لندن (تجزیاتی رپورٹ: خالد ایچ لودھی) محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کیس میں ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر چودھری ذوالفقار علی کا اسلام آباد میں دن دیہاڑے قتل اس امر کو مزید تقویت دیتا ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل میں ملوث غیرملکی ہاتھوں کے ساتھ ساتھ خود پاکستان میں بھی ایسے خفیہ ہاتھ ضرور موجود ہیں جو اس قتل میں کسی نہ کسی حوالے سے ملوث ہیں۔ چودھری ذوالفقار علی مرحوم اس وقت بینظیر بھٹو کے قتل کے مقدمہ کے علاوہ 2 اور انتہائی حساس مقدمات کی تحقیقات بھی کر رہے تھے جیسا کہ ماضی میں محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کے افسوسناک واقعہ کے عینی شاہد اور پیپلز پارٹی کے کارکن خالد شہنشاہ کا قتل بھی اپنے اندر بے پناہ سوالیہ نشان لئے ہوئے ہے۔ اب تک محترمہ بینظیر بھٹو کا قتل جو کہ اندھے قتل کا واقعہ بنا کر رکھ دیا گیا ہے اس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت اپنی آئینی مدت پوری کر کے سبکدوش ہو چکی ہے اور دلچسپ امر یہ ہے کہ اس بارے عرصے میں صرف اور صرف سابق حکومت کی وفاقی کابینہ میں رحمن ملک کی شخصیت کو قومی سلامتی کا محافظ ضروری تصور کیا گیا حالانکہ محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کے حوالے سے انگلیاں رحمن ملک پر بھی اٹھائی جاتی ہیں۔ این آر او سے لیکر محترمہ بینظیر بھٹو کی پاکستان واپسی تک رحمن ملک مکمل طور پر محترمہ بینظیر بھٹو کے انتہائی قریب رہ کر مشرف حکومت کے ساتھ قریبی رابطوں کا کام کرتے رہے ہیں۔ لندن میں رحمن ملک کے فلیٹ پر محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے مابین ”میثاق جمہوریت“ کا معاہدہ کروانے تک رحمن ملک ہی وہ واحد شخصیت تھے جو کہ پیپلز پارٹی کی صفوں میں پارٹی کے سینئر رہنماﺅں کی موجودگی میں بھی محترمہ بینظیر بھٹو کے قریب تھے۔ پاکستان آنے کیلئے لندن سے دوبئی اور پھر کراچی تک تمام تر سکیورٹی کے امور رحمن ملک ہی کے سپرد تھے۔ پیپلز پارٹی کے اندرونی حلقوں میں رحمن ملک اور حسین حقانی کی شخصیات کو ہمیشہ سے مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا رہا ہے اور اکثر پارٹی رہنما رحمن ملک کے ماضی کے بارے میں محترمہ بے نظیر بھٹو سے تذکرہ کر کے ان سے دور رہنے کا مشورہ بھی دیا کرتے تھے۔ جس روز محترمہ بینظیر بھٹو کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں شہید کیا گیا اس کے دوسرے روز میں نے لندن میں موجود واجد شمس الحسن (موجودہ پاکستانی ہائی کمشنر برطانیہ) کو ان کے موبائل فون پر محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ رحمن ملک کی شخصیت انتہائی مشکوک رہی اور میں اس کو 100 فیصد اس افسوسناک واقعہ کا ذمہ دار قرار دیتا ہوں۔ میں آن ریکارڈ بتا رہا ہوں کہ اس وقت واجد شمس الحسن نے میرے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں بھی رحمن ملک ہی کو 110 فیصد اس واقعہ کا ذمہ دار قرار دیتا ہوں۔ بعد میں کیا ہوا؟ یہ تو اللہ تعالیٰ ہی کی ذات جانتی ہے۔ واجد شمس الحسن برطانیہ میں ہائی کمشنر تعینات تھے اور رحمن ملک بطور وزیر داخلہ برطانیہ کے سرکاری اور نجی دوروں پر آتے رہے۔ ان کے یہ دورے پاکستان کے کسی بھی وزیر داخلہ سے بہت زیادہ ہیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کے محرکات کچھ بھی ہوں اگر اس قتل کے بارے میں اصل حقائق اور خفیہ ہاتھوں کو تلاش کرنا ہے تو پھر پاکستان میں سیاستدانوں کی سکیورٹی کو محفوظ بنانے کے ساتھ ساتھ اب حکومت پاکستان کو تلخ فیصلے کرتے ہوئے محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کے بارے میں تحقیقات کرنے والے افسران کو سکیورٹی بھی فراہم کرنی چاہئے اور خاص طور پر پاکستان پیپلز پارٹی کی اندرونی صفوں سے بھی ان خفیہ ہاتھوں کو بے نقاب کرنا ہو گا جو کہ محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کے واقعہ میں ملوث ہیں یا پھر وہ کسی نہ کسی حوالے سے خفیہ ہاتھوں سے آگاہ ہیں۔
خفیہ ہاتھ