” مَیں گُنہگار بُو تُرابی ہُوں!“

 سیاست میں دوستی اور دشمنی ساتھ ساتھ چلتی ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دوستی یا دشمنی مُستقل نہیں ہوتی ”قوم کے وسِیع تر مُفاد میں“ دو جانی دُشمن سیاست میں گہرے دوست بن جاتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ ”ہماری دوستی آئندہ نسلوں تک چلے گی“۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو اُس وقت اقتدار میں نہیں تھے جب اُن کی جناب عبدالحفیظ پیر زادہ سے بے تکلف دوستی تھی۔ پیپلز پارٹی کے بانی رکن اور وفاقی وزیر (مرحوم) خورشید حسن مِیر راوی ہیں کہ ”ایک دن وفاقی وزیر عبدالحفیظ پیرزادہ نے کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم بھٹو کو بے تکلفی سے ” زُلفی“ کہا تو جنابِ بھٹو آپے سے باہر ہوگئے اور انہوں نے پیرزادہ صاحب اور اُن کی بیگم سعدیہ پیرزادہ کے بارے میں بے تکلفانہ گفتگو شروع کردی تو پیرزادہ صاحب اٹھ کر چلے گئے۔
” جدوں آئی مرزے دی واری ........!“
سابقہ وزیر داخلہ سندھ جناب ذوالفقار مرزا اور سابق صدر آصف زرداری بچپن کے دوست ہیں۔ اُس دوستی کی وجہ سے ہی جنابِ زرداری نے 2008ءکے بعد مرزا صاحب کی اہلیہ بیگم فہمیدہ مرزا کو قومی اسمبلی کی سپیکر منتخب کرایا اور مرزا صاحب کو وزیر داخلہ سندھ بنوایا۔ مرزا صاحب جنابِ زرداری کی ایم کیو ایم سے "Love Hate Relationship Policy" کو نہیں سمجھ پائے اور ایم کیو ایم کے لئے اپنی "Hat-Hate" پالیسی پر اڑ گئے۔ تو جناب زرداری نے دوستی کی پروا نہیں کی ۔
بیگم فہمیدہ مرزا اور اُن کا بیٹا اب بھی قومی اور صوبائی اسمبلی کے رُکن ہیں جناب ذوالفقار مرزا نے جنابِ زرداری اور ان کی ہمشیرہ محترمہ فریال تالپور کے بارے میں زبان و بیان کے جوہر دکھائے ہیں اور جوابِ آں غزل کے طور پر جنابِ زرداری اور ان کی ہمشیرہ کی حمایت میں سندھ پیپلز پارٹی کی معزز خواتین نے ”مونچھےں رکھ لینے سے کوئی شخص مرد نہیں بن جاتا“ قِسم کے الفاظ سے مرزا صاحب کو للکارا ہے۔ اُسے انگریزی زبان میں "Exchange of Dirty Words" کہا جاتا ہے ۔ جنابِ زرداری کسی دَور میں ”یاروں کے یار“ کہلاتے تھے لیکن جب سے انہوں نے اُن کے لئے تخلیق کیا گیا میرا نعرہ اِک زرداری سب سے یاری“ اپنایا ہے جناب ذوالفقار مرزا سے ان کی یاری ٹوٹ گئی ہے۔ پنجاب کی لوک کہانی ” مرزا صاحبان “ کا ہِیرو ”مِرزا“ کھرل راجپوت تھا۔ ایک لوک گیت مں مرزا کی ”یاری“ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ
” جدوں آئی مِرزے دی واری
 تے ٹُُٹّ گئی تڑک کر کے “
جناب ذوالفقار مِرزا ”مُغل“ ہیں لیکن پیپلز پارٹی میں جو لوگ ابھی تک بھٹو خاندان کے وفادار ہیں، وہ آپس میں ضرور کہتے ہوں گے کہ
” جدوں آئی مِرزے دی واری
تے ٹُٹّ گئی تڑک کر کے“
2 مئی 13 رجب کو پاکستان سمیت دُنیا بھر کے مسلمانوں نے امیر المومنین ”باب اُلعلم“ حضرت علی مرتضیٰؓ کا یومِ پیدائش منایا اور عُلماءنے آپؓ کے فضائل بیان کئے۔ حضرت علیؓ کی تصنف ”نجہتہ اُلبلاغہ“ مسلمانوں میں قرآن پاک کے بعد سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کِتاب ہے۔21 رمضان شریف کو حضرت علیؓ کا یومِ شہادت بھی سارے مسلمان عقیدت و احترام سے مناتے ہیں ۔ قائداعظم ؒ سے ایک صحافی نے پوچھا ”آپ سُنّی ہیں یا شِیعہ؟ تو انہوں نے کہا کہ ”مَیں تو عام مسلمان ہوں لیکن حضرت علیؓ کا یوم ولادت اور شہادت تو ہم سب مسلمان مناتے ہیں۔“ حضرت علیؓ کا لقب ” بُو تُراب“ تھا (یعنی مٹی خاک یا زمین کا باپ) یہ لقب آپؓ کو ” مدینہ اُلعِلم“ نے دِیا تھا۔ ایک دِن حضرت علیؓ ؓ مسجد نبوی میں فرشِ زِمین پر سو رہے تھے ۔ اُن کا جِسم خاک میں آلودہ ہوگیا تھا کہ رسالت مآب تشریف لائے اور فرمایا ” قُم یا ابا تُراب!“ (یعنی اے مٹی میں بھرے ہوئے جِِسم والے اب اُٹھ بیٹھ!“علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ”مجھے بُو تُرابؓ سے نسبت ہے۔ مَیں اُن کے مسلک پر چلنے والا ہوں اور اُن کا غلام اور پَیروکار ہُوں“ پھر کہا کہ
