صادقین کے فن پارے قومی اثاثہ محفوظ بنایا جائے

عالمی شہرت یافتہ مصور، خطاط اور شاعر صادقین کا شمار پاکستان کی چندان شخصیات میں ہوتا ہے جن کا نام اور کام صدیوں تک زندہ رہے گا۔ آرٹ اور ادب کے شعبے میں ان کی خدمات قابل تحسین ہیں۔ وہ دنیا کے بہترین آرٹسٹ تھے۔ انہوں نے اپنی کوئی پینٹنگ فروخت نہیں کی۔ اپنی زندگی میں انہوں نے پندرہ ہزار سے زائد فن پارے تخلیق کئے اور تمام کے تمام فن پارے لوگوں کو تحفے میں دے دیئے ۔ ان کے تیار کردہ فن پارے اگر آج فروخت کئے جائیں تو ان کی مالیت ایک ارب ڈالرز سے زائد بنے گی۔
وہ دریا دل تھے۔ انتہائی قیمتی تصویریں مفت تقسیم کر دیں۔ انہوں نے انتہائی سادہ زندگی گزاری۔ 1987ءمیں جب ان کا انتقال ہوا تو ان کے پاس کچھ نہیں تھا اور وہ یہی چاہتے تھے۔
صادقین کے فن کی شہرت پاکستان تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ سارا جہاں ان کے فن کا معترف تھا۔ فرانس کے اخبار ”لی مونڈے“ نے اپریل 1964ءکے شمارے میں صادقین کے فن پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ صادقین کے فن میں پکاسو کی جھلک نظر آتی ہے۔ متحدہ عرب امارات کے اخبار خلیج ٹائم نے 20 جون 1980ءمیں صادقین کے بارے میں ایک سٹوری شائع کی جس کا عنوان تھا ”اسلامی خطاطی کی نشاة ثانیہ“ پاکستان کا ایک صوفی آرٹسٹ جو ایک لیجنڈ کی حیثیت رکھتا ہے۔ صادقین کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو ان کا میورل آرٹ ہے۔ منگلا ڈیم پاور ہاﺅس میں ان کی تیار کردہ میورل پینٹنگ ان کا ایک خوبصورت شاہکار ہے۔ اس کے علاوہ لاہور میوزیم کی چھت پر بھی انہوں نے میورل پینٹنگ کی مگر چند برس قبل اسے دیمک لگ گئی اور مرمت کےلئے اسے اتار لیا گیا۔افسوس کہ کئی برس گزرنے کے باوجود اس میورل پینٹنگ کو ٹھیک نہیں کیا جا سکا۔ صادقین کی شخصیت کا ایک اہم پہلو ان کی شاعری ہے۔ بھارت میں شائع ہونے والی ایک اردو کتاب ”تنقید رباعی“ میں انہیں ان الفاظ کے ساتھ خراج تحسین پیش کیا گیا۔ صادقین عہدحاضر کا عظیم ترین شاعر ہے۔ صادقین نے خطاطی‘ ڈرائنگ پیٹنگز اور میورل میں طبع آزمائی کی اور پندرہ ہزار سے زائد فن پارے تخلیق کئے۔ انہوں نے ہزاروں کی تعداد میں رباعیاں کہیں جن کے چار مجموعے شائع ہوئے جن میں رباعیات صادقین نقاش، رباعیات صادقین خطاط، بیاض صادقینی اور جزو بوسیدہ ہیں۔ پاکستان میں صادقین کی میورل پینٹنگز لاہور میوزیم، منگلا ڈیم کے علاوہ کراچی میں سٹیٹ بینک آف پاکستان میوزیم میں واقع صادقین گیلری، پنجاب یونیورسٹی، لاہور میوزیم کی اسلامی گیلری پنجاب پبلک لائبریری، فریرے ہال کراچی میں صادقین گیلری کی چھت کے علاوہ متعدد مقامات پر ان کی میورل پینٹنگز موجود ہیں۔ صادقین کی پینٹنگز پاکستان کے علاوہ دوسرے ممالک کے میوزم میں بھی موجود ہیں جن میں نیویارک میٹرو پولٹین میوزیم، ٹورنٹو میں رائل انٹاریو میوزیم، پیرس میں میوزیم آف ماڈرن آرٹ شامل ہیں۔ بیرون ملک ان کی میورلز بھارت میں عالی گڑھ مسلم یونیورسٹی، انڈین انسٹیٹیوٹ آف اسلامک ریسرچ دہلی‘ غالب انسٹیٹیوٹ دہلی، بنارس ہندو یونیورسٹی نیشنل جیوفزیکل ریسرچ انسٹیٹیوٹ انڈیا کے علاوہ ابوظہبی میں ام النار پاور ہاﺅس شامل ہیں۔ صادقین کو ان کی شاندار فنی خدمات پرتمغہ¿ امتیاز‘ تمغہ¿ حسن کارکردگی‘ ستارہ¿ امتیاز، آسٹریلین کلچرل ایوارڈ اور گولڈ مرکری ایوارڈز سمیت متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے آل پاکستان نیشنل ایگزیبیشن آف پینٹنگز اور لوریٹ بینالے پیرس میں اول انعام جیتا۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ صادقین نے اپنی تمام عمر آرٹ کےلئے وقف کردی۔ انہوں نے شادی نہیںکی۔ ان کے بھتیجے ڈاکٹر سلمان احمد نے جو کئی برسوں سے امریکہ میں مقیم ہیں اور وہاں الیکٹریکل انجینئر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں، نے صادقین کے آرٹ ورک کو محفوظ کرنے‘ ان کے آرٹ ورک کو دنیا میں عام کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ اس کام کے لئے انہوں نے امریکہ میں ہی 2007ءمیں صادقین فاﺅنڈیشن کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا اور کیلیفورنیا میں اسے رجسٹر کرایا۔ اس ادارے کے زیر اہتمام صادقین کے آرٹ ورک پر 12 کتابیں شائع ہو چکی ہیں اور مزید ان پر کام ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر سلمان احمد گزشتہ دنوں لاہور آئے ان کی ملاقات ہاشو گروپ کے سربراہ صدرالدین ہاشوانی سے ہوئی جس میں صادقین کو ٹریبیوٹ پیش کرنے کےلئے ایک پُروقار تقریب منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ چنانچہ پاکستان کی اس عظیم شخصیت کی شاندار خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے صادقین فاﺅنڈیشن امریکہ اور ہاشوگروپ نے پرل کانٹینینٹل ہوٹل میں ”اے ٹریبوٹ ٹو صادقین“ کے عنوان سے ایک تقریب کا اہتمام کیا۔ یہ تقریب دو حصوں پر مشتمل تھی۔ ایک حصے میں سیمینار اور دوسرے حصے میں صادقین کے منتخب فن پاروں کی نمائش تھی۔ تقریب کے مہمان خصوصی پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل (ر) جہانگیر کرامت تھے جنہوں نے فیتہ کاٹ کر نمائش کا باقاعدہ افتتاح کیا۔ اس کے بعد سیمینار کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ معروف شاعر اور آرٹسٹ شاہنواز زیدی نے سیمینار کی نظامت کے فرائض نہایت احسن طریقے سے ادا کئے۔ مقررین میں صدر الدین ہاشوانی، ڈاکٹر سلمان احمد، خطاط خورشید عالم گوہر قلم پرنسپل نیشنل کالج آف آرٹس ڈاکٹر مرتضیٰ جعفری، پرنسپل کالج آف آرٹ اینڈ ڈیزائن پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر شاہدہ منظور اور ڈاکٹر عمیرہ حسین تھے۔
شاہنواز زیدی نے کہا کہ صادقین کو کام سے عشق تھا۔ انہوں نے اپنی زندگی آرٹ کیلئے وقف کر دی۔ وہ بہت سخی تھے۔ انہوں نے 5 1ہزار سے زائد فن پارے تخلیق کئے جو تمام کے تمام گفٹ کر دیئے۔ انہوں نے ایک پینٹنگ بھی فروخت نہیں کی‘ لیکن لوگوں نے ان کی پینٹنگز بہت مہنگے داموں فروخت کیں اور ان سے بہت پیسہ کمایا۔
صادقین فاﺅنڈیشن کے سربراہ ڈاکٹر سلمان احمد نے کہا کہ صادقین بہت بڑے فنکار تھے۔ ان کے کام پر جس قدر تحقیق ہونی چاہیے نہیں ہو رہی۔ ان کاکام ایک چھپا ہوا خزانہ ہے جس تک پہنچنا بہت مشکل ہے۔ پاکستان کے علاوہ غیرملکی اخبارات نے بھی ان کے کام کی تعریف کی۔ حکومت نے ان کی زندگی میں اسلام آباد‘ کراچی اور لاہور میں ان کے نام پر گیلریاں بنائیں۔ بعد میں وہ بند کر دی گئیں۔ ان گیلریوں میں سینکڑوں فن پارے تھے۔ معلوم نہیں وہ کہاں گئے۔ میں امریکہ میں مقیم ہوں اور خصوصی طور پر اس ایونٹ کیلئے آیا ہوں۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پی این سی اے کے پاس ان کی 250 تصاویر ہیں جن کی مالیت 50 ملین ڈالر سے کم نہیںمگر پی این سی اے کے پاس ان کی پینٹنگز کا کوئی کیٹلاگ نہیں۔ 1987ءمیں صادقین کا انتقال ہوا۔ ان کے انتقال کے بعد صرف 2002ءمیں ایک نمائش ہوئی۔ اس کے بعد سرکاری سطح پر کوئی نمائش یا ان کی یاد میں تقریب نہیں ہوئی۔
معروف خطاط استاد خورشید عالم گوہر قلم نے کہا کہ برصغیر میں انگریزوں نے خطاطی کو کچلا مگر صادقین نے اسے پھر زندہ کر دیا۔ اگر صادقین جیسی شخصیات نہ ہوتیں تو آج خطاطی کا وجود مٹ چکا ہوتا۔ وہ آرٹسٹ بھی عظیم تھے‘ انسان بھی عظیم تھے۔ میری ان سے کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ ایک ملاقات میں میں نے ان سے پوچھا کہ آپ مصوری سے خطاطی کی طرف کیسے آئے؟ انہوں نے کہا کہ جب میں نے پہلی دفعہ بسم اللہ لکھی تو میرے اندر کی دنیا ہی بدل گئی۔ اس کے بعد میں نے ہزاروں کی تعداد میں بسم اللہ لکھیںاور لوگوں کو دیں۔
پرنسپل این سی اے ڈاکٹر مرتضیٰ جعفری نے کہا کہ میری صادقین کے ساتھ دو ملاقاتیں ہوئیں۔ وہ مصور تو بڑے تھے ہی‘ عالم بھی بہت بڑے تھے۔ ان کے ساتھ نشست میں بڑی علمی گفتگو ہوتی۔ صادقین تصویر بیچا نہیں کرتے تھے اور جب کسی کو گفٹ کرتے تو اسے کہتے کہ اسے بیچنا نہیں۔ وہ نہ صرف مصور تھے بلکہ شاعر بھی تھے۔ ان کی شاعری مصوری اور مصوری خطاطی میں بدل گئی۔ ڈرائینگ میں انہیں مکمل عبور حاصل تھا۔ صادقین کا آرٹ مصوری اور خطاطی ایک حسین امتزاج تھا۔
پرنسپل کالج آف آرٹ اینڈ ڈیزائن پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر شاہدہ منظور نے کہا کہ صادقین قومی آرٹسٹ تھے۔ وہ صرف آرٹسٹ نہیں تھے بلکہ شاعر بھی تھے۔ وہ خطاطی‘ مصوری اور پینٹگز آرٹ کے تینوں اہم شعبوں کے ماہر تھے۔
ڈاکٹر عمیرہ حسین نے کہا کہ صادقین کے فن میں عالمگیریت تھی۔ میں نے صادقین کے آرٹ ورک پر پی ایچ ڈی کی ہے اور وہ پینٹر‘ خطاط‘ میورلسٹ اور شاعر تھے۔ انہوں نے جس طرح غالب اور اقبال کی شاعری کو مصوری میں ڈھالا‘ یہ کسی اور آرٹسٹ کے بس کی بات نہیں۔
چیئرمین ہاشو گروپ صدرالدین ہاشوانی نے کہا کہ صادقین جیسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ جب میں نے ان کا کام دیکھا تو میرے دل میں خیال آیا کہ اتنا بڑا آرٹسٹ ہے اور اسے یاد نہیں کیا جاتا۔ چنانچہ میرے پاس ان کی پینٹگز تھیں ‘ ان میں سے تین پینٹنگز میں نے گزشتہ سال پی سی ہوٹل میں لگا دیں تاکہ وہاں آنے والے لوگوں کو ان کے آرٹ کے بارے میں آگاہی ہو۔ مجھے افسوس ہوتا ہے کہ ان کی پینٹنگز بیرون ملک جاتی ہیں۔ میں ان کے آرٹ ورک کو محفوظ بنانا چاہتا ہوں۔ اگر کسی کے پاس ان کی پینٹنگ ہے وہ ہاشو گروپ کو دے سکتا ہے۔ میں پہلے آرٹ کا شوقین نہیں تھا‘ جب آرٹ کا شوق ہوا تو بہت سے آرٹسٹوں کو پروموٹ کیا۔ میری نیوز چینلز سے بھی درخواست ہے کہ ہر وقت بریکنگ نیوز اور کرائم کی خبریں نہ دیں۔ آرٹ‘ آرٹسٹوں ‘ شاعروں اور ادیبوں ‘ ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کو بھی پروموٹ کریں۔ ہماری پہچان کرائم نہیں بلکہ صادقین جیسے آرٹسٹ کا کام ہونا چاہئے۔
پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل (ر) جہانگیر کرامت نے کہا کہ صادقین کے ٹریبوٹ کیلئے ہونے والی تقریب میں شرکت میرے لئے اعزاز کی بات ہے۔ یہ ایک گریٹ ایونٹ ہے۔ صادقین بہت بڑے آرٹسٹ تھے۔ ان کی یاد میں صادقین فاﺅنڈیشن اور ہاشو گروپ کی یہ کاوش قابل تحسین ہے۔ ان کا کام ہمارے ملک کا قیمتی اثاثہ ہے۔ اسے محفوظ بنانے کی ضرورت ہے۔ صادقین گریٹ فنکار اور گریٹ انسان تھے۔ میں صدرالدین ہاشوانی کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے مجھے اس تقریب میں مدعو کیا۔
تقریب میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی جن میں معروف آرٹسٹ سعید اختر‘ سابق رکن پنجاب اسمبلی اور جماعت اسلامی کے رہنما سید احسان اللہ وقاص‘ سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے احمد ریاض شیخ‘ معروف اداکار‘ فلمساز عمر شریف‘ ایگزیکٹوڈائریکٹر لاہور آرٹس کونسل کیپٹن (ر) عطاءمحمد خان‘ حسیب امجد گردیزی اورمحمد نعمان راشد شامل تھے۔

ای پیپر دی نیشن