پاکستان خوفناک خانہ جنگی کا شکار بن گیا ہے

قائداعظم محمد علی جناحؒ کا پاکستان آج زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ پاکستانی ایک دوسرے کو بے دردی سے قتل کر رہے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں پاکستانی قوم کا مستقبل تاریک تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس بات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ 99.9 فیصد پاکستانی اس خانہ جنگی سے سخت پریشان ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ اس جنگ کو جلد از جلد ختم کر دیا جائے۔ زیادہ تر لوگوں کو اس بات کا علم نہ ہے کہ یہ خانہ جنگی کیوں ہو رہی ہے؟ وہ لوگ کیا چاہتے ہیں اور ان کے مطالبات کیا ہیں؟ یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ ہمارے پاکستانی سرحدی بھائی محب وطن ہیں۔ یہ سارے لوگ ہمیشہ سے پاکستان کی آزادی کی جنگ میں صف اول میں شامل ہوتے تھے۔ یہ تاریخی واقعہ بھی یاد رکھا جائے کہ اس وقت کے سرحدی اور حال کے صوبہ خیبر پی کے میں لوگوں نے یک زبان ہو کر رائے شماری میں پاکستان کی حمایت کی تھی۔ وہ لوگ آٹے میں نمک کے برابر تھے جو پاکستان کے قیام کے خلاف تھے۔ ان لوگوں کا ہندوستان اور پاکستان کے متعلق علیحدہ اپنا نکتہ نظر تھا۔ ان کے خیال کے مطابق برصغیر کے مسلمان دو حصوں میں تقسیم ہو کر کمزور ہو جائیں گے۔ ان کا یہ نظریہ آج سو فیصد غلط اور بے بنیاد ثابت ہو چکا ہے۔ آج اس خطے کے مسلمان دنیا کی ایک عظیم طاقت میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ اس طاقت کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اور اس کی ایک اندازے کے مطابق آبادی20 کروڑ نفوس پر مشتمل ہے۔ پاکستان دنیا کی ایک ایٹمی طاقت ہے۔   اس کے باوجود آج ہم بہت سے مسائل کا شکار ہیں۔ میرا اس بات پر پورا یقین ہے کہ ہم قرآنی تعلیمات سے ہی اپنے تمام قسم کے مسائل کو حل کر پائیں گے۔ ہم میں بے مثال اتحاد واتفاق پیدا ہو گا۔ قرآنی سوچ سے ہم میں اتحاد پیدا ہو گا اور اسی سوچ ہی سے ہم معاشی اور اقتصادی میدانوں میں ترقی کریں گے۔ یہ بات یاد رکھی جائے کہ آج کی دنیا کا سارا معاشی نظام سود کی بنیاد پر رکھا گیا ہے۔ غور کریں کہ ہم 60 ارب ڈالر کے مقروض ہیں۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ ہم قرض لے کر قرض پر اٹھنے والی سود کی رقوم دنیا کو واپس کرتے ہیں۔ قرضوں کے جال میں ہم لوگ بری طرح پھنس چکے ہوئے ہیں۔ خواہش کے باوجود مستقبل قریب میں ہم اس سودی نظام سے باہر نہ آ سکتے ہیں۔ اگر واقعی ہم سب بیرونی قرضوں سے جان چھڑانا چاہتے ہیں تو اس کام کے لئے ہمارے پاس ایک راستہ موجود ہے۔ حال ہی میں امریکی ذرائع نے یہ خبر دی ہے کہ پاکستان کے امیر لوگوں نے دنیا کے بنکوں میں 83 کھرب ڈالرز جمع کرا رکھے ہیں۔ ان لوگوں میں پاکستان کے تمام بڑے بڑے لوگ شامل ہیں ‘ قانون سازی سے اس دولت کو واپس پاکستان منگوایا جا سکتا ہے۔ اسی رقم سے ہم اپنے تمام بیرونی قرضوں کو ’’چشم زدن‘‘ میں واپس ادا کر سکتے ہیں مذکورہ بالا خانہ جنگی کی اور وجوہات کے علاوہ معاشی بدحالی سرفہرست ہے بے روزگاری عام ہے۔ ’’امیر امیر تر اور غریب غریب تر ‘‘ تیزی سے ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔ لوگوں میں مایوسی اور محرومی کے احساسات پیدا ہو گئے یہی وجہ ہے یعض لوگوں نے کھل کر بغاوت شروع کر رکھی ہے۔ مہنگائی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ لوگ بھوک اور غربت کے ہاتھوں تنگ ہو کر خودکشیاں کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں تھر کے علاقے میں خوفناک قحط پڑا ہوا ہے۔ ’’بھوک اور پیاس‘‘ سے لوگ مر رہے ہیں زندگی تو ایک بار ہی ملا کرتی ہے کیا یہ حکمرانوں اور سیاست دانوں کا فرض نہ ہے کہ وہ ان فاقہ کشوں کی امداد کیلئے اپنے ذاتی اور ملکی خزانوں کا رخ ان قحط زدہ علاقوں کی طرف موڑ دیں ان لوگوں کو مفت راشن دیا جائے۔ ان لوگوں کے روزگار کے متعلق کوئی مستقل منصوبہ بندی کا قیام ضروری ہو گیا ہے۔ اس بات کو سامنے رکھا جائے گا کہ تباہ حال لوگوں میں سے کم از کم ہر خاندان سے ایک فرد کو جنگی بنیادوں پر روزگار دیا جائیگا۔ حکومت کا یہ فرض اول ہے کہ وہ پورے پاکستان سے ان قحط زدہ علاقوں کو جدید سڑکوں سے ملا دے۔ اس طرح تیز رفتاری سے ان آفت زدہ لوگوں کی مدد کی جا سکے گی۔ یہ کتنی خوفناک بات ہے کہ اس سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور میں وہ لوگ ابھی تک بامقصد تعلیم سے محروم چلے آ رہے ہیں میرے نزدیک ایک سازش ہے جس کے تحت کروڑوں پاکستانیوں پر ابھی تک جدید علوم کے دروازے نہ کھل سکے ہیں۔ جان بوجھ کہ اگر سازش پر عمل ہو گا تو یہ بات غداری کے زمرہ میں شامل ہو گی۔ہمارے تمام مسائل کا حل جدید تعلیم کو عام کرنے میں موجود ہے یہ تعلیم کا کام کل نہیں آج کرنا پڑے گا اس طرح ساری سوئی ہوئی قوم یک دم جاگ اٹھے گی۔ چین ‘ کوریا‘ ملائشیا‘ سنگاپور وغیرہ ترقی یافتہ دنیا کی صف میں شامل ہو چکے ہیں ہم بھی ایسا کر سکتے ہیں شرط صرف اور صرف یہ ہے کہ ہمارے سیاست دان اور حکمران ایماندار اور دیانتدار ہو جائیں۔ ٹیلی وژن کی وجہ سے ساری دنیا سکڑ کر واقعی ایک گائوں کی شکل اختیار کر گئی ہے ہمارا راستہ بھی دنیا کے راستوں کے ساتھ ہو گا اسی میں ہماری زندگی ہے۔ ایسا کر کے ہی ہم جہالت کا خاتمہ کر سکیں گے ’’وہم شک گمان‘‘ کی دنیا سے باہر نکل کر اصل دنیا میں داخل ہونا پڑے گا۔ اصل دنیا وہی ہے جس میں ہر شخص دن رات محنت سے کام کر کے اپنی اور اپنے خاندان کی زندگیوں کو بدل دینے کا عزم رکھتا ہے۔ ہم سب کو ’’اللہ تعالیٰ‘‘ نے عقل دے رکھی ہے۔ تعلیم سے اس عقل میں نکھار پیدا ہوا جاتا ہے وہ علم کی سیڑھی پر چڑھ کر اپنے دل و دماغ کی مراد کو پا لیتا ہے۔ سارے پاکستان میں پانی کی کمی ہے۔ بعض پاکستانی علاقوں میں تو ’’کربلا‘‘ کا سماں نظر آتا ہے ابھی تک کالا باغ ڈیم کیوں نہ بنایا گیا ہے؟سندھ‘ بلوچستان‘ اور خیبر پختون خواہ کے بیشتر علاقوں کے لوگ پانی کی بوند کو ترستے ہیں۔ اسی طرح کی صورتحال سے پنجاب کے دور دراز کے علاقے بھی دوچار ہیں۔ کالا باغ ڈیم اور دیگر بے شمار چھوٹے بڑے ڈیمز جنگی بنیادوں پر تعمیر ہوں گے تو پھر ہی پانی کی ’’قحط سالی‘‘ ختم ہو گی۔ میں نے یہ بات پہلے بھی کہی تھی اور اس کو پھر کہتا ہوں کہ کالا باغ بھی ان میں شامل ہو گا مجھے یقین ہے کہ اس طرح کا اگر کوئی قدم اٹھایا گیا تو پھر مذکورہ ڈیم کی تعمیر پر کسی بھی صوبے کو کسی قسم کا اعتراض نہ ہو گا۔ اسی سال 2014ء میں ہی کالاباغ ڈیم پر کام شروع کرنا پڑے گا۔ منگلا ڈیم بھی تقریباً اسی طرح کے اعتراضات اور مخالفت کے باوجود بنایا گیا تھا۔

ای پیپر دی نیشن