پاکستان، ہندوستان میں کشیدگی کی سب سے بڑی وجہ مسئلہ کشمیر ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کشمیر کے مسئلے پر تین جنگیں لڑ چکے ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں بے پناہ مظالم کے باوجود بھارت مسئلہ کشمیر حل کرنے سے گریزاں ہے ،ترک صدر طیب اردوان کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیش کش پر بھارت روایتی طور کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دیتے ہوئے اسے دو طرفہ مسئلہ قرار دیا ہے ،مسئلہ کشمیر کے پس منظر پر تھوڑی نظر ڈالی جائے تو یہ حقائق سامنے آتے ہیں
جب تقسیم ہند میں ریڈ کلف ایوارڈ نے بدنیتی سے گورداسپور ہندوستان میں شامل کردیا تو کشمیر کی آزادی کیلئے مقامی کشمیری لیڈروں اور مجاہدین کے ساتھ قبائلی لشکر 22اکتوبر1947 کو کشمیر کی سرحد عبور کر کے سری نگر تک جا پہنچے، مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوستان سے مدد طلب کی مگر ہندوستان نے شرط رکھی کہ وہ پہلے کشمیر کا ہندوستان کیساتھ باقاعدہ الحاق کا اعلان کرے۔ چنانچہ راجہ نے ایسا ہی کیا اور حتمی فیصلہ رائے شماری میں طے پانے کی بات تسلیم کرائی ہندوستان کی باقاعدہ فوجیں کشمیر میں داخل ہو گئیں اور اس پر غاصبانہ قبضہ کر لیا جس پر پاکستان کی افواج کے دستے بھی بریگیڈیئر اکبر کی قیادت میں کشمیر میں داخل ہو گئے۔ جب ہندوستان کو محسوس ہوا کہ پاکستان کے قبائل اور مقامی کشمیریوں کا لشکر کشمیر کا ایک تہائی حصہ آزاد کرا چکا ہے لیکن ایسا نہ ہوا کہ مکمل کشمیر پر کشمیری مجاہدین اور قبائلی لشکر قابض ہو جائے وہ کشمیر کے مسئلے کو 13 اگست 1948 کو اقوام متحدہ میں لے گیا چونکہ ہندوستان کو کشمیری لیڈر شیخ عبداللہ کی حمایت حاصل تھی تو اسے یقین تھا کہ ریفرنڈم میں اسے فتح حاصل ہوگی مگر یکم جنوری 1949 کو ہندوستان اور پاکستان میں سیز فائر ہوگیا اور کنٹرول لائن وجود میں آ گئی مگر آج تک ہندوستان اقوام متحدہ کی قرارداوں پر عملدرآمد سے گریزاں ہے
جو قرار داد بھارت سلامتی کونسل میں یکم جنوری 1948 کو لے کر گیا اس پر آج تک عملدرآمد نہ ہو سکا اس قرارداد کے اہم نقاط یہ تھے۔ (1) فوری طور پر جنگ بندی ہو۔ (2) ریاست جموں وکشمیر سے دونوں ممالک کی افواج اور دیگر متحارب عناصر نکل جائیں۔ (3) ریاست میں ایک مخلوط حکومت قائم ہو جس میں مختلف جماعتوں کو نمائندگی دی جائے۔ (4) صورت حال معمول پر آجائے تو ریاست میں آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کرائی جائے۔
اگست 1949 تک بھارت نے کوئی مثبت قدم نہ اٹھایا اور نہ ہی اپنے نمائندے مشترکہ کمیٹی کیلئے پیش کئے۔ اقوام متحدہ نے آسٹریلیا کے ایک جج سراوون ڈکسن کو جولائی 1950 میں اپنا نامزد نمائندہ برصغیر بھیجا، اسکے مطابق طے کیا گیا کہ پاکستان کی افواج کشمیر سے پہلے نکل جائیں اور کچھ روز بعد بھارتی افواج بھی چلی جائیں ۔ آزاد کشمیر کی افواج اور ناردرن سکاﺅٹس جیسی تنظیمیں ختم کردی جائیں۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر کی افواج اور ملیشیا کو توڑ دیا جائے۔ رائے شماری کیلئے پورے کشمیر میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹوں کے تحت ایک تنظیم عمل میں لائی جائے اور ہر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے ساتھ اقوام متحدہ کا ایک مبصر ہو تاکہ رائے شماری میں کسی قسم کی مداخلت نہ ہو۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں شیخ عبداللہ کی وزارت عظمی کے تحت حکومت برقرار رہے۔ البتہ ایسا بندوبست کیا جائے کہ شیخ صاحب اپنے مطلب کے نتائج کیلئے موثر کارروائی نہ کر سکیں۔ اسکے علاوہ ڈکسن نے یہ بھی فارمولا پیش کیا کہ سارے جموں وکشمیر میں واحد انتظامیہ قائم ہو جو مکمل طور پر غیر جانبدار ہو اور غیر سیاسی افراد پر مشتمل ہو اور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ براہ راست اقوام متحدہ کا کنٹرول ہو جائے۔
ڈکسن کا پلان ناکام ہوگیا۔ بھارت ہٹ دھرمی کا آغاز کر چکا تھا اسے اقوام متحدہ نے اپنا تسلط جمانے کیلئے کافی وقت فراہم کردیا تھا ڈکسن نے اپنی رپورٹ میں لکھا ''بھارت کی افواج نسبتا زیادہ آبادی والے حصے میں موجود ہے ایسے میں اگر ریاستی ملیشیا اور ریاستی پولیس کو اپنا اثر قائم کرنے کا موقع دیا جاتا ہے تو کشمیری عوام اپنی رائے کا آزادانہ اظہار نہیں کر سکیں گے اور اگر رائے شماری کا نتیجہ پاکستان کی توقعات کے برعکس نکلا تو وہ یہ کہنے میں حق بجانب کہ رائے شماری آزادانہ اور منصفانہ نہیں تھی۔ سراوون ڈکسن کی ناکامی کے بعد ڈاکٹر گراہم اقوام متحدہ کے نمائندے بن کر برصغیر آئے۔ سلامتی کونسل نے 30مارچ 1951 کو مسئلہ کشمیر پر غور کرنے کے بعد ایک قرارداد منظور کی اور کہا کہ 13اگست 1948 اور 5جنوری 1949 کی قراردادوں کیمطابق وادی سے تمام افواج باہر نکال لی جائیں ڈاکٹر گراہم کو رائے شماری کیلئے باقاعدہ منصوبہ بندی کرنے اور اس پر عمل کروانے کیلئے بھیجا گیا۔ ڈاکٹر گراہم نے تین مہینے تک دونوں ممالک کے نمائندوں اور کشمیریوں کے مختلف گروپوں سے ملاقاتیں کیں تاہم ڈاکٹر گراہم نے 21دسمبر کو اپنی رپورٹ سلامتی کونسل میں پیش کی اور اپنی بے بسی کا اظہار ان الفاظ میں کیا، ''میں قائل ہوگیا ہوں کہ بھارت کو افواج واپس بلانے پر آمادہ نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ایسے حالات پیدا کئے جا سکتے ہیں کہ کشمیری عوام کسی دھونس اور دھاندلی سے متاثر ہوئے بغیر اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکیں'' ڈاکٹر گراہم نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ پاکستان نے ان تجاویز پر عملدرآمد کرنے کے حق میں رائے دی اور مکمل تعاون فراہم کیا لیکن بھارت کارویہ منفی رہا۔انیس سو باسٹھ میں چین اور بھارت کی جنگ ہوئی تو چین نے پاکستان سے کشمیر حاصل کرنے کیلئے پیش قدمی کیلئے کہا مگر جنرل ایوب صاحب نے ہمت نہیں کی ایک موقع ضائع ہوگیا ۔ (جاری ہے )
پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کو غریب عوام کا نجات دہندہ سمجھا جاتا ہے ان کے دور میں کچھ ایسے کام بھی ہوے جن کا خمیازہ بہت سے طبقات بھگت رہے ہیں بھٹو صاحب نے اپنے دور میں پاک بھارت جنگ کے بعد مشرقی پاکستان کھو دینے کے بعد دباﺅ میں شملہ معاہدہ کیا تو انہوں اس بات کو نظرانداز کردیا کہ مسئلہ کشمیر اقوام متھدہ کے ایجنڈے پر ہے اور بھارت یہ مسئلہ خود لے کر اقوام متحدہ گیا تھا شملہ میں بھٹو صاحب نے معاہدے میں یہ شق شامل کرادی کہ یا تسلیم کرلی کہ مسئلہ کشمیر دونوں ملک پاکستان اور بھارت باہمی مذاکرات کے ذریعے حل کریں گے اس وقت سے جب بھی معاملے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کی بات کی جائے تو بھارت صا ف انکار کر دیتا ہے اور کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دے کر شملہ معاہدے کا حوالہ دیتا ہے کہ مل بیٹھ کر حل کرنے پر پاکستان پابند ہے گویا کہا جاسکتا ہے شملہ معاہدہ ہی مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور کارنامہ قائدعوام ذوالفقار علی بھٹو کا ہے ۔
