غریبوں کو نگلتے آسیب

شہروں نے اپنی بانہیں پھیلا لیں اور اپنے مضافات کے سارے دیہات، کھیت اور منظر اس میں سمیٹ لیے۔ کھیتوں اور جنگلوں کی جگہ ہاؤسنگ سوسائیٹیز اور ولاز نے لے لی۔ دھیرے دھیرے شہر کنکریٹ کی دیواروں، تارکول کی سڑکوں، مصنوعی آرائیشی پودوں سے بھر گئے۔ اسکولز، کالجز، یونیورسٹیز اور دفاتر، سڑکوں پر ٹریفک جام کے مناظر، گہما گہمی اور افراتفری کے ساتھ ساتھ شہر بڑے بڑے امیروں، رئیسوں، نوابوں زمینداروں اور نودولتیوں کے محلوں، کوٹھیوں، حویلیوں اور بنگلوں کی سوسائیٹیز پر مشتمل ہو گئے، غریبوں اور سفید پوشوں کو ان کے مکانوں اور جھونپڑوں تک محدود کر دیا گیا۔شہر بڑے وسیع القلب ہوتے ہیں۔ یہ اردگرد کے دیہات کو اپنے اندر سمو کر انھیں بھی شہر بنا دیتے ہیں۔ انھیں معتبر کر دیتے ہیں۔ لاہور شہر کو ہی دیکھ لیں۔ یہ پھیلتے پھیلتے اتنا وسیع ہو گیا ہے کہ اس کے اردگرد زمینداروں نے کاشتکاری چھوڑ دی اور ان زمینوں پر دھڑا دھڑ ہاؤسنگ اسکیمیں بنا نا شروع کر دیں۔ لاکھوں کی زمین کروڑں اربوں میں بِکنے لگی۔ سوسائیٹز کی بھرمار، معیار زندگی بلند کرنے کی دوڑ اور تیز رفتاری میں ایک طبقہ جو کبھی انھی امیروں اور رئیسوں کے ہمراہ رہتا تھا اسے بہت نقصان اٹھانا پڑا۔ بہت زیادہ وقت نہیں بیتا مجھے یاد ہے نانا جی کے حویلی نما گھر کے عین سامنے مٹی سے بنا خان محمد ترکھان کا گھرتھا۔ اس گھر کے ساتھ دو منزلہ ایک ریٹائرڈ فوجی کا گھر تھا۔ اس سے آگے موچیوں کا مٹی اور اینٹوں سے بنا گھر تھا اور اس سے آگے پھر کسی اور زمیندار کا ایک بڑا حویلی نما گھر۔ پورا قصبہ اسی طرح تھا، کہیں کسی غریب کا گھر تھا تو اس کی دیورایں کسی امیر کے گھر کے ساتھ لگتی تھیں۔ خان محمد ترکھان کو اللہ نے ایک ہی بیٹا دیا۔ بہو اور بیٹے کے ساتھ ان کی نہ بن سکی۔ لیکن میاں بیوی کبھی بھوکے نہیں سوئے۔ ان کی کوئی ضرورت ایسی نہ ہو گی جس کی انھیں محتاجی ہوتی۔ اس کی بیوی کو جب بھوک لگتی توگاوں میں کسی کے بھی گھر چلی جاتی تھی اور اپنا حق سمجھ کر وہاں سے کھانا کھاتی ۔ اسے کوئی منت سماجت نہیں کرنا پڑتی تھی۔ وہ جب بھی جس بھی گھر میں گئی اسے عزت و احترام کے ساتھ کھانا دیا جاتا۔ وہ دن میں کئی بار چائے پیتی تھی۔ وہ جیسے ہی ہم لوگوں کے گھر داخل ہوتی سب سمجھ جاتے کہ اماں چائے پینے آئی ہے۔ اس کے لیے خاص چائے بنائی جاتی۔ کبھی کسی کے ماتھے پر بل دیکھے نہ ناگواری۔
اسی طرح گاؤں میں کسی کی بیٹی کی شادی ہوتی تو سب اس ذمہ داری کو اپنی ذمہ داری سمجھتے۔ جس کی بیٹی کی شادی ہوتی باری باری سارے گھرانے حسب توفیق کچھ نہ کچھ دیتے۔ کوئی چاول دے رہا ہوتا تو کوئی پیسے، کوئی کپڑے لتے، کوئی کہتا کھانا میرے ذمے ہے، تو کوئی کہتا فرنیچر میں دوں گا۔ یہاں تک کہ کوئی مر جاتا تو اس کے کفن دفن کے انتظام سے لے کر اس کے مرنے پر کھانا دینے تک صاحب استطاعت لوگ ان لوگوں کے ساتھ تعاون کرتے۔ جمعراتوں پر خاص کھانے پکانے کا اہتمام کیا جاتا تھا اور اسے علاقے کے ضرورت مندوں کے گھر بھجوایا جاتا تھا۔ چھوٹے چھوٹے مسائل میں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے تھے۔ کوئی گھر بھوکھا نہیں سوتا تھا کیونکہ سب لوگ ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ پہچانتے تھے کہ کون کتنا ضرورت مند ہے۔ کسی گھر میں کسی کو بخار بھی ہوتا تو سارے گاوں کو خبر ہو جاتی تھی اور اسے پوچھنے کے لیے باری باری سب لوگ آتے تھے۔ اور اب بھی دیہات کی صورت حال ایسی ہی ہے۔لیکن ہاوسنگ سوسائیٹیز جہاں لوگوں کے معیار زندگی کو بلند کرنے کا ایک راستہ نظر آتی ہیں وہیں یہ صاحب استطاعت اور ضرورت مندوں کے درمیان نہ ختم ہونے والے فاصلے کو بھی جنم دے رہی ہیں۔ ایک ماحول وہ ہے جہاں سب ایک دوسرے کو جانتے اور ایک دوسرے کی خبر رکھتے ہیں دوسری طرف ساتھ والے گھر میں رہنے والوں کی خبر تک نہیں ہوتی کہ وہ کون ہیں اور کس حال میں ہیں۔ یہاں تک کہ کوئی مر جائے تو اس کے جنازے میں رشتے داروں کے سوا کوئی شامل نہیں ہوتا۔ مجھے یاد پڑتا ہے میرے چھوٹے ماموں کا ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں انتقال ہو گیا۔
پورے علاقے میں کہرام مچ گیا ہر آنکھ اشکبار تھی ہر دل غمگین تھا۔ ہر کوئی درد اور کرب میں تھا ، اتنی مخلوق کہ مین روڈ پر گھر کے اندر اور چھت پر تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ یہاں تک کہ محلے میں ہونے والی شادی تک کینسل کر دی گئی اور بعد میں انتہائی سادگی سے شادی کی گئ۔ یہ وہ ماحول ہے جہاں سب کے لیے عزت و احترام کی فضا شہروں کا پھیلاو بہت اچھا ہے۔ لیکن شہروں کے پھیلاو سے غریب امیر سے دور ہوتا جا رہا ہے۔غریبوں کی الگ بستیاں بن گئی ہیں اور امیروں نے خود کو پوش علاقوں تک محدود کر لیا جہاں سے وہ اپنی شاہانہ شان و شوکت کے ساتھ نکلتے ہیں اور کبھی کبھار صدقہ و خیرات کے نام پر کسی کو کچھ نہ کچھ دے دیتے ہیں۔ لیکن وہ ان کے ساتھ زندگی نہیں گزارتے وہ ان کے روز مرہ کے دکھ سکھ اور مسائل سے بھی نا آشنا ہوتے ہیں۔ ان تک مسائل میڈیا کے ذریعے پہنچتے ہیں۔ جبکہ دوسرے ماحول میں انسان براہ راست اس ماحول کا حصہ بن جاتا ہے۔
بڑھتے ہوئے مسائل کی ایک بنیادی وجہ غریب اور امیر کے درمیان فاصلہ ہے۔ نظام تعلیم سے لے کر ہمارے سماجی اور معاشی رویوں تک امیر اور غریب کے درمیان فرق رچ بس گیا ہے۔اپنے سے کم حیثیت شخص ہم اپنی سوسائٹی میں برداشت ہی نہیں کر سکتے حالانکہ انکے اور صاحب ثروت کے درمیان فرق صرف دولت کا ہوتا ہے۔ مرنے کے بعد کا سفر ایک جیسا ہے۔ اربوں کی بننے والی ہاوسنگ سوسائیٹز میں کہیں ان غریبوں کو بھی جگہ دینی چاہیے۔ ان کامعاشرے پر حق ہوتا ہے۔ ہم جو خیرات کے نام پر ان کی جھولی میں سکے ڈالتے ہیں یہ انکا وہ حق ہے جو ہاوسنگ سوسائیٹیز بننے سے پہلے ہمارے ساتھ رہتے ہوئے یہ لوگ انجوائے کرتے تھے ، جس سے ہم نے انہیں محروم کر دیا ہے۔ ۔ جہاں اتنا سرمایہ لگایا اور کمایا جا رہا ہوتا ہے وہاں ان غریبوں کے لیے ویلفیئر پراجیکٹس اور رہائیشی منصوبہ جات بھی ہونے چاہیں۔ جس میں صاحب استطاعت لوگ اور ہاوسنگ سکیمز کے مالکان بہت زیادہ نہیں تو چند گھرانوں کو چھت فراہم کرنے کے فلاحی منصوبہ جات سے اس بڑھتے ہوئے خلا کو کم کر سکتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن