ریڈیو پاکستان کی نامور گلوکار آئرن پروین اپنے زمانے کی نامور خوش اخلاق اور ہنس مکھ گلورہ تھیں اور جب وہ ابتدا میں ریڈیو پر اپنے قدم جمانے میں کوشاں تھی تو ان کی والدہ اور کبھی کبھی والد بھی ساتھ آیا کرتے تھے اور میرے ساتھ قریباً سب کے اچھے تعلقات تھے جو آج بھی ہیں میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے اپنا نام آئرن پروین کیوں رکھا ہے تو بتانے لگیں کہ میں آئرن یعنی لوہے کی طرح مضبوط ارادے رکھتی ہوں اور ایک دن ایسا آئے گا کہ میں ریڈیو پاکستان کے علاوہ گانے کے ہر شعبے میں اپنا نام پیدا کروں گی لہٰذ انہوں نے فلموں کے ساتھ ساتھ نجی فنگشنوں ای ایم آئی وغیرہ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھائے رکھا اور پلے بیک سنگر بھی کامیاب رہیں اسی زمانے میں مسٹر خواجہ معصوم ریڈیو پاکستان لاہور کے موسیقی پروگراموں میں گایا اور حصہ لیا کرتے تھے اور ان کو گانے کا بے حد شوق تھا اور لاہور انارکلی بازار میں کراکری کی دکان بھی تھی اور دوستی کی وجہ سے اکثر میں بھی انکی کراکری والی دکان پر جایا کرتا تھا اور فلم انڈسٹری کے مشہور میوزک ڈائریکٹر نذیر علی بھی وہاں قریباً ہر روز ہی آیا کرتے اور انتہائی ملن سارانسان ہونے کے ساتھ گانے بجانے کو اولین ترجیح دیا کرتے تھے اور معصوم رحیم جب کوئی گانا یا دھن تیار کرتے تو نذیر علی تال بجایا کرتے اور یہاں ہی سے نذیر علی کو میوزک کمپوزر بننے کا شوق پیدا ہوا اور وہ فلموں اور ریڈیو لاہور میں کامیاب میوزک ڈائریکٹر تسلیم کئے گئے‘ مسٹر رحیم کا اصل نام رحیم بخش تھا اور وہ زبردست ہارمونیم بجانے کے ماسٹر تھے لہٰذا ان دونوں حضرات نے علم موسیقی پر خوب محنت کی اور یہ دونوں حضرات معصوم رحیم کے نام سے میوزک کمپوزر جانے گئے ان دونوں نے پہلے معصوم کو ریڈیو لاہور کا گلوکار بنایا پھر آئرن پروین گلوکارہ کو موسیقی کے اسرار و رموز سے آشنائی کروائی اور آئرن پروین گلوکارہ بن کر ریڈیو پاکستان کے موسیقی پروگراموں میں باقاعدہ حصہ لنیے لگ گئیں اور کامیاب گلوکارہ بن گئیں۔ محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی رنگ لاتی ہے اور گھر والے آئرن پروین پر فخر کرتے کہ ہماری دختر ریڈیو لاہور اور فلم انڈسٹری میں پلے بیک گا رہی ہیں اسی زمانے میں میاں شہر یار جو محکمہ ریونیو بورڈ میں ملازم تھے وہ بھی ریڈیو پاکستان لاہور پر آئے تو گلوکار بننے کے لئے اور کچھ عرصہ گائے بھی اور بعدازاں میوزک ڈائریکٹر استاد نیاز حسین شامی جو ریڈیو لاہور میں ملازم تھے،کے شاگرد ہو گئے اور اتنا ریاض کیا کہ وہ سرتال میں گم ہو کر میوزک کمپوزر ہو گئے اور اپنا ایک دفتر قائم کر لیا۔ میاں شہریار بھی آئرن پروین کی آواز اور انداز کو پسند کیا کرتے تھے لہٰذا انہوں نے فلم ممتاز میں آئرن پروین سے جو 1958ءمیں بنی تھی پلے بیک گانے لئے اور جب یہ سلسلہ چلا نکلا تو پھر آئرن پروین کے مقدر کا ستارہ چمک اٹھا اور میوزک ڈائریکٹر خواجہ خورشید انور سے لیکر نثار بزمی‘ فیروز نظامی‘ اے حمید‘ خلیل احمد‘ اختر حسین اکھیاں، ناشاد‘ ایم اشرف وغیرہ سب نے ان سے پلے بیک گانے مختلف فلموں میںلئے لیکن آئرن پروین نے ریڈیو پاکستان کے پروگراموں کو اولیت دی اور کہا آج جو کچھ بھی ہوں ریڈیو لاہور کی طفیل ہوں آپ جانتے ہیں دنیا میں حالات کبھی ایک جیسے نہیں رہتے عروج و زوال زندگی کا حصہ ہوتے ہیں کبھی فلم انڈسٹری کا طوطی بولتا تھا لیکن آج ہم نے دیکھا کہ نان پروفیشنل لوگوں کی وجہ سے فلم انڈسٹری زبوں حالی کا شکار ہو چکی ہے بڑے بڑے فلمی رائٹر میوزک کمپوزر اور اداکار گمنامی کی زندگی گزار ہے ہیں۔ آئرن پروین مزید نام کمانے اور دنیا دیکھنے کی مطمنی تھی اور جب وہ یورپ گئیں تو وہاں کی چمک دھمک اور خوشحالی دیکھ کر اس نے وہاں شادی کر لی۔ بچے پیدا ہوئے اوراسکا خاوند بہت خوش مزاج اور ملن سار آدمی تھا اور وہاں کا مشہور تھا موت کبھی پوچھ کر نہیں آتی ہے اور نہ ہی وقت بتاتی ہے لہٰذا آئرن پروین کے خاوند اللہ کو پیارے ہو گئے اور وہاں کی جائیداد کا مسئلہ اور دیگر امور آئرن پروین کے پلے پڑ گئے جن کو سلجانے اور پانے کے لئے انکو وہاں رکنا پڑ گیا جس کی وجہ سے آئرن پروین کو لاہور میں کہیں نہیں دیکھا لیکن ان کے گائے ہوئے گیت اور نغمے ریڈیو کے آواز خزانے میں موجود محفوظ ہیں اور جب انکو نشر کیا جاتا ہے یاد تو آتی ہے دیکھا نہیں جا سکتا ہے۔