بھارت نے ترک صدرطیب اردوان کی جانب سے ثالثی کی پیشکش مسترد کردی ہے۔بھارت نے کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ اور مسئلہ کشمیر کو دوطرفہ مسئلہ قرار دے دیا ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردوان سے ملاقات میں نریندر مودی نے مسئلہ کشمیر کو دو طرفہ قراردے دیا۔جبکہ پاکستانی دفتر خارجہ پاکستان نے کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ترک صدر کی ثالثی کی پیشکش کا خیر مقدم کیا۔ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پرعالمی سطح پر تشویش ہے۔
دوسری جانب بھارت کی ہٹ دھرمی برقرار، ترک صدر کی جانب سے ثالثی کی پیشکش بھی مسترد کردی اور مسئلہ کشمیر کو دو طرفہ قرار دیدیا،ترک صدر رجب طیب اردون کے 2 روزہ دورہ بھارت کے اختتام پر نئی دہلی میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان گوپال باگلے نے کہا کہ جہاں تک مسئلہ کشمیر کا سوال ہے تو ہم پاکستان کے ساتھ بات چیت کے لیے ہمیشہ تیار ہیں۔ ہم صرف کشمیر ہی نہیں بلکہ تمام حل طلب مسائل پر بات چیت کے لیے ہمیشہ تیار ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے سلسلے میں پہلے بھی دو طرفہ کوششیں کی گئی ہیں، ہم مسئلہ کشمیر کو شملہ معاہدے اور لاہور اعلامیے کے مطابق مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں۔
پاکستان کے دفتر خارجہ نے ترک صدر کی جانب سے مسئلہ کشمیر کے حل میں ثالث بننے کی پیشکش کا خیر مقدم کیا اورا اقوام متحدہ، او آئی سی نے مسئلہ کشمیر کے حل کی ضرورت پر زوردیا اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پرعالمی تشویش ہے۔امریکا سمیت عالمی برادری نے بھی مسئلہ کشمیرکے حل کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ پاکستان نے انسانی حقوق اور مسئلے کے حل کیلیے بیانات اور کوششوں کا خیر مقدم کیا۔
اس سے پہلے دورہ بھارت کے موقع پر ترک صدر رجب طیب اردوان نے نہ صرف مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ثالثی کی پیشکش کی تھی بلکہ پاکستان کی مخلصانہ کوششوں کا بھی کھل کر ذکر کیا تھا۔بھارتی ویب سائٹ اور ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے ترک صدر نے بھارت سرکار کو دو ٹوک انداز میں مشورہ دیا کہ مسئلہ کشمیر میں دو طرفہ مذاکرات کے بجائے کثیر الجہتی مذاکرات ہونے چاہئیں اور ضرورت پڑنے پر ترکی بھی اس بات چیت میں شامل ہوسکتا ہے۔
بھارت سرکار نے صرف تین مختلف مواقع پر اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے سنجیدہ کوشش کی، اول جب فروری 1999 میں واجپائی لاہور آئے اور ایک قبول شدہ ٹائم فریم میں مفاہمت پر آمادگی ظاہر کی جس کے مطابق 25سال کیلئے آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کے درمیان کنٹرول آف لائن ختم کردی جائے ، کشمیری جس ملک کا چاہیں ویزہ رکھیں اور کشمیر کا دفاع اور خارجہ پالیسی کے معاملات پاکستان اور ہندوستان کی مرضی سے طے پائیں۔ دوم، جولائی 2000میں نئی دہلی نے کشمیر کے مجاہدین آزادی کے ساتھ بات چیت پر آمادگی ظاہر کی۔ سوم، جب واجپائی نے جنرل مشرف کو آگرہ آنے کی دعوت دی اور اپنی 20ماہ کی اس پالیسی سے یو ٹرن لیا جسکے تحت واجپائی نے اکتوبر 1999 کارگل کے واقعہ کے بعد پاکستان سے بات چیت نہ کرنے کا فیصلہ کر رکھا تھا، آج پاکستان نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کیساتھ وابستگی کو مضبوط کر کے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا جائز طریقوں سے حل کرنے پر زور دیکر کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی اخلاقی اساس کو بے حد مضبوط کردیا ہے کیونکہ 8جون 1998 کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی منظور شدہ قرارداد میں بھی کشمیر کا ذکر کیا گیا۔اس کے بعد بھارت نے وہی شملہ معاہدہ کی رٹ لگا کر مسئلہ کشمیر کے حل سے گریز کی پالیس اختیار کررکھی ہے عالمی سطح پر اسلامی ممالک سمیت عالمی برادری کے تجارتی مفادات بھارت سے وابستہ ہیں اس لیے کوئی سخت ایکشن نہیں لیاجارہا۔
مسئلہ کشمیر کا تاریخی پس منظر، شملہ سمجھوتا بڑی رکاوٹ 1-
پاکستان، ہندوستان میں کشیدگی کی سب سے بڑی وجہ مسئلہ کشمیر ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کشمیر کے مسئلے پر تین جنگیں لڑ چکے ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں بے پناہ مظالم کے باوجود بھارت مسئلہ کشمیر حل کرنے سے گریزاں ہے ،ترک صدر طیب اردوان کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیش کش پر بھارت روایتی طور کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دیتے ہوئے اسے دو طرفہ مسئلہ قرار دیا ہے ،مسئلہ کشمیر کے پس منظر پر تھوڑی نظر ڈالی جائے تو یہ حقائق سامنے آتے ہیں
جب تقسیم ہند میں ریڈ کلف ایوارڈ نے بدنیتی سے گورداسپور ہندوستان میں شامل کردیا تو کشمیر کی آزادی کیلئے مقامی کشمیری لیڈروں اور مجاہدین کے ساتھ قبائلی لشکر 22اکتوبر1947 کو کشمیر کی سرحد عبور کر کے سری نگر تک جا پہنچے، مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوستان سے مدد طلب کی مگر ہندوستان نے شرط رکھی کہ وہ پہلے کشمیر کا ہندوستان کیساتھ باقاعدہ الحاق کا اعلان کرے۔ چنانچہ راجہ نے ایسا ہی کیا اور حتمی فیصلہ رائے شماری میں طے پانے کی بات تسلیم کرائی ہندوستان کی باقاعدہ فوجیں کشمیر میں داخل ہو گئیں اور اس پر غاصبانہ قبضہ کر لیا جس پر پاکستان کی افواج کے دستے بھی بریگیڈیئر اکبر کی قیادت میں کشمیر میں داخل ہو گئے۔ جب ہندوستان کو محسوس ہوا کہ پاکستان کے قبائل اور مقامی کشمیریوں کا لشکر کشمیر کا ایک تہائی حصہ آزاد کرا چکا ہے لیکن ایسا نہ ہوا کہ مکمل کشمیر پر کشمیری مجاہدین اور قبائلی لشکر قابض ہو جائے وہ کشمیر کے مسئلے کو 13 اگست 1948 کو اقوام متحدہ میں لے گیا چونکہ ہندوستان کو کشمیری لیڈر شیخ عبداللہ کی حمایت حاصل تھی تو اسے یقین تھا کہ ریفرنڈم میں اسے فتح حاصل ہوگی مگر یکم جنوری 1949 کو ہندوستان اور پاکستان میں سیز فائر ہوگیا اور کنٹرول لائن وجود میں آ گئی مگر آج تک ہندوستان اقوام متحدہ کی قرارداوں پر عملدرآمد سے گریزاں ہے
جو قرار داد بھارت سلامتی کونسل میں یکم جنوری 1948 کو لے کر گیا اس پر آج تک عملدرآمد نہ ہو سکا اس قرارداد کے اہم نقاط یہ تھے۔ (1) فوری طور پر جنگ بندی ہو۔ (2) ریاست جموں وکشمیر سے دونوں ممالک کی افواج اور دیگر متحارب عناصر نکل جائیں۔ (3) ریاست میں ایک مخلوط حکومت قائم ہو جس میں مختلف جماعتوں کو نمائندگی دی جائے۔ (4) صورت حال معمول پر آجائے تو ریاست میں آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کرائی جائے۔
