’’دو سے چار‘‘

May 05, 2020

عالمی بینک اور آئی ایم ایف کی رواں اورآئندہ مالی سال2020-21کے لئے جی ڈی پی کی گروتھ کی پروجیکشن پر گذشتہ کالم میں بات کی تھی اب اس کی بنیاد پر اگر جولائی تا جون2021ء کے بارے میں کوئی اندازہ قائم کیا جائے تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ آئندہ کا مالی سال بہت ہی مشکلات کا حامل ہو گا جس کے سیاسی مضمرات بھی ہوں گے ،کرونا ہزاروں افراد کو بیمار کر چکا ہے اور یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ،وزیر اعظم نے فرمایا ہے کہ کچھ پتہ نہیںکہ6ماہ یا ایک سال ایسے ہی چلتا رہے ہمیں اس کے ساتھ ہی جینا اور کام کرنا سیکھنا ہوگا ،اصولی طور پر یہ درست بھی ہے ،جب کرونا ووہان میں پیدا ہوا اور اس کی وجہ سے چائنیز مر رہے تھے اور ایسی ہی اطلاعات اٹلی اور ایران سے بھی آنا شروع ہو چکی تھی ،اس کا مطلب تھا کہ کرونا کسی سرحد کاقیدی نہیں ،پنجھی،پون اور دریا کی طرح اسے بھی کوئی سرحد نہیں روک سکتی تو ہم نے سوائے ہاتھ پر ہاتھ دھرے رکھنے کے کچھ نہ کیا ،آڑھائی ماہ کے بعد جب کرونا کا پہلامریض کنفرم ہوا تو بہت دیر ہو چکی تھی،چند الفاظ میں یہ کہانی ختم نہیں ہو گئی ،اس کی پرتیں جلد کھلنا شروع ہو ں گی ،نئے موڑ آئیں گے جس کے سنگ میل اب نظر آ رہے ہیں ،رواں اور آئندہ کا مالی سال جو مالی بوجھ اور مسائل پیدا
کرئے گا اس سے نمٹنے کے لئے آہنی عصاب اور قابل عمل معاشی اور سیاسی حکمت عملی کی ضرورت ہو گی ،خاک نشین جو کہہ رہا ہے اس کو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے ،عریاں الفاظ میں نہ کبھی بات کی ہے اور نہ ہو سکتی ہے ،صحافت پہلے ہی سخت دبائو کا شکار ہے ،سوٹ پہنے ہوئے تھیوری فروشوں کی بات نہیں کر رہا ، کیوں کہ نہ الفاط ان کے اپنے ہوتے ہیں اور اور نہ خیال،لکھے ہوئے مسودے طوطے کی طرح دہراتے چلے جاتے ہیں ، صحافیوں کی بھاری اکژیت سفید پوش اور رزق حلال پر گزارہ کرتی ہے ،اب ان پر جو بیت رہی ہے اس کا ذکر تو میڈیا پر ہوتا رہتا ہے ، گزارش صرف یہ کرنا ہے کہ سکرپٹ رائیٹرز کو بھی جان لینا چاہئے کہ ملک مشکل میں ہے،پاور گیم کو کچھ عرصے کے لئے ملتوی کردیں اور ملک کی آبادی جو حقیقی معنوں میں غریب ہے، اسے چین کاسانس آنے دیں ،18ویں ترمیم یا اس جیسی دوسری باتوں کے پنڈورہ بوکس کو نہ ہی کھولا جائے ،ا اس سے ان کو کوئی فائدہ نہیںہونے والا ہے،معاشی اور سیاسی حکمت عملی کی ضرورت اس وجہ سے ذیادہ ہو چکی ہے کہ اپریل میں جو ایف بی آر ریونیو کے اعداد وشما بیان کئے گئے ہیں ان کو دیکھنے کے بعد اقتدار کے ایوان میں کھلبلی پیدا ہو جانا چاہئے،بظاہرنظر نہیں آیا مگرممکن ہے کچھ پیشانیاں عرق آلود ہوئی بھی ہوں،5550 ارب کی امید سے مالی سال شروع کیا جاتا ہے،آئی ایم ایف کے ساتھ قرضہ پروگرام میں 5550 کے پتھر کو چوم کر چھوڑ دیا جاتا ہے اور اسے5200ارب پر لایا جاتا