تھا اور یہ تنظیم کسی بھی تقریب میں 25 سے 50 نوجوانوں کے گروپ کے ذریعے شور مچاتی ضرور نظر آتی تھی۔ پیپلز پارٹی کا تمام تر دارومدار صرف بلاول بھٹو زرداری اور آصفہ بھٹو زرداری پر رہا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بے نظیر بھٹو کی مکمل تربیت کرکے انہیں جانشین بنایا تھا۔ بلاول ابھی 25 سال کے نہیں ہوئے مگر ان میں موجود بے نظیر بھٹو کی شباہت انہیں یقیناً میدان میں آنے پر ایک ایسا ”مرکز“ بنا سکتی تھی جس کے گرد بہت سی قوتیں اور خصوصاً نوجوان اکٹھے ہوسکتے۔ آصفہ بھٹو زرداری اس معاملے میں زیادہ کامیاب ہوسکتی تھیں مگر وہ ابھی 20 سال کی بھی نہیں ہوئیں۔ پیپلز پارٹی کو اپنی ان کمزوریوں کے ساتھ ہی میدان میں رہنا اور کامیابی کیلئے کوشش کرنا تھی مگر بدقسمتی سے دہشت گردوں نے بلاول کو بلاول ہاﺅس کی بلند و بالا دیواروں تک محدود کردیا ہے۔ ان حالات میں پیپلز پارٹی کے پاس نوجوان ووٹ کو متثار کرنے کیلئے موجودہ الیکشن میں کچھ نہیں البتہ مسلم لیگ (ن) بروقت ”کارروائی“ ڈال کر نوجوان ووٹروں کو ضرور متاثر کرچکی ہے۔ فیصلہ اب نوجوانوں نے 11 مئی کو ووٹ ڈالتے ہوئے کرنا ہے۔ بیلٹ باکس کھلیں گے تو حقیقت سامنے آجائیگی۔

مزیدخبریں