اسلام آباد (آئی این پی) ایوان بالا میں ارکان وفاقی اداروں میں کرپشن کی شرح میں اضافے کے رجحان پر پھٹ پڑے اور کہا کہ کرپشن کے سدباب اور تحقیقات کیلئے قائم نیب، ایف آئی اے اور محکمہ اینٹی کرپشن خود کرپشن کے سب سے بڑے گڑھ بن گئے ہیں، ارکان پارلیمنٹ کو ملنے والے ترقیاتی فنڈز بھی کرپشن کا ذریعہ بن گئے، ایوان صدر سے وزیراعظم ہائوس تک کرپشن کے الزامات لگتے ہیں، کوئی ادارہ مقدس گائے نہیں، تمام اداروں کی کرپشن کی چھان بین ہونی چاہیے، کرپشن ادارہ جاتی شکل اختیار کر گئی، کرپشن کے کیسز کی چھان بین کی نگرانی کیلئے سینٹ کی تمام جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل کمیٹی قائم کی جائے، ارکان پارلیمنٹ کو کرپشن کے سدباب کیلئے خود رول ماڈل بننا ہو گا۔ ایم کیو ایم کے سینیٹر طاہر حسین مشہدی نے اپنی قرارداد میں کہا کہ کرپشن ترقی کرتے کرتے اب ادارہ جاتی سائنس بن چکی، وزراء سے لے کر سیکرٹریوں تک سب کا کرپشن میں حصہ ہوتا ہے۔ فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پی اے سی میں زیر بحث آیا تو پتہ چلا کہ بعض حاضر سروس اور بعض ریٹائرڈ فوجی اربوں روپے کی کرپشن میں ملوث ہیں، پھر ان سے لوٹی ہوئی رقم خزانے میں واپس لانے کی بجائے پی اے سی کو فیصلہ دینا پڑا کہ ان حضرات کا کیس خود ان کا ادارہ سنے گا۔ چودھری نثار اس قدر مایوس ہوئے کہ پی اے سی کی چیئرمین شپ سے مستعفی ہو گئے، سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے پی اے سی میں پیش ہونے سے انکار کیا، ان کا کوئی کچھ بگاڑ سکا۔ مسلم لیگ ن کے چوہدری تنویر نے کہا کہ ہر دور میں قوانین بنے مگر کرپشن جاری ہے، اب تو کرپشن کو کوئی برا بھی نہیں سمجھتا۔ ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ ماضی میں لوگ کرپٹ آدمی سے نفرت کرتے تھے، اب وہ باعزت کہلاتے ہیں۔ سینیٹر ثمینہ عابد نے کہا کہ ہر ایک کو کرپٹ کہنا درست نہیں، اچھے اچھے نیک افسر موجود ہیں، چند گندی مچھلیوں کی وجہ سے سب کو بدعنوان قرار نہیں دینا چاہیے۔ الیاس بلور نے کہا کہ جو دو نمبری میں حصہ نہیں لیتے ان کیلئے ترقی کے مواقع کم ہیں، حکومت نے پیپرا رولز کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔ سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ ایک گندی مچھلی نے پورے تالاب کو گندا کر دیا ہے۔ عثمان کاکڑ نے کہا کہ ضیاء الحق کے مارشل لاء سے قبل ملک میں کرپشن برائے نام تھی، ہر فوجی آمر نے کرپشن کو فروغ دیا، صنعتوں اور جاگیر داروں میں جرنیل بھی ہیں، انٹیلی جنس اداروں نے بھی کرپشن کو فروغ دیا۔ پاکستان میں ایک ہزار ارب روپے سالانہ کی کرپشن ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ کے ارکان کرپشن میں ملوث نہ ہوں تو ہم کرپشن کے حوالے سے جرنیلوں، وزراء اور بیورو کریسی کو کنٹرول کر سکتے ہیں، پارلیمنٹ کے ٹکٹوں اور وزارتوں کیلئے بھی رشوت دی جاتی ہے، ملک کی اپر کلاس99فیصد کرپٹ ہے، نیب خود کرپشن کا سب سے بڑا گڑھ ہے، مشہور وکلاء ملک کے بڑے بڑے کرپٹ لوگوں کے کیس لڑ رہے ہیں، ریٹائر جج ارب پتی بن گئے۔ ایم کیو ایم کے بیرسٹر سیف نے کہا کہ کرپشن ہمارے معاشرے میں ایک ارتقائی حصہ بن گیا ہے۔ بھارت کی طرح پاکستان میں بھی کرپشن کے مقدمات کی نگرانی کیلئے کمیٹیاں بنانی چاہئیں۔ سینیٹر صالح شاہ نے کہا کہ کرپشن میں ملوث لوگوں کو کرپٹ کی اصطلاح کی بجائے چور قرار دیا جائے۔ مشاہد حسین سید نے کہا کہ پارلیمنٹ کے ارکان کو کرپشن کے خاتمے کیلئے رول ماڈل بننا ہوگا۔ ارکان پارلیمنٹ کے فنڈز بھی کرپشن کا ذریعہ ہیں، یہ بند ہونے چاہئیں۔ نہال عاشمی نے کہا کہ جج سے حج تک کرپشن ہوئی، کرپشن کی وجہ سے بیرونی سر مایہ کار آنے کیلئے تیار نہیں، کرپشن کا الزام ایوان صدر سے لے کر وزیراعظم ہائوس تک لگا، سرکاری محکموں میں سیاسی بھرتیاں کی گئیں، جس سے قومی ادارے ڈوب گئے۔ سب اداروں کو آئین کے تحت کام کرنا چاہیے۔ چیئرمین سینٹ نے کرپشن کے خلاف قوانین وضع کرنے کے لئے سفارشات کی تیاری کا معاملہ سینٹ کی قانون و انصاف کی کمیٹی کے سپرد کردیا۔ راجہ ظفرالحق نے اس معاملے پر اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کرپشن کے خلاف قومی سوچ اور محاذ بننا بہت ضروری ہے۔ وزیر مملکت شیخ آفتاب احمد نے کہا وزیراعظم نواز شریف نے تمام وزارتوں کو کرپشن کے خلاف اقدامات کرنے کیلئے خط لکھا ہے، کرپشن ناقابل برداشت ہے، اگر قانون میں ترمیم کرنا پڑی تو کریں گے۔ دریں اثناء سینٹ کے ارکان نے ملک میں بینکنگ کے شعبے کی کارکردگی کو ناقص قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سرکاری اور نجی بینکوں سے حکومتی قرضوں کی وجہ سے نجی شعبہ سرمایہ کاری کیلئے قرضے دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے تباہی سے دوچار ہے، سٹیٹ بینک زرعی بینک سمیت تمام کمرشل بینکوں کو چاروں صوبوں میں یکساں زرعی قرضے جاری کرنے کا پابند بنائے، کے پی کے، جی بی، فاٹا اور بلوچستان میں درمیانی سرمایہ کاروں کوبینک قرضوں کی عدم فراہمی کی وجہ سے سمال اینڈ میڈیم انڈسٹری دم توڑ رہی ہے، فاٹا میں سرمایہ کاری کے مواقع نہ ہونے اور بے روز گاری کی وجہ سے نوجوان دہشت گردی کی طرف راغب ہو سکتے ہیں۔