ہے ،کاروباری طبقہ سے تنازعہ کے ساتھ مالی سال کا آغاز ہوتا ہے، جو دسمبر تک چلتا ہے ،مالی سال کے یہی وہ چھ ماہ ہیں جن کا خمیازہ اب بھگتنا پڑ رہا ہے ،معیشت کو تو چلنے ہی نہیں دیا گیا،ان چھ یا سات ماہ میں جو رسہ کشی ہوئی جس کی وجہ سے ہر ماہ ریونیو کا شارٹ فال بڑھتا ہی گیا ،خدا ،خدا کر کے تنازعہ حل ہوا، مگر شرح سود کے ایشوز،مہنگائی،نت نئے بحرانوں،نام نہاد احتساب نے پہلے سے ہچکولے کھاتی معیشت کو رفتار پکڑنے ہی نہ دی اور پھر ’’کرونا ایج‘‘ میں داخل ہو گئے ،2017-18ء میں ملک کا ریونیو 3700ارب روپے تھا دوسال کے بعد اس مالی سال کے اختتام پر ملک 3908ارب روپے کا ریونیو حاصل کرئے گا ،اس میں سے اگر افراط زر اور گروتھ کاحجم نکال دیا جائے تو ریونیو کی ترقی منفی ذون میں جا چکی ہے ،یہ کوئی مزاق نہیں ہے جس کو ہنس کرٹال دیا جائے یا اس کے لئے جواز گھڑے جائے ،یہ ریاست کابہت ،بہت سنجیدہ معاملہ ہے ،1500ارب روپے کھو دئے گئے ہیں ،کرونا کے کھاتے میںکتنے ڈالیں گے؟مارچ اور اپریل کے دو ماہ میں ایک اندازے کے مطابق کرونا کی وجہ سے 300ارب روپے کا ریونیو نقصان،اس میںمئی اور جون کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ ذیادہ سے زیادہ600روپے بنتا ہے ،یہ درست ہے کہ نقل حمل پر پابندی ،بجلی اور تیل کی کھپت میں کمی،انڈسٹری بند ہونے ،بے
روزگاری کے نْقصانات اس کے علاوہ ہیں جو اس سے کئی گنا زیادہ ہیں، آئندہ سال جب معیشت دو یا اڑھائی فی صد کی شرح ترقی حاصل کرے گی تو بھی اسے معاشی ریکوری نہیں کہا جا سکتا ،سرکار تعمیرات کے شعبے میں بہت ذیادہ سرگرمی کی توقع کر رہی ہے،ایسا ہو سکتا ہے،مگر یہ اتنی ہر گز نہیں ہو گی جو پوری معیشت کاپہیہ گھما کر دو کو چار فی صد پر لے جا سکے ،اسے قسمت کہیں یا کوئی اور نام دیں دو سال میں ملک کو ریورس لگا ہے ،اس سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ اب باقی سارے کھیل بند ہو جائیں اور صرف اور صرف معیشت ،معیشت کھیلا جائے ،میثاق معیشت کی اصطلاح تو سیاست کی نذر ہو چکی ہے ،بے شک کوئی اور نام رکھ کر سب کی حمائت سے ڈاکومینٹ بنا لیا جائے،جس کی پشت میںصنعتی اور کاروباری طبقات موجود ہوں ،بجٹ میں اس کا نکتہ آغاز جی ایس ٹی کی شرح کو10فی صد یا اس سے بھی کم کرکے کیا جائے اور اس کے ری فنڈ پیدا کرنے والے سسٹم کو اب سرے سے ختم کر دینا چاہئے،اس نے مسائل پیدا کرنے کے علاوہ کچھ نہیں دیا ہے ،امید ہے کہ شرح کم ہونے سے مجموعی ریونیو میں کمی کی بجائے اضافہ ہو گا،اس طرح کے چند بڑے ٖفیصلوں سے معیشت مین اتنی تیزی ضرور آئے گی جس سے آگے جانا شروع ہوں گے ،یہ چیز بھی ذہن میں رہے کہ آگے جانا ہی حل ہے، موجودہ منظر میں انقلابی قدم نہ اٹھائے گئے تو آئندہ سال ادائیگی کے توازن کا مسلہ شدت اختیار کر سکتا ہے ،مشیر خزانہ قوم کو بے شک نہ بتائیں حکومت کو تو بتا چکے ہوں گے ۔

مزیدخبریں