کرکٹ ایک ایسا کھیل بن گیا ہے جو پاکستانی قوم کو مایوسی کے لمحات میں خوشی کا موقع فراہم کرتا ہے۔ پاکستان ٹیم اگر دنیا کے کسی میدان میںکھیل رہی ہو تو پوری قوم کی نظریں اس پر لگی ہوتی ہیں۔ فٹ پاتھ سے لیکر فائیو سٹار ہوٹلوں، جھگیوں سے لیکر پوش ایریا کے بڑے بڑے بنگلوں میں قومی ٹیم کی کارکردگی کا ذکر ہو رہا ہوتا ہے۔ ان دنوں قومی ٹیم بنگلہ دیش کے دورہ پر جہاں ون دے اور ٹی ٹونٹی کے سیریز میں وہ بری طرح شکستوں سے دوچار ہو چکی ہے جبکہ 2 ٹیسٹ میچوں کی سیریز کا پہلا ٹیسٹ ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہوچکا ہے اور دوسرا ٹیسٹ 6 مئی سے میر پور ڈھاکہ سٹیڈیم میں شروع ہوگا۔ بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم نے ون ڈے اور ٹی ٹونٹی میچ کی سیریز جیت کر پہلے ہی تاریخ رقم کر رکھی ہے اب ٹیسٹ سیریز میں بھی اس نے پہلا ٹیسٹ ڈرا کر کے نئی تاریخ رقم کردی ہے اس سے قبل پاکستان کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں بنگلہ دیش ٹیم کا ٹریک ریکارڈ بہت خراب رہا ہے۔ تقریباً ایک ماہ پر مشتمل دورہ بنگلہ دیش میں ایسا کیا ہوا کہ میزبان ٹیم نے ایک ورلڈ چیمپئن ٹیم کے خلاف انتہائی شاندار پرفارمنس دیکر اسے چاروں شانے چت کر دیا۔ کرکٹ اور عوامی حلقوں میں قومی ٹیم کی یک لخت بری کارکردگی ان دنوں زیر بحث ہے، جس کی کوئی نہیں سنتا اس کو بھی بولنا آگیا ہے ہر کوئی قومی ٹیم کا ناقص کارکردگی پر اپنے نشتر پاکستان کرکٹ بورڈ پر چلا رہا ہے ہر کسی کی خواہش ہے کہ اس کا تیر صحیح نشانے پر لگ جائے تاکہ کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کی طرح اس کی بھی دن پھر جائیں۔ پاکستان ٹیم کے ساتھ آخر ایسا کیوں ہوا اس کی بہت ساری وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ گذشتہ 6 سالوں سے جس ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ نہ ہوئی ہو اور اسے دیار غیر کے میدانوں میں جاکر کھیلنا پڑا تاکہ پاکستان کرکٹ بچی رہے۔ بہت حد تک پاکستان کرکٹ بورڈ اس کھیل کو مکمل تباہی سے بچانے میں کامیاب رہا ہے۔ بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم کے ہاتھوں میں شکست کے اسباب پتہ نہیں سامنے آتے ہیں یا نہیں تاہم یہ بات حقیقت ہے کہ بنگلہ دیش کرکٹ اپنے پائوں پر کھڑی ہونا شروع ہوگئی ہے اب اسے معمولی ٹیم تصور کرنا حماقت کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ بنگلہ دیش ٹیم آکر اتنی شکستوں کے بعد ترقی کرنا شروع ہوگئی ہے تو اس میں ان کے کرکٹ بورڈ کے تھنک ٹینک کا عمل دخل ضرور ہوگا۔ دوسری جانب ہماری ناقص کارکردگی کی ذمہ داری کسی پر نہیں ڈالی جا سکتی ہے کیونکہ اکثر میچوں میں ہمارے خود ایسی غلطیاں کر کے آوٹ ہوتے رہے ہیں جس کا کسی دوسرے کو مودالزام ٹھہرایا نہیں جا سکتا۔ ہمارے کھلاڑیوں نے خود غیر ذمہ دارانہ کھیل پیش کیا ہے جس کی بنا پر بنگلہ دیش جیسی کمزور ٹیم کے ہاتھوں بری حزیمت کا منہ دیکھنا پڑا۔ ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا ہمارے کھلاڑیوں اور بھاری معاوضوں پر کرکٹ ٹیم کے ساتھ کام کرنے والے آفیشلز کو مل بیٹھ کر آخری ٹیسٹ سے قبل سوچنا ہوگا، میر پور ڈھاکہ سٹیڈیم میں کھیلا جانے والا ٹیسٹ نتیجہ خیز ہوگا جس میں کامیابی کے لئے ہماری کھلاڑیوں کو مضبوط حکمت عملی کے تحت میدان میں اترنا ہوگا۔ کھلنا ٹیسٹ کو ڈرا کرنے کا تمام سہرا بنگلہ دیشی کھلاڑیوں کو جاتا ہے جنہوں نے شاندار کھیل کے ذریعے اپنا لوہا منوایا۔ دنیا کے بہترین باولرز کے سامنے وہ سیسہ پلائی دیوار بن گئے ۔ جو بیت گیا اسے بھول جائو اب مستقبل کو روشن کرنے کے لئے جیت کا جذبہ لیکر میدان میں اترا جائے۔ پاکستان کرکٹ بوررڈ زمبابوے ٹیم کی میزبانی میں لگا ہے تاہم اسے اپنی ٹیم پر بھی گہری نگاہ رکھنی چاہئے وقار یونس کو ہٹانے سے کچھ نہیں ہوگا اس کی بجائے اگر غیر ملکی کوچز کو گڈبائے کہہ دیا جائے تو بہتر ہوگا۔پاکستان ٹیم کی تمام صورتحال پر پی سی بی حکام کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ چیئرمین شہریار، کرکٹ کمیٹی، سلیکشن کمیٹی، ایگزیکٹو کمیٹی ڈائریکٹر ڈومیسٹک اور ڈائریکٹر انٹرنیشنل سب پر ہی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ سب کو چاہیے کہ تمام صورتحال کا جلد از جلد جائزہ لے کیونکہ اگر یہی رزلٹ آئیں گے تو ان کے عہدے بھی سوالیہ نشان بن کر ماضی کا حصہ بن جائے گے۔ بنگلہ دیش کے دورہ سے قبل ہی ضقومی کھلاڑی فٹنس مسائل کا شکار ہونا شروع ہو گئے تھے، کھلاڑیوں کی فٹنس پر پاکستان کرکٹ بورڈ نیشنل کرکٹ اکیڈمی کے سٹاف کے ساتھ ملکر بڑی کوششوں میں لگا رہا لیکن نتائج کھلاڑیوں کے ان فٹ ہونے کی صورت میں سامنے آئے، تمام صورتحال کا ذمہ دار کون ہے اس بات کا تعین ہونا ضروری ہے۔
کرکٹ کے دیوانوں کو مایوسی
May 05, 2015