اپنے عروج کے دنوں میں برطانوی سامراج بہت تگڑا اور سیانا تھا۔اسی لئے تو اس کی بنائی Empireمیں سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا۔
صرف تجارت کی غرض سے بنائی ایسٹ انڈیا کمپنی جب برصغیر پاک وہند میں آئی تو معاملات بتدریج اسے کاروباری مفادات کے تحفظ کے لئے اس خطے پر حکمرانی کی طرف لے گئے۔ اس حکمرانی کو مو¿ثر بنانے کے لئے اسے سول سروس کا نظام متعارف کروانا پڑا۔ محکوم بنائے لوگوں کو بے تحاشہ قوانین اور عدالتی نظام کے ذریعے اس گمان میں مبتلا رکھا گیاکہ وہ کھونٹے سے بندھے جانور نہیں انسان ہیں۔ جن کے کچھ حقوق بھی ہیں۔انہیں تعلیم کی ضرورت ہے۔ علاج معالجے کے لئے ہسپتال بھی ضروری ہیں۔اُردو زبان جس میں لکھ کر میں اپنا رزق کماتاہوں، کلکتہ کے فورٹ ولیم کالج میں تیار ہوئی کتابوں کی وجہ سے پروان چڑھی۔ پشتو اور سندھی زبانوں کا سکرپٹ بھی انگریزوں ہی نے متعارف کروایا تھا۔ ریل کے حیران کن نظام کے ذریعے پشاور سے کلکتہ تک ”ایک ملک“ ہونے کے تصور کو یقینی بنایا گیا۔ اس ملک کے شہریوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مسلسل رابطے میں رکھنے کے لئے ڈاک کا نظام دیا گیا۔ فوری پیغام رسانی تار کے ذریعے یقینی بنائی گئی۔
صدر بش کے دنوں میں جب امریکی سامراج نے افغانستان اور عراق پر جنگیں مسلط کیں تو ان دونوں ممالک میں Nation Buildingکا ذمہ بھی اٹھایا گیا۔ ان دو ممالک کے لوگوں کو خوش رکھنے کے لئے Winning Hearts and Mindsکے دعوے بھی ہوئے۔ امریکہ مگر ان دونوں ممالک میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں قطعاََ ناکام رہا۔ بنیادی وجہ اس کی ناکامی کی یہ ضد تھی کہ وہاں بسے انسانوں کو صرف فوجی قوت سے خوفزدہ کرکے قابو میں رکھا جائے گا۔
انگریز فوجی قوت کے مظاہرے کے ضمن میں بہت محتاط تھا۔ اپنے فوجیوں کو وہ شہروں سے تقریباََ کٹے کنونمنٹس تک محدود رکھتا تھا۔”چھاﺅنی“ اور شہر اپنی سرشت میں دوقطعی مختلف ثقافتوں کی نمائندگی کرتے تھے۔چھاﺅنی کی زندگی کو جاندار بنانے کے لئے Messتھے ،Clubsتھیں۔بے تحاشہ مشاغل تھے جو فوجیوں کو چھاﺅنی تک محدود رکھتے تھے۔
برطانوی سامراج کا غلام دیسی باشندہ ”سرکار“کو صرف پولیس اور دیگر چھوٹے سرکاری اہلکاروں کے حوالے سے پہچانتا تھا۔ ان اداروں سے وابستہ لوگوں کی اکثریت مقامی لوگوں پر مشتمل ہوا کرتی تھی۔ انگریز صرف اعلیٰ ترین سرکاری عہدوں پر براجمان تھے۔عام آدمی کو اپنی روزمرہّ زندگی میں شاذونادر ہی ان سے رابطے کی ضرورت محسوس ہوتی۔خلقِ خدا کی اکثریت اس گماں میں مبتلا رہتی کہ ”سرکار“ ان ہی میں سے چنے لوگوں کے ذریعے چلائی جارہی ہے۔یقینا اس گماں کی وجہ سے 1857ءکے بعد برصغیر پاک وہند کے لوگ فرانس جیسے ممالک کی مقبوضہ نوآبادیوں میں موجود لوگوں کی طرح مسلح جدوجہد کے ذریعے آزادی کے حصول کی طرف مائل نہ ہوئے۔ ان کے دلوں میں موجود غصے اور خواہشات کے اظہار کے لئے سیاسی جماعتوں اور جلسے جلوسوں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ اخبارات اور رسائل کی سرپرستی ہوئی۔ان میں چھپنے والے مواد پر کڑی نگاہ رکھی جاتی۔ لکھنے والے مگر ہمیشہ اس خوش فہمی میں مبتلا رہے کہ انہیں اپنے خیالات کے اظہار کی مکمل آزادی میسر ہے۔
اقبال جیسے بے پناہ تخلیقی ذہن کے مالک شاعر اپنی تمام زندگی لوگوں کو یہ سمجھانے میں مصروف رہے کہ ان کے ذہن آزاد نہیں غلام ہیں۔ ان پر قابض انگریز سو طرح کی مکاریوں اور چالبازیوں کے ذریعے ان کی روحوں کو”خوئے غلامی“ کی لت میں مبتلا کرچکے ہیں۔اس کے نشے میں گرفتار ا فراد اپنے تخیل کو پرواز کی لذت سے آشنا کرنے کی خواہش سے بھی محروم ہوچکے ہیں۔
