ذوالفقار مرزا کا برین سٹی سکین بہت ضروری ہوگیا ہے۔ اتنی اشتعال انگیزی، مارکٹائی، ہرزہ سرائی!!! اتنی مراعات، عنایات، انعامات اور تعلقات کے بعد اتنی ساری شکایات اور خرافات پر ہر کوئی حیران تو ہوگا۔ سپیکر تو ڈاکٹر فہمیدہ مرزا تھیںلیکن ذوالفقار مرزا پورے کراچی میں دندناتے پھرتے تھے۔ کبھی کسی کو للکار رہے ہیں تو کبھی کسی کو لتاڑ رہے ہیں۔ ذوالفقار مرزا، فہمیدہ مرزا، اُنکا بیٹا اور بے شمار عزیزواقارب نے 2008ء سے خوب مزے کئے ہیں۔ ذوالفقار مرزا کو اس بات پر بھی بڑا مان تھا کہ آصف زرداری انکے جگری یار ہیں۔ اس دوستی کاپروپیگنڈہ انہوں نے کبھی اس وقت تو نہیں کیا جب بے نظیر بھٹو جلاوطنی کی زندگی کاٹ رہی تھیں اور آصف زرداری سلاخوں کے پیچھے تھے۔ جب آصف زرداری لاٹھی کے سہارے چلتے تھے اور مختلف عوارض میں مبتلا پائے جاتے تھے تب ذوالفقار مرزا کی کوئی تصویر یا تحریری بیان سامنے نہیں آیا کہ وہ انکے یار ہیں مگر تاریخ بتاتی ہے کہ جونہی آصف زرداری پارٹی عہدہ سنبھالتے ہیں اور صدر مملکت کی کرسی پر متمکن ہوتے ہیں۔ اچانک ہی ذوالفقار مرزا انکے دائیں بائیں پھرنے لگتے ہیں پھر فوزیہ وہاب مرحومہ جیسی لائق، دبنگ اور مخلص سیاسی رہنما کے بجائے فہمیدہ مرزا کو سپیکر قومی اسمبلی بنا دیا جاتا ہے۔ اسکے بعد تو ذوالفقار مرزا سلطان راہی بلکہ مصطفی قریشی کے گٹ اپ میں نظرآتے ہیں۔ بس ہاتھ میں گنڈاسے کی کمی محسوس ہوتی ہے مگر انکا ہاتھ خود اتنا فولادی ہے اور اتنا زیادہ چلتا ہے کہ سمجھ نہیں آتا۔ مرزا کی زبان زیادہ چلتی ہے یا ہاتھ۔ مرزا صاحب کی تازہ ترین گل افشانیوں پر پیپلزپارٹی کی خواتین آصف زرداری کیلئے سیسہ پلائی دیوار بن گئیں۔ انہوں نے مرزا صاحب کے خوب خوب لتے لیے۔شہلا رضا اور شرمیلا فاروقی نے جی بھر کر سنائیں۔ ایک خاتون ورکر نے تو چوڑیاں بھی پیش کیں۔ اب دیکھئے کہ وہ ان خواتین سے کیا سلوک کرتے ہیں اور کیا فرماتے ہیں انکے کرداروں کے بارے میں۔ مرزا صاحب ساٹھ سے اوپر کے کیاہوئے ہیں۔سٹھیا ہی گئے ہیں۔ ساٹھ کے تو اب آصف زرداری بھی ہوگئے ہیں مگر وہ تو اچھے خاصے بُردبار ہوگئے ہیں۔ ہم تو انکی وفاداری کو بھی سلام کرتے ہیں کہ انہوں نے بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد دوسری شادی کی حماقت نہیں کی ورنہ بعض بیوقوف بلکہ احمق مرد تو سالم بیوی کی موجودگی میں دوسری شادی کی احمقانہ بلکہ فاسدانہ حرکت کرکے جہاں ملعون، مشکوک اور ملزم بن جاتے ہیں وہاں جیتے جی اپنی بے عزتی کا بھی اہتمام کرلیتے ہیں۔ دوسری شادی میں ملوث مردوں کی اکثریت ہارٹ فیل ہونے کے باعث دو بیوگان چھوڑ کر مرتی ہے۔دونوں ہی بیوائیں سیپارے پڑھ کر بخشنے کے بجائے کوستی کاٹتی رہتی ہیں کہ اولاد‘جائیداد اور ازدواجی محبت میں انصاف کرکے شوہر مواء نہیںمرا۔ اس لئے آصف زرداری کو اس وفاداری کے عوض سو خون بھی معاف کئے جاسکتے ہیں ۔ ویسے آجکل حکومت اور پارٹی رہنمائوں کی طرف سے کافی دلچسپ بلکہ مزاحیہ خبریں آرہی ہیں۔ حکومت پنجاب نے خواتین کے تحفظ کا بل لانے کا عندیہ دیا ہے جس میں بیویوں کو کم تنخواہ بتا کر دھوکہ دینا مالیاتی استحصال تصور ہوگا۔ حکومتِ پنجاب کو نہیں معلوم کہ پاکستان کا ہر پارسا سے پارسا اور نیک ترین مرد بھی بیوی کو اصل تنخواہ نہیں بتاتا۔ اگرچہ وہ یہ رقم کسی دوسرے طریقے سے خود اپنے اوپر ہی استعمال کرتا ہے مگر ازروئے انصاف غور فرمائیے کہ پھر بھی مردوں کی اکثریت اس چوری اور غصب شدہ رقم کے فاضل استعمال کے باوجود مدقوق نظر آتی ہے۔ اکثر مردوں کی صحت مشکوک اور چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی ہوتی ہیں۔ اگر اس جرم میں مرد پکڑے گئے تو سب سے پہلے پنجاب اسمبلی کے تقریباً سارے مرد دَھر لئے جائینگے۔ ایسے ایسے چہرے بے نقاب ہونگے کہ عورتیں خود دانتوں تلے انگلیاں دبا لیں گی۔حکومت ِ پنجاب کو خواتین کے حوالے سے ’’فوبیا‘‘ ہوگیا ہے۔ وہ خواتین کے حوالے سے محیرالعقول بل لاکر خدا جانے کیا ثابت کرنا چاہتی ہے۔ ابھی تک اُنکے کسی بل سے کسی عورت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا ہے۔ حکومت پنجاب کا زیادہ تر فوکس بل لانے، خواتین کے حوالے سے عجیب و غریب سکیمیں پیش کرنے، مختلف معاہدوں پر دستخط کرکے آٹو گراف دینے کے دیرینہ شوق کی تکمیل کرنے اور فوٹو سیشن کرانے پر ہے۔ پنجاب میں لاکھوں خواتین مناسب نوکری کیلئے بیٹھی ہیں۔ ہزاروں خواتین کو انکے معیارکی نوکری میسر نہیں۔ یہ ہے اصل حقیقت اور سچی تصویر۔ بل پیش کرنے اور بل پاس کرنے سے کچھ نہیں ہونیوالا۔ عورت کو اسکے حقوق واقعتا ملنے چاہئیں۔ ویمن ڈے منانے ، بڑے بڑے اعلانات کرنے اور خوش کن بیانات داغنے سے عورت کے مسئلے حل نہیں ہونیوالے۔ جب تک عورت کو اُس کی تعلیم، قابلیت، استعداد اور معیار کے مطابق معاشرے میں مقام مرتبہ عہدہ نہیں ملتا۔یہ سب فضول مذاق ہے۔ اس حساب سے توپہلا بل حکومت کیخلاف آنا چاہئے لیکن پاکستان واحد جگہ ہے جہاں پر انہونی کو ہونی اور ہونی کو انہونی کردیا جاتا ہے۔ پاکستان ایماندار، محنتی، قابل ، لائق اور تعلیم یافتہ لوگوں کیلئے جہنم مگر راشی، بے ایمان، ہڈ حرام، منافق اور کم پڑھے لکھے افراد کیلئے جنت ہے۔ تمام پارٹیوں کے سربراہوں اور رہنمائوں کو دیکھ لیں۔ بیس بیس سال کوئی نوکری، کوئی کام، کوئی محنت نہیں کرتے مگر بادشاہوں جیسی زندگی گزارتے ہیں، لیکن انکے قارون کے خزانے ختم ہونے میں نہیں آتے۔ یہ ملک کی تقدیر نہیں بدل سکتی نہ ہی کوئی مثبت اور اچھی تبدیلی لا سکتے ہیں ۔یہ سب کہانیاں ہیں جن میں رنگ بھرنے کیلئے سوانگ رچایا جاتا ہے جو جتنا بڑا جھوٹ بولتا ہے، کہانی اتنا ہی مزا دیتی ہے لیکن کہانی صرف وہ زندہ رہتی ہے جس میں سچائی بولتی ہے ورنہ تو سب فسانہ ہے۔