پشاور+ سوات+ اکوڑہ خٹک (نیوز ایجنسیاں+ نوائے وقت رپورٹ) طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے کہا ہے کہ آپریشن سے امن قائم ہوا نہ ہی طالبان کے حملوں سے شریعت نافذ ہوئی، لڑائی سے ہزاروں افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، مذاکرات نہ ہوئے تو خفیہ ہاتھ فائدہ اٹھاتا رہے گا۔ وہ گذشتہ روز میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان شوریٰ سے ملاقات کے لئے وقت اور جگہ کا تعین کیا جا رہا ہے، اس کے لئے دونوں کمیٹیوں کی کوشش جاری ہے۔ پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ ہزاروں افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، اب یہ لڑائی ختم ہونی چاہئے۔ جنگ سے مسائل حل نہیں ہوتے، اس لئے تمام تر مشکلات کے باوجود مذاکراتی عمل کی کامیابی کے لئے پرامید ہیں۔ جماعت اسلامی کے رہنما اور طالبان رابطہ کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے کہا ہے کہ مذاکراتی عمل تیزی سے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے کیونکہ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں، دونوں فریقین کو ایک دوسرے سے شکایات ہیں جن کو دور کرنا ضروری ہے۔ علاوہ ازیں پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہا ہے کہ اسلامک لائرز مومنٹ ملک میں جاری قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے المرکز اسلامی میں اسلامک لائرز مومنٹ کی صوبائی کابینہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ اب تک مذاکرات میں پیشرفت نہیں ہوئی تاہم اچھی امید رکھنی چاہئے۔ آئی این پی کے مطابق جمعیت علماء اسلام (س) کے امیر مولانا سمیع الحق نے کہا ہے کہ حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں کوئی بڑا ڈیڈ لاک نہیں‘ آئندہ ایک دو روز میں مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوجائے گا‘ مذاکرات کی کامیابی ہی ملک میں امن کی ضمانت ہے اس لئے پوری قوم کو بھی مذاکرا ت کی کامیابی کیلئے دعاکرنی چاہئے۔ مولانا عاصم مخدوم سے ٹیلی فونک گفتگو کرتے ہوئے مولانا سمیع الحق نے کہاکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سی اندرونی و بیرونی قوتیں مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے کیلئے سازشیں کر رہی ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ ایسی تمام قوتیں ناکام ہوںگی۔ مولانا سمیع الحق نے کہاکہ مغرب اور مغرب نواز طبقے کا نزلہ ہمیشہ دینی مدارس پر گرتا ہے اور وہ انہیں دہشت گردی میں ملوث کرنے کا بے بنیاد پروپیگنڈا جاری رکھے ہوئے ہیں، مدارس کا ہر قیمت پر دفاع کرینگے، مدارس ملک کے سب سے بڑے این جی اوز ہیں جو فلاحی اداروں کے طور پر لاکھوں نوجوانوں اور بچوں کی مفت تعلیم و تربیت اور ضروریات کا اہتمام کر رہے ہیں‘ آج مدارس سے وابستہ لوگ ملک میں امن کے لئے مذاکرات کے لئے تگ و دو کر رہے ہیں جبکہ عصری کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اینکرز اور دانشور ملک میں آپریشن کے لئے جنگ مسلط کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں مولانا یوسف شاہ نے کہا ہے کہ حکومتی مذاکراتی کمیٹی سے 2 سے 3 روز میں ملاقات متوقع ہے، حکومتی کمیٹی کا ایک رکن وزیراعظم کے ساتھ بیرون ملک دورے پر ہے، رکن کی واپسی پر کمیٹی سے ملاقات کی جائے گی، مذاکرات کے اگلے دور میں پہلی بات جنگ بندی کی کریں گے۔نیشن کے مطابق پروفیسر ابراہیم کا کہنا تھا کہ فوج اور طالبان کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف تازہ کارروائیوں اور حملوں کی وجہ سے مذاکرات کا عمل متاثر ہوسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مشرف کے دور میں فوج کی طرف سے کارروائیوں کا آغاز ہوا اور اب فوج اس کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرے۔ دریں اثناء مولانا سید یوسف شاہ نے کہا ہے کہ طالبان اور فوج کے ایک دوسرے پر حملوں سے مذاکرات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ فریقین سے اپیل کرتے ہیں کہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں۔ جنوبی وزیرستان میں محسود کے علاقے بھابھڑ میں فوج کی طرف سے حملے کے بارے میں وزیر داخلہ کو آگاہ کر دیا ہے۔ اس وقت عمران خان اور طاہر القادری کی طرف سے ملک کے اندر افراتفری کا ماحول پیدا کرنا مناسب نہیں۔ طالبان سے مذاکرات کیلئے منگل کو مذاکراتی کمیٹی کے ارکان کے ساتھ فوج کا نمائندہ بھی ہو گا۔