برطانوی سامراج کو 1857ءکے بعد حکمرانی کے حوالے سے البتہ بہت ہی کڑا وقت پہلی جنگ عظیم کے دوران دیکھنے کو ملا۔ خلافت عثمانیہ کو وہ اس جنگ میں اپنا دشمن گردانتا تھا۔ اس ”خلافت“ کو کمزور کرنے کے لئے اس نے عرب قوم پرستی کی پشت پناہی کی۔ ”لارنس آف عریبیہ“ جیسے کرداروں کے ذریعے ”خلافتِ عثمانیہ“ کے خلاف عرب کے صحراﺅں میں گوریلا جنگیں برپا ہوئیں۔”خلافت عثمانیہ“ کے زیرنگین علاقوں کو بغاوتوں کی بدولت قسطنطنیہ کے کنٹرول سے ”آزاد“ کروانے کے بعد ان پر اپنے کنٹرول کو یقینی بنانے کے لئے برطانوی حکمرانوں کو برصغیر پاک وہندسے بھرتی ہوئے فوجیوں کی ضرورت تھی۔
برصغیر پاک وہند میں لیکن ان دنوں ”تحریک خلافت“ شروع ہوگئی۔بہت ہی جید اور لوگوں کی نظروں میں معتبر علماءاس تحریک کی صف اوّل میں نمایاں تھے۔منبروں سے مسلسل وعظ ہوتے جو قرآن وحدیث کے ٹھوس حوالوں سے لوگوں کو اس بات پر قائل کرنے میں مصروف رہتے کہ برطانوی فوج میں بھرتی ہوکر خلافتِ عثمانیہ کے زیر نگین مسلم اکثریتی علاقوں پر کنٹرول کو یقینی بنانا”حرام“ ہے۔ انگریز کے قبضے میں آیا برصغیر پاک وہند بلکہ ازخود ”دارالحرب“ بن چکا ہے جہاں کفروشرک کی حکمرانی کے خلاف”جہاد“ فرض ہوچکا ہے۔
برطانوی سامراج مگر بہت ہی سیانا تھا۔1857ءکے ”غدر“ پر قابو پانے کے بعد سے وہ بہت اطمینان سے پشاور سے کلکتہ تک پھیلے وسیع وعریض علاقے پر راج کررہا تھا۔ ”تحریک خلافت“ کی وجہ سے بھڑکائے جذبات نے اسے حواس باختہ کردیا تو لوگوں کے دل ودماغ کو جیتنے کے لئے ”پراپیگنڈہ“ کی اہمیت کا احساس ہوا۔Public Relationingکی ضرورت محسوس ہوئی۔ ان ضرورتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ”آل انڈیا ریڈیو“ کی بنیاد رکھی گئی۔
پہلی جنگ عظیم کے تجربات سے سیکھ کر”آل انڈیا ریڈیو“ اور ”پبلسٹی ڈیپارٹمنٹ“ کو سرکار کے اہم ترین ا دارے بنانے کی وجہ سے برطانوی سامراج کو دوسری جنگ عظیم کے دوران گاندھی اور کانگریس کی جانب سے چلائی بہت ہی توانا”تحریکِ عدم تعاون“ کے باوجود برصغیر پاک وہند کے لوگوں کی اکثریت کو اپنا ہم نوا بنانے میں کوئی دِقت پیش نہیں آئی۔ ترانہ پاکستان کے خالق حفیظ جالندھری نے ان دنوں ”میں تو چھورے کو بھرتی کراآئی رے“جیسے گیت لکھے۔مولانا چراغ حسن حسرت جیسے باکمال نثرنگار انگریزی فوج کے ملازم ہوئے اور اس فوج کو لوگوں کے دل ودما غ جیتنے کے لئے فیض احمد فیض جیسے ”انقلابی شاعر لیفٹیننٹ کرنل کی وردی پہنے ہوئے نظر آئے۔
برطانوی سامراج کا ”بیانیہ“ (مجھے اب اس لفظ سے چڑہونا شروع ہوگئی ہے)،درحقیقت ”دیسی“ شاعروں،نثرنگاروں اور دیگر تخلیقی اذہان ہی نے ترتیب دیا تھا۔انگریز اس ”بیانیے“ کی بدولت ہی دونوں عالمی جنگوں میں کامیاب وکامران رہے۔ایک پنجابی محاورے کے مطابق برطانوی فوج کے لئے یہ ”کلے بندے“ کاکام نہیں تھا۔
یہاں تک پہنچنے کے بعد خیال آگیا کہ آپ لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ میں اس کالم میں دور کی کوڑیاںجمع کرتے ہوئے ٹامک ٹوئیاں مارتا پیغام کیا دینا چاہ رہا ہوں۔میں عرض صرف یہ کرنا چاہ رہا تھا کہ حکمرانی ”کلے بندے“ کا کام نہیں۔اس بات کو آج کے تناظر میں ٹھوس واقعات
کے حوالے سے بیان کرنے کی مگرمجھے ہمت نہیں ہوئی۔میری فطری بزدلی کو معاف کردیجئے۔
٭٭٭٭٭
حکمرانی ”کلے بندے“ کا کام نہیں
May 05, 2017