”یہ گُنہگار بُو تُرابی ہے“
حضرت علیؓ نے فرمایا ”اے بلند محل تعمیر کرنے والے بس کر! اِس لئے کہ تجھے ویران قبر میں رہنا ہے“ ہمارے سابقہ اور موجودہ کے حکمران قومی خزانے سے تعمیر کئے گئے بلند و بالا محلات میں رہتے تھے / ہیں اور جو لوگ پورا ٹیکس ادا نہیں کرتے وہ بھی قومی دولت لوٹنے والوں اور اندرون و بیرون مُلک محلات خریدنے / تعمیر کرنے والوں کو ”باب اُلعلم“ سے کیا واسطہ؟ امیر المومنین کی حیثیت سے حضرت علیؓ نے مِصر کے گورنر حضرت مالک بن اُشترؓ کو اپنے خط میں لِکھا تھا کہ ”یہ کُرسی جس پر تُم بیٹھے ہو، اگر مُستقل ہوتی تو تُم تک کیسے پہنچتی؟“ ہمارے دو حکمرانوں جناب ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاءالحق نے اپنے اپنے دَور میں اپنی اپنی کُرسی کے ہتھّے پر ہاتھ مارتے ہُوئے کہا تھا ”ہماری کُرسی بہت مضبوط ہے“ پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ دونوں حکمران غیر طبعی موت کا شکار ہوئے۔ اُس کے بعد بھی ہر کسی حکمران ، سیاستدان اور مذہبی قائد کو آخرت سے زیادہ اپنے اور اپنے خاندان کے ہر فرد کے لئے کُرسی کی فکر ہے۔
امیرالمومنین حضرت علیؓ نے قاضی¿ کی عدالت میں استغاثہ دائر کِیا کہ ” فلاں یہودی نے میری زرّہ چوری کرلی ہے۔“ قاضی نے خلیفہؓ اور یہودی دونوں کو طلب کرلِیا اور خلیفہ کو یہودی کے برابر کھڑا رکھا۔ بُو ترابؓ نے کرسی طلب بھی نہیں کی۔ قاضی نے خلیفہؓ سے کہا ”علیؓ اپنا کوئی گواہ پیش کریں کہ ” اِس یہودی نے آپ کی زرہّ چوری کرلی ہے“ امیر المومنینؓ نے کہا ”میرے دونوں بیٹے حسنؓ اور حسینؓ میرے حق میں گواہی دے سکتے ہیں“ قاضی نے کہا کہ ۔ ”کوئی ایسا گواہ لائیں جو آپ کا رشتہ دار نہ ہو “۔ امیر المومنینؓ نے کہا کہ میرے پاس ایسا کوئی گواہ نہیں ہے“ قاضی نے مقدمہ خارج کردیا ۔ یہودی نے خلیفہ اسلامؓ کے خلاف فیصلہ سُن کر اپنا جُرم قبول کرلیا اور وہ مسلمان ہوگیا۔
اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے ”مُتفقہ آئین“ پر جیّد عُلما نے بھی دستخط کئے تھے۔ اِس آئین کے مطابق سربراہ مملکت کتنا ہی بدعنوان کیوں نہ ہو، اسے عدالت میں طلب نہیں کیا جاسکتا۔ حضرت علیؓ نے فرمایا تھا کہ ”کُفر کی حکومت چل سکتی ہے ظلم کی حکومت نہییں چل سکتی“ جِس ملک میں 60 فی صد لوگ غُربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کر رہے ہوں اور کرپٹ ترین لوگوں کے خلاف اربوں کھربوں روپے کے مقدمات میں اُن کی ضمانت ہو جاتی ہو اور انہیں ہر دور میں پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کا رکن منتخب کرنے کا موقع بھی مِل جاتا ہو تو انہیں ”باب اُلعِلمؓ“ تو کیا ”مدینة اُلعِلم“ کا بھی دِن منانا عجیب سا لگتا ہوگا۔ باری باری کُرسی پر بیٹھنے والوں کے "Musical Chairs" کا کھیل نہ جانے کب تک کھیلا جائے گا؟
ہندوستان پر قابض انگریز حکمران کے دَور میں کسی پنجابی شاعر نے پندرہ مربع زمین کی مالکہ ایک خاتون کی طرف سے اپنے محبوب کو ڈرانے کے انداز کو یوں بیان کِیا کہ
” وے مَیں پندراں مربیاں والی
کچہری وِچّ مِلے کُرسی!“
انگریزوں سے آزادی کے بعد اب بھی کُرسی عطا کرنے اور حاصل کرنے کا وہی نظام ہے ۔کیا آسمانوں سے حضرت عیسیٰؑ کے نزول سے پہلے کوئی حکمران علامہ اقبال ؒ کی طرح عجز و انکسار سے نہیں کہے گا کہ
” مَیں گنہگار بُو ترابی ہُوں“

ای پیپر دی نیشن