کابل (نیٹ نیوز+ ایجنسیاں) افغانستان کے شمال مشرقی صوبے بدخشاں کے علاقے آب باریک میں 3 روز قبل شدید بارشوں کے باعث لینڈ سلائیڈنگ، مٹی اور کیچڑ تلے پورا گائوں دب جانے کے سانحہ میں جاں بحق ہونیوالوں کی تعداد حکام کے مطابق 2700 سے تجاوز کر گئی جبکہ اقوام متحدہ کے مطابق اسکی امدادی ٹیموں کی توجہ بے گھر ہو جانیوالے 4 ہزار افراد کی بحالی پر ہے۔ اتوار کے روز بھی لوگ ہاتھوں میں کدالیں اور دیگر اوزار لئے مٹی کھودتے اور اپنے پیاروں کی تلاش کرتے رہے۔ ان میں کچھ ہی نعشیں نکال پائے۔ بین الاقوامی امدادی تنظیموں اور افغان حکام کا کہنا ہے کہ انتہائی مفلوک الحال اور پسماندہ اس صوبے میں ہلاکتوں کی صحیح تعداد کا پتہ چلانا مشکل ہے۔ بین الاقوامی امدادی تنظیم آئی او ایم کے افغانستان میں مشن کے سربراہ رچرڈ ڈینزیجر نے کابل میں بتایا کہ بڑے پیمانے پر لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں 2700 سے زائد افراد ہلاک، کئی گائوں صفحہ ہستی سے مٹ گئے اور سینکڑوں خاندان اپنا سب کچھ کھو چکے ہیں جنہیں امداد کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا لینڈ سلائیڈنگ سے 14 ہزار افراد متاثر ہوئے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں ایک پہاڑی اب بھی خطرناک پوزیشن میں ہے جو متاثرین اور امدادی ٹیموں پر تلوار بن کر لٹک رہی ہے۔ دریں اثناء افغان حکومت نے ملبے تلے دبنے والے 2500 افراد کی تلاش سے معذوری کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہم اس متاثرہ علاقے کو اجتماعی قبر بنا دیں گے۔ غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق افغانستان کے صوبے بدخشاں کے گورنر نے کہا ہے کہ زمین کے تودے گرنے سے مکانات کئی گز کیچڑ کے نیچے دب گئے ہیں جس کی وجہ سے تلاش اور بچاؤ کا کام جاری نہیں رکھا جا سکتا۔ ہم متاثرین کیلئے دعا کرینگے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق متاثرہ علاقے سے اب تک صرف 350 افراد کی لاشیں نکالی جا چکی ہے۔ ادھر زندہ بچ جانے افراد کے لئے خیمے، خوراک اور پانی پہنچایا جا رہا ہے۔ ان افراد نے قریبی ٹیلوں پر شدید سردی میں کھلے آسمان تلے گزاری۔ بدخشاں کے پولیس کمانڈر فضل الدین نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ 215 خاندانوں کا ہارگو نامی گاؤں تمام خاندانوں سمیت مٹی کے تودے تلے دب گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بات کے امکانات بہت ہی کم ہیں کہ کیچڑ اور تودوں کے اس انبار کے نیچے سے کسی کو بچایا جا سکے گا جبکہ افغانستان بھر میں گزشتہ روز اس سانحہ کے غم میں یوم سوگ منایا گیا، دفاتر اور تعلیمی ادارے بند رہے۔