اگست 1949 تک بھارت نے کوئی مثبت قدم نہ اٹھایا اور نہ ہی اپنے نمائندے مشترکہ کمیٹی کیلئے پیش کئے۔ اقوام متحدہ نے آسٹریلیا کے ایک جج سراوون ڈکسن کو جولائی 1950 میں اپنا نامزد نمائندہ برصغیر بھیجا، اسکے مطابق طے کیا گیا کہ پاکستان کی افواج کشمیر سے پہلے نکل جائیں اور کچھ روز بعد بھارتی افواج بھی چلی جائیں ۔ آزاد کشمیر کی افواج اور ناردرن سکاﺅٹس جیسی تنظیمیں ختم کردی جائیں۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر کی افواج اور ملیشیا کو توڑ دیا جائے۔ رائے شماری کیلئے پورے کشمیر میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹوں کے تحت ایک تنظیم عمل میں لائی جائے اور ہر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے ساتھ اقوام متحدہ کا ایک مبصر ہو تاکہ رائے شماری میں کسی قسم کی مداخلت نہ ہو۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں شیخ عبداللہ کی وزارت عظمی کے تحت حکومت برقرار رہے۔ البتہ ایسا بندوبست کیا جائے کہ شیخ صاحب اپنے مطلب کے نتائج کیلئے موثر کارروائی نہ کر سکیں۔ اسکے علاوہ ڈکسن نے یہ بھی فارمولا پیش کیا کہ سارے جموں وکشمیر میں واحد انتظامیہ قائم ہو جو مکمل طور پر غیر جانبدار ہو اور غیر سیاسی افراد پر مشتمل ہو اور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ براہ راست اقوام متحدہ کا کنٹرول ہو جائے۔
ڈکسن کا پلان ناکام ہوگیا۔ بھارت ہٹ دھرمی کا آغاز کر چکا تھا اسے اقوام متحدہ نے اپنا تسلط جمانے کیلئے کافی وقت فراہم کردیا تھا ڈکسن نے اپنی رپورٹ میں لکھا ''بھارت کی افواج نسبتا زیادہ آبادی والے حصے میں موجود ہے ایسے میں اگر ریاستی ملیشیا اور ریاستی پولیس کو اپنا اثر قائم کرنے کا موقع دیا جاتا ہے تو کشمیری عوام اپنی رائے کا آزادانہ اظہار نہیں کر سکیں گے اور اگر رائے شماری کا نتیجہ پاکستان کی توقعات کے برعکس نکلا تو وہ یہ کہنے میں حق بجانب کہ رائے شماری آزادانہ اور منصفانہ نہیں تھی۔ سراوون ڈکسن کی ناکامی کے بعد ڈاکٹر گراہم اقوام متحدہ کے نمائندے بن کر برصغیر آئے۔ سلامتی کونسل نے 30مارچ 1951 کو مسئلہ کشمیر پر غور کرنے کے بعد ایک قرارداد منظور کی اور کہا کہ 13اگست 1948 اور 5جنوری 1949 کی قراردادوں کیمطابق وادی سے تمام افواج باہر نکال لی جائیں ڈاکٹر گراہم کو رائے شماری کیلئے باقاعدہ منصوبہ بندی کرنے اور اس پر عمل کروانے کیلئے بھیجا گیا۔ ڈاکٹر گراہم نے تین مہینے تک دونوں ممالک کے نمائندوں اور کشمیریوں کے مختلف گروپوں سے ملاقاتیں کیں تاہم ڈاکٹر گراہم نے 21دسمبر کو اپنی رپورٹ سلامتی کونسل میں پیش کی اور اپنی بے بسی کا اظہار ان الفاظ میں کیا، ''میں قائل ہوگیا ہوں کہ بھارت کو افواج واپس بلانے پر آمادہ نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ایسے حالات پیدا کئے جا سکتے ہیں کہ کشمیری عوام کسی دھونس اور دھاندلی سے متاثر ہوئے بغیر اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکیں'' ڈاکٹر گراہم نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ پاکستان نے ان تجاویز پر عملدرآمد کرنے کے حق میں رائے دی اور مکمل تعاون فراہم کیا لیکن بھارت کارویہ منفی رہا۔انیس سو باسٹھ میں چین اور بھارت کی جنگ ہوئی تو چین نے پاکستان سے کشمیر حاصل کرنے کیلئے پیش قدمی کیلئے کہا مگر جنرل ایوب صاحب نے ہمت نہیں کی ایک موقع ضائع ہوگیا ۔ (جاری ہے )