قانون سے بڑی کوئی طاقت نہیں ہے۔ قانون اگر بدنام ہے تو ان لوگوں کی وجہ سے جو اس پر عمل درآمد کرانے کے ذمہ دار ہیں لیکن اپنی ذمہ داری سے کوتاہی برتتے ہیں۔پولیس کو قانون کی سب سے بڑی محافظ سمجھا جاتا ہے مگر پولیس عموماًدبائو،دھونس اور لالچ کے باعث قانون کو بڑے لوگوں کی لونڈی بنا دیتی اور خود ان کا غلام بن جاتی ہے۔پولیس کے مظالم پر نظر ڈالی جائے تو دنیا میں اس سے بڑھ کر کوئی طبقہ ظالم اور جابر ہو ہی نہیں سکتا۔یہ خود تو بے بس لوگوں کو ظلم وتشدد کا نشانہ بناتی ہی ہے،بااثر لوگوں کے کمزور طبقے پر مظالم کونہ صرف نظر انداز کرتی ہے بلکہ اکثر ظالموں کا آلہ ء کار بھی بنی ہوتی ہے۔بااثر لوگوں کے ایما پر پولیس والے انسانیت سوز رویوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔پولیس نااہلی،عاقبت نااندیشی اور گھٹیامفادات کے باعث کئی معاشروں میں انصاف کے بجائے ظلم کی حکمرانی ہے۔قانون نافذ کرنے کے ذمہ دار اداروں کے غیر ذمہ دارانہ رویوں کے باعث بااثر لوگوں کے مظالم بھی اس کے نامہ اعمال میں شامل ہوتے ہیں۔
کراچی میں دہشتگردی اہلیان کراچی کے وسائل اور انسانوں کو نِگل رہی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ ایک مافیا بن چکی ہے۔ عروس البلاد میں کسی کی عزت، آبرو اور مال اس کی دستبرد سے باہر نہیں۔ اس کے جنگجو ونگ کا ایک ایک کارندہ سو سو افراد کے قتل کا اعتراف کر رہا ہے۔مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اقتدار میں آکر اسے اقتدار میں حصہ دے تو یہ عام شہریوں پر قیامت برپا کردیتے۔اقتدار میں شامل نہ کریں ان پارٹیوں کے لوگوں سے کراچی میں جینے کا حق تک چھین لیتے ہیں۔پولیس اور حکومتوں کو مفلوج کرکے رکھ دیا گیا۔فوج کو بھی پولیس کے درجے کا سمجھ لیا۔الطاف حسین کی فوج کو گالیاں تو پہلی بار میڈیا میں سنائی گئی ہیںلاشیں کئی سال سے گرائی جاتی رہی ہیں۔بوریوں سے فوجیوں کی مسخ اور تشدد شدہ لاشیں بھی کراچی کی گلیوں اور بازاروں میں پھینکی گئی تھیں۔ان رپورٹوں کی کبھی تردید نہیں کی گئی کہ نوے کی دہائی میں متحدہ کے خلاف اپریشن میں حصہ لینے والے ایک ایک اہلکار کوچن چن کر قتل کیا گیا۔ایک فوجی دور میں جماعت اسلامی کا توڑ کرنے کے لئے یہ لسانی تنظیم بنائی گئی تو دوسری فوجی حکومت میں اس کو سر چڑھا لیا گیا۔یہ اس قدر سر پر چڑھی کہ اس کا ہاتھ فوج کے گریبان تک آگیا۔پریس کانفرنس پولیس کے ایس ایس پی رائو انوار نے کی الطاف نے غصہ فوج کو غدار تک قراردے کر نکالا۔ان کی زبان سے انگارے اور گالیاں برس رہی تھیں۔مہذب لوگ ایسی بات تو سنتے بھی نہیں۔ فوج کی طرف سے اس پر شدید ردعمل سامنے آیا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے الطاف کے فوج کے حوالے سے ریمارکس کو بے ہودہ اور شرمناک قرار دیتے ہوئے قانونی چارہ جوئی کا اعلان کیا۔متحدہ کی رابطہ کمیٹی نے کہا کہ ان کے قائد نے تو فوج کی تعریف کی ہے۔رات گزرنے کے بعد الطاف بھائی ہوش میں آئے تو فوج سے عاجزانہ معافی مانگ لی۔معافی متحدہ کا قانون کے شکنجے میں آنیوالا ہر کارکن مانگ رہا ہے۔پھانسی کے پھندے کی معمولی سے جھلک دیکھ کر بھی سزائے موت کے ملزم کے ہاتھ مدعی کے پائوں تک آجاتے ہیں۔ کیا ان کو معاف کردیا جاتا ہے؟۔را سے کھل کر مدد مانگی اور کہہ دیا کہ طنزیہ کہا تھا۔ متحدہ کے دفاتر سے ملنے والا بھارتی اسلحہ بھی طنز ہی کی کوئی مثال ہے۔ اس کے کارکن بھی مذاق ہی مذاق میں بھارت سے ٹریننگ لیتے رہے ہیں؟ بلوچستان اسمبلی سے بروقت اور بجا ردعمل آیا۔ اس میں وہی بات کی جو رائو انوار نے متحدہ کے اعمال اور ملک دشمنی کے ثبوت پیش کرتے ہوئے اس پارٹی پر بابندی کے حوالے سے کی تھی۔خورشید شاہ کہتے ہیں کہ معذرت کرلی تو بات ختم ہوگئی۔را سے مدد مانگی گئی اور قبل ازیں ایس ایس پی نے را کے ایجنٹ ہونے کے جو ثبوت پیش کئے تھے اس پر خورشید شاہ خاموش ہیں۔ میاں نواز شریف دوروز خاموش رہے،عمران خان کے سوال اٹھانے پر کہ میاں نواز شریف نے اس اقدام کی مذمت کیوں نہیں کی،پرویز رشید نے درباری ہونے کا حق ادا کردیاوہ کہنے لگے کہ عمران خان سازشی ہیں جو فوج اور نواز شریف کو لڑانا چاہتے ہیں۔اس سے کون بے خبرہے کہ میاں نواز شریف کو کس کے کہنے پر مبہم سی مذمت کرنا پڑی۔البتہ شہباز شریف ،خواجہ آصف اور عابد شیر علی نے حکومت کی طرف سے فرض کفایہ ادا کردیا۔الطاف حسین نے جو کہا اس کے وہ ذاتی طور پر ذمہ دار ہیں۔ بطور پارٹی متحدہ کو اس کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا۔الطاف حسین اور جو، ان کے گالی گلوچ اور فوج کی توہین جائز قرار دے رہے ہیں اور اسے فوج کی تعریف باور کرارہے ہیں ان کو کٹہرے میں لانے کی ضرورت ہے۔اگر مسلم لیگ ن کی حکومت ایسی کوشش سے گریز کرتی ہے تو وہ بھی اتنی ہی ذمہ دار ہوگی جتنے یہ سب کچھ کرنے والے ہیں۔آج طاقت کے نشے میںمتحدہ جو ظلم ڈھارہی رہی ہے اس کی ذمہ دار صرف اور صرف پولیس ہے۔ قارئین ! یقین کریں جب ایم کیوایم نے پہلا قتل کیا تھا اس وقت پولیس سیاسی مصلحتوں کوخاطر میں لاتی تو دوسرے قتل ،پھر قتل در قتل حتیٰ کہ خود پولیس کے قتل کی نوبت نہ آتی۔قانون بڑا طاقتور ہے اس کو بے بس اس پر عمل کرانے کو ذمہ داروں نے بنایا ہے۔
آج بدین میں قانون کی دھجیاں اُڑتی اور قانون اور قانون نافذ کرنے والوں کی بے بسی کا تماشا ٹی وی چینلز پر پوری دنیا نے دیکھا۔ذوالفقار مرزا اپنے ساتھی کے خلاف مقدمہ درج کرنے پر جتھے کے ہمراہ ماڈل پولیس اسٹیشن بدین پہنچ گئے، تھانے میں موجود پولیس افسر سے بدتمیزی کرتے ہوئے میز کا شیشہ توڑا اور پولیس افسر کا موبائل اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا۔پورے زور سے چلاتے رہے۔کیا عام آدمی تھانے میں ایسی جرات کرسکتا ہے؟۔پولیس نے اسی وقت پکڑ کر مرزا کو حوالات میں کیوں بند نہ کردیا؟۔
ادھر ذوالفقار مرزا نے قانون ہاتھ میں لیا تو اُدھر زرداری کے درباری آپے سے باہر ہو گئے۔ خواتین مردوں سے زیادہ کاسہ لیسی کر رہی تھیں۔ زرداری صاحب نے پارٹی کا بیڑہ غرق کر دیا تاہم اب بھی بہت کچھ ان کے ہاتھ میں ہے، کم از کم سندھ حکومت کے معاملات اگلے تین سال ان کے رحم و کرم پر ہیں اس لئے چاپلوس ٹولہ ان کو Legend دانشور بڑا لیڈر اور مسیحا کہنے کی منافقت کر رہا ہے۔