وطن عزیز کی 80فیصد آبادی کا روزگار بالواسطہ یا براہ راست زراعت سے وابستہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چھوٹے درجے کے بعض سرکاری، غیر سرکاری ملازمین، فیکڑیوں، کارخانوں میں کام کرنے والے اور لاکھوں چھوٹے دیہاڑی دار مزدور مونجی اور گندم کی کٹائی کے موقع پر ’’سال بھر کے دانے کمانے‘‘ کیلئے دیہات کا رخ کرلیتے ہیں۔ دوسری طرف ملکی معیشت کو بھی زراعت نے سہارا دے رکھا ہے۔ لیکن اس مضبوط ذریعہ آمدن پر ہمیشہ کلہاڑا چلایا گیا تاکہ لوگ ’’کیا کمائیں اور کیا کھائیں‘‘ کی فکر سے باہر نہ آسکیں۔ حکمرانوں نے زراعت کو تباہ کرنے میں کبھی کوئی کسر اٹھانہیں رکھی۔ 18کروڑ عوام کے منہ سے نوالہ چھینے کیلئے آئے دن کوئی نہ کوئی تجویز زیر غور رہتی ہے۔ کبھی کھاد، بیج کی قیمتوں میں اضافہ کرکے، کبھی ملاوٹ زدہ، ناقص اور غیر معیاری اشیاء مہنگی کرکے، کبھی ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کرکے اور کبھی دیگر زرعی آلات پر جی ایس ٹی کے نفاذ کے ذریعے زراعت کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس ’’تانے بانے‘‘ سے بڑھ کر گندم کی امدادی قیمت کا اعلان نہ کرنا بھی کاشتکاروں کی سال بھر کی محنت پر پانی پھیردینے کے مترادف ہے۔ اور ان سب سے بڑھ کر باردانے کے حصول کا پیچیدہ اور مشکل ترین نظام بھی چھوٹے کاشت کاروں کو گندم اونے پونے داموں بیچنے پر مجبور کرتا ہے ۔کاشتکار واحد طبقہ ہے جس کی حمایت میں کہیں بھی آواز نہیں اٹھائی جاتی۔ 80 کی دہائی سے قبل کا زمانہ کاشتکاروں کیلئے سخت مشکلات و آزمائش کاتھا۔ اس وقت بے آب و گیاہ اور بنجر زمین پر کاشتکاری کا انحصار بارش پر تھا۔ سال میں صرف ایک بار کاشتکار گندم یا چنے کی فصل کاشت کرتا، اس کی پروش کا انحصار بھی بارش کے پانی پرہوتا تھا۔ یوں وہ جڑی بوٹیوں سے فصلوں کے تنکے چن چن کر بمشکل ایک ایکڑ سے 5سے 10من گندم اور 2سے 5من چنے اٹھاتا تھا۔ لیکن اللہ کا فضل و کرم ہوا ،ٹیکنالوجی آئی لوگوں نے چھوٹے چھوٹے رقبے پر ٹیوب ویل (پیٹر انجن وغیرہ) لگا کر بے آباد اور بنجر زمین کو سر سبز و شاداب بنادیا۔ سال میں ایک فصل کی بجائے تین تین فصلیں حاصل کیں۔ ایک ایکڑ سے 5سے 10من کی بجائے 45سے 50من گندم اٹھائی۔ لیکن حکمرانوں کو غریت کاشتکاروں کی خوشحالی ایک آنکھ نہ بھائی۔انہوںنے ڈیزل کی قیمتوں میں کبھی یکبار کی اور کبھی بتدریج اضافہ کرکے سونا اگلتی زمین کو بنجر بنانے میں بھارت کاکام آسان کردیااور اب پاکستان کے غریب کاشتکاروں کو اپنے حکمرانوں دوستوں کی موجودگی میں بھارت جیسے دشمنوں کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ کھاد، ڈیزل اور دیگر زرعی مداخل کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے سے کاشتکاری متوسط اور چھوٹے درجے کے زمینداروں، کسانوں کی پہنچ سے بالکل باہر ہوکر رہ گئی۔ جبکہ سرکاری اہلکاروں کی عدم توجہ یا آشیر باد ہے مہنگی زرعی ادویات کے ملاوٹ زدہ، غیر معیاری اور ناقص ہونے کے باعث فصل دشمن کیڑے مکوڑوں اور جڑی بوٹیوں نے پاکستان کے حکمرانوں اور بھارت کاکام کافی حدتک آسان کردیا۔ اس لئے لوگ کاشتکاری چھوڑ کر مجبور ہوکر رہ گئے حالانکہ کسی زمانے میں محاورہ تھا کہ ’’جٹ ساون بھادوں دیاں دھیان توں چلیا فقیر ہوگیا‘‘ لیکن اب تو جٹ زراعت پر ڈھائے جانے والے مظالم کی وجہ سے فقیر ہوتا جا رہا ہے اور گندم، گنا سمیت تمام نقد آور فصلوں کی بروقت ادائیگیاں نہ ہونے پر عملی طورپر دکھانا چاہتا ہے کہ
جس کھیت سے میسر نہ ہو دہقاں کو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
اس لئے حکمرانوں کو چاہے کہ فوری طور پر گندم کی امدادی قیمت کا اعلان کیا جائے اور وہ 1500روپے من سے کم نہ ہو۔ لیکن بدقسمتی دیکھیئے اسمبلیوں، سینٹ اور بیورکریسی میں زمینداروں کی اکثریت ہونے کے باوجود ’’آٹے میں نمک کے برابر‘‘ فلور ملز مالکان نے گندم کی امدادی قیمت کا اعلان نہیں ہونے دیا دوسری طرف باردانہ پالیسی میں آڑھتی کو بھی نوازا جارہاہے۔ ٹھیک ہے اگر حکومت نے گندم کی امدادی قیمت کا اعلان نہیں کرنا تو کھاد، ڈیزل زرعی ادویات اور دیگر زرعی مداخل کی قیمتیں کم کرے۔ کاشت کاری کو باد دانہ پالیسی میں الجھا کر ذہنی مریض بنانے کی بجائے’’اوپن مارکیٹ‘‘ میں گندم کی خریدوفروخت ہونے دے اور پھر فلور ملزمالکان کو پابند کرکے کہ وہ بھی گندم کے اگلے سیزن تک آٹے کی قیمت نہیں بڑھا سکیں گے۔ ایسا نہ ہو کہ کاشتکار تو اپنی گندم اونے پونے داموں بیچ ڈالے اور پھر ہرماہ 10،20کلو آٹے کا تھیلا خرید کر گزر اوقات کرنے پر مجبور ہو اور فلور ملز مالکان کی طرف سے مضبوط لابی کے ذریعے حکومت کو آٹے کی قیمت بڑھانے پر مجبور کردیا جائے ۔
گندم کی امدادی قیمت برقرار زرعی مداخل میں کئی گنااضافہ
May 05, 2014