اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ وقائع نگار+ ایجنسیاں) پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور جہا نگیر ترین کی آف شور کمپنیوں اور پی ٹی آئی کے لیے غیر ملکی فنڈز لینے کے خلاف حنیف عباسی کی درخواست کی سماعت میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ایک نظریہ تھا کہ سیاسی معاملات عدالت میں نہیں آنے چاہئیں، امریکی سکالر نے کہا تھا کہ سیاسی گند کو عدالتی لانڈری میں نہیں دھلنا چاہئے۔ اب یہ معاملات عدالت میں آ چکے، ہم انہیں مناسب طریقے سے لے کر چلیں گے۔ جبکہ چیف جسٹس نے عدالتی احاطہ میں کیس کے بارے میں گفتگو کرنے پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ عدالت کے منع کرنے کے باوجود عدالتی احاطے میں گفتگو کی گئی، اس بارے عدالت کو درخواست گزار کے وکیل نے بتایا تھا کہ میڈیا پر گفتگو سے منع کرنے کے باوجود نعیم الحق نے خلاف ورزی کی۔ عدالت نے ان سے استفسار کیا کہ ٹیکس کے کن قوانین کے تحت عمران خان کو آف شور کمپنی کی جائیداد کو پاکستان میں ٹیکس ریٹرن میں ظاہر کرنا ضروری تھا ۔ اکرم شیخ نے ٹیکس قوانین کی متعلقہ شقیں بتانے سے معذوری کا اظہار کیا۔انہوں نے دلائل میں کہا کہ ہم عمران خان کی نا اہلی چاہتے ہیں جنہوں نے اپنی جماعت پی ٹی آئی کے لیے غیر ملکی فنڈز لیے جو کہ پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کی خلاف ورزی ہے کیونکہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں غیر ملکی فنڈنگ نہیں لے سکتیں اور اس بارے عمران خان نے الیکشن کمیشن میں بھی بیان جمع کرایا جس میں انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے غیر ملکی فنڈنگ نہیں لی، چونکہ عمران خان پی ٹی آئی کے چیئرمین ہیں اور پی ٹی آئی نے ممنوعہ ذرائع سے فنڈنگ لی ہے، ہم پی ٹی آئی کی نہیں بلکہ عمران خان کی نا اہلی مانگتے ہیں ، عمران خان نے اثاثے چھپائے، وہ صادق اور امین نہیں رہے۔ فارن فنڈنگ لینے کی سزا سیاسی جماعت کا خاتمہ ہے اس کیلئے وفاقی حکومت ریفرنس دائر کرتی ہے۔ عمران نے اثاثوں میں آف شور کمپنی ظاہر نہیں کی، انہیں نااہل کیا جائے، جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ انتخابی قوانین کی بنیاد پر آپ رکن پارلیمنٹ کی نا اہلی مانگ رہے ہیں، کیا آپ نا اہلی کیلئے کسی اور فورم پر گئے، کیا الیکشن کمیشن سے رجوع کیا۔ اکرم شیخ نے کہا کہ نہیں میں کسی اور فورم پر نہیں گیا، میں آرٹیکل 62 اور 63کے تحت نا اہلی مانگ رہا ہوں۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ آپ نے ارکان پارلیمنٹ میں سے صرف عمران خان کو ہی کیوں چنا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ عمران خان نے جھوٹ پر مبنی سرٹیفکیٹ جمع کروائے اور عمران خان غیر ملکی فنڈنگ قبول کرتے ہیں، کیا اس بنیاد پر نا اہل قرار دیا جائے۔ اکرم شیخ نے کہا کہ پی ٹی آئی نے غیر ملکی فنڈنگ کے لیے امریکہ میں کمپنی بنائی جس کے تحت فنڈز حاصل کیے اور اس کمپنی کے 7 میں سے 5 ڈائریکٹرز امریکی تھے، یہی وجہ تھی کہ ڈونرز کی شناخت چھپانے کیلئے تحریک انصاف نے ایل ایل سی کمپنی بنائی۔ ممنوعہ ذرائع سے 2 ڈالر بھی آئیں تو قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ عمران خان نے الیکشن کمیشن میں جھوٹا سرٹیفکیٹ جمع کرایا ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی جماعت کیلئے ممنوعہ ذرائع سے رقم حاصل کر رہے ہیں اور جن سے رقم لی جاتی ہے ان میں پاکستان کے دشمن بھی شامل ہیں، عوامی نمائندگی ایکٹ کے سیکشن 12 اے میں واضح ہے کہ ہر امیدوار اثاثے، واجبات اور اکائونٹس ڈیکلئیر کرے گا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت کو وہ ممنوعہ ذرائع بتائے جائیں جن سے پی ٹی آئی فنڈنگ حاصل کرتی ہے۔ اکرم شیخ نے کہا کہ پی ٹی آئی کے حسابات کے مطابق گزشتہ 6 ماہ میں 83 ہزار ڈالر کی فنڈنگ ہوئی جبکہ پاکستان 90 ہزار ڈالر بھجوائے گئے۔ عدالت نے مزید استفسار کیا کہ پی ٹی آئی کو کل فنڈنگ کتنی ہوئی تو فاضل وکیل نے بتایا کہ ریکارڈ کے مطابق تحریک انصاف کو 3 لاکھ 50 ہزار ڈالر کی فنڈنگ ہوئی۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ آپ کو کمپنی ٹرانزیکشن کا ریکارڈ پیش کرنا ہو گا۔ اکرم شیخ نے کہا کہ اس سلسلہ میں عمران خان کا تحریر شدہ معاہدہ پیش کر سکتا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی تک آپ نے یہ کیس بنایا ہے کہ عمران خان کا پارٹی فنڈنگ سے متعلق سرٹیفکیٹ حقائق پر مبنی نہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اگر عمران خان نے 2003 میں فلیٹ فروخت کر دیا تھا تو کیا نیازی سروسز غیر فعال ہو چکی ہے۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ اگر انہوں نے برطانیہ میں ٹیکس بچایا تو برطانوی قوانین کی خلاف ورزی کی، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بتائیں کہ کن شقوں کے تحت بیرون ملک جائیداد کو ٹیکس ریٹرن میں داخل کرانا ضروری تھا اور کیا نان ریذیڈنٹس کے لیے یہ ضروری تھا تو اکرم شیخ نے کہا کہ جب عمران خان فائلر بنے تو اس وقت نان ریذیڈنٹس نہیں تھے، اکرم شیخ نے مزید کہا کہ میں ٹیکس قوانین میں ماہر نہیں ہوں میں کسی عقلمند آدمی سے پوچھ کر ٹیکس شقوں کے بارے میں وضاحت کروں گا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ متعلقہ دستاویزات دکھائیں کہ عمران خان نے ٹیکس ریٹرن اور ای سی پی گوشواروں میں آف شور کمپنی ظاہر نہیں کی،کیا آپ کے پاس عمران خان کے ٹیکس ریٹرن کے دستاویزات ہیں، دوران سماعت اکرم شیخ اور چیف جسٹس کے درمیان خوشگوار جملوں کا تبا دلہ بھی ہوا، اکرم شیخ نے کہا کہ مجھے اجازت دیں کہ میری ایسوسی ایٹ متعلقہ کاغذ نکال کر دے دے میں آپ کی خفگی سے بچنے کیلئے اجازت مانگ رہا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا میں خفا ہوتا ہوں۔ اکرم شیخ نے کہا کہ چیف جسٹس بننے کے بعد آپ خفا نہیں ہوتے۔ ا کرم شیخ کے جواب پر چیف جسٹس مسکرا دیئے۔ بی بی سی کے مطابق سپریم کورٹ نے کہا ہے کسی سیاسی جماعت کی جانب سے غیر قانونی طریقے سے فنڈز اکٹھا کرنے کے معاملے کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ سپریم کورٹ نے اکرم شیخ سے عمران خان کے ٹیکس گوشواروں کے دستاویزی ثبوت مانگ لئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا وہ قانون بتائیں کہ بیرون ملک رہنے والا شخص اثاثے بتانے کا پابند ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عمران خان کے ٹیکس گوشواروں کے دستاویزی ثبوت دیں، اکرم شیخ نے کہا کہ ان کے پاس عمران خان کے ٹیکس ریٹرن کی دستاویزات نہیں ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کی حدود میں خیالات کے اظہار سے گریز کر یں ، باہر جا کر جو مرضی کریں‘ سماعت سے متعلق وکلاء چاہیں تو بات کرلیں۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ میڈیا رپورٹنگ کے لئے آزاد ہے۔ فریقین اپنے خیالات کے لئے عدالتی کارروائی کو استعمال نہ کریں۔ ججز اور عدلیہ کی تضحیک نہیں ہونی چاہئے۔ عدالتی کارروائی کو پنڈولم کی طرح استعمال نہ کیا جائے۔ سیاستدان کارروائی کو اپنی تشہیر کے لئے استعمال نہ کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کیا پاکستان میں رہائش نہ رکھنے والے جائیداد ظاہر کرنے کے پابند ہیں۔ جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ نااہلی کے لئے سپریم کورٹ کا فورم کیوں استعمال کیا جا رہا ہے۔ اکرم شیخ نے کہاکہ عمران خان ملک دشمنوں سے فنڈنگ لیتے ہیں۔ جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ عمران خان کے پاس ایم این اے کے سوا پارلیمنٹ میں کوئی عہدہ نہیں نااہلی کے لئے صرف عمران خان کو ہی کیوں چنا گیا۔ جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ دستاویزات میں اب تک ایسا کچھ سامنے نہیں آیا۔ اکرم شیخ نے کہاکہ محدود وسائل میں ویب سائیٹ سے جو مواد ملا وہ عدالت کے سامنے پیش کر دیا۔ دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمشن کو عمران خان کے خلاف کارروائی روکنے کا حکم دیا ہے۔ الیکشن کمشن کے ضابطہ اخلاق کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت جسٹس عامر فاروق کی عدالت میں ہوئی۔ عمران کے وکیل نے موقف اختیار کیا الیکشن کمشن نے مختلف انتخابی مہمات کے دوران جو نوٹیفکیشن جاری کئے ہیں انہیں کالعدم قرار دیا جائے کیونکہ نوٹیفکیشن کے تحت ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کو الیکشن کے دوران انتخابی حلقے اور پولنگ سٹیشنز پر جانے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ جلسے‘ جلوس سیاسی جماعتوں کا حق ہے۔ جسٹس عامر فاروق نے الیکشن کمشن کو عمران خان کے خلاف کارروائی روکنے کا حکم دیتے ہوئے اٹارنی جنرل کو معاونت کے لئے نوٹس جاری کردیا۔ جسٹس عامر فاروق نے عمران خان کے وکیل سے استفسار کیا، کیا الیکشن کمشن کی جانب سے ضابطہ اخلاق الیکشن کے بعد جاری کیا جاتا ہے۔ بعد ازاں عدالت نے الیکشن کمشن سے جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت پندرہ مئی تک ملتوی کردی اور تینوں نوٹیفکیشن معطل کردیئے۔