کرونا وائرس کے باعث سرِ دست اموات ٹلتی ہوئی نظر آ رہی ہیں نہ ہی اس سے پیدا ہونیوالے خوف کے بادل چھٹتے دکھائی دے رہے ہیں۔اس پر قابو پانے کیلئے ہر ملک تدبیر کر رہا ہے۔ کرونا نے دنیا کے رجحانات کو بھی تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔اس وبا کی تباہ کاریاں اپنی جگہ تاہم فطرت اپنے اصل رنگوں سے ہم آہنگ ہو رہی ہے۔ فضائی آلودگی کم ترین سطح پر پہنچ گئی۔ آب و ہوا میں شفافیت آ گئی۔ آبی حیات انسانوں کے قریب ہونے لگی۔ بستیوں سے دور جانے والے پرندے بڑے شہروں کے اوپر محو پرواز اور چہچہاتے نظر آتے ہیں۔ اوزون کی لہر جو آلودگی کے باعث پھٹ رہی تھی اسکی قدرت کی طرف سے شہرازہ بندی ہو رہی۔ لاک ڈاؤن ہی سے سہی دنیا میں، معاشروں میںعام زندگیوں میں نظم و ضبط آ گیاہے۔ رات دو بجے تک مارکٹیں کھولنے پر بضد تاجر اب دن کے اجالے ہی میں کاروبار کرنے کی درخواستیں کر رہے ہیں۔ کبھی یہ لوگ کاروبار بند کرنے کی دھمکیاں دیتے تھے،اب دکانیں کھولنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ہم جس ڈسپلن میں موت کے خوف سے اور ڈنڈہ دیکھ کر آ گئے کیا برضا و رغبت نہیں آسکتے؟
ایک طرف کرونا کی تباہ کاریاں جاری ہیں دوسری طرف مقامی قومی اور عالمی سطح پر سیاست بھی جاری ہے۔ امریکہ اور چین کا آپس میں ماتھا لگا ہوا ہے۔ کل چین میں جب کرونا سماوی آفت بنا ستم ڈھا رہا تھا۔ چین کی معیشت ڈوب رہی تھی۔ اس کی بر آمدات بند ہو رہی تھیں۔ اموات پر اموات ہو رہی تھیں۔مرض پھیلتا جا رہا تھاتو چین کی طرف امریکہ کو اس وائرس کے پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ کہا گیا امریکی فوجی ووہان میں یہ وائرس لائے تھے۔امریکہ نے سختی سے تردید کی۔ چین نے اس وائرس کو بڑی حکمت سے کنٹرول کیا۔ اور پھر پوری دنیا کرونا کی لپیٹ میں آنے لگی۔اب امریکہ کی طرف سے وہی الزامات چین پر لگائے جا رہے ہیں۔ ٹرمپ گویا ہوئے کہ ان کو ہروانے کیلئے چین نے کرونا بے قابو ہونے دیا۔ امریکہ چین سرد جنگ ہاٹ وار میں تبدیل ہوسکتی ہے اسے تیسری جنگ کا پیش خیمہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اُدھر بھارت کرونا کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ اس نے کرونا کے پھیلاؤ کا سارا ملبہ مسلمانوں پر ڈال دیا۔ پاکستان میں بھی کرونا پر سیاست نظر آئی۔ اپوزیشن حکومت سے عدم تعاون کی پالیسی کے راستے پرگامزن رہی۔سندھ حکومت مرکز کے برعکس کرفیو جیسے سخت لاک ڈاؤن کے نفاذ تک چلی گئی۔ جو مودی کے بلا سوچے سمجھے لاک ڈاؤن کی طرح حماقت ثابت ہوا۔ اُدھر بلاول مرکز کے خلاف صوبوں کو مدد فراہم نہ کرنے کا واویلا کرتے رہے۔ حالانکہ مرکز نے ہر صوبے کو بلا امتیاز امداد فراہم کی، جس کی لسٹ این ڈی ایم اے کی طرف سے جاری ہوچکی ہے۔وزیراطلاعات شبلی فراز کا کہنا ہے کہ سندھ میں احساس پروگرام کے تحت 27ارب روپے تقسیم کئے گئے۔ سندھ میں غریبوں کی امداد پر بھی ہاتھ صاٖف ہونے کی رپوٹس سامنے آتی رہیں۔ سندھ حکومت کی کرونا کنٹرول کرنے میں اس سے زیادہ نالائقی کیا ہوگی کہ ایک ہفتہ قبل سندھ میں متاثرین کی تعدا پنجاب سے سے پندرہ سو کم تھی اب زیادہ ہوچکی ہے۔بہت کچھ نیتوں پر بھی منحصر ہوتا ہے۔نیک نیتی سو وباؤں، مشکلات اوربیماریوں کا مداوہ بن جاتی ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے کرونا کے تدارک کیلئے کئے گئے سخت اقدامات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مشکلات کو کم کرنے کیلئے ریلیف کے سونامی کا اہتمام کر دیا۔ دو ماہ میںپٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا کمی کر دی ایسی کمی ماضی میں کبھی نہیں ہوئی۔دوماہ میں پٹرول تیس روپے مٹی کا تیل 45 روپے کم ہوا۔ کئی سوارب روپے کے فنڈز کا اجرا الگ سے ہوا۔ صدر مسلم لیگ میاں شہباز شریف نے اس حکومتی فیصلے کو مسترد کیا ہے،گویا وہ اور انکی پارٹی اسی روپے کے بجائے پمپ پر فی لیٹر ایک سو سترہ روپے ہی ادا کریں گے۔
کرونا کاسر دست علاج دریافت و دستیاب نہیں ہو سکا ۔احتیاط ہی سے اس وبا سے نجات ممکن ہے۔ عوام حکومت سے تعاون ضرور کر رہے ہیں مگر کچھ لوگ غیر سنجیدہ رویے بھی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ جو کرونا کو سنجیدہ نہیں لے رہے ان کو اپنی فکر شاید نہ ہو وہ دوسروں کیلئے تو عذاب نہ بنیں۔ ایسے رویوں کی سختی سے بیخ کنی کی ضرورت ہے۔ شمالی کوریا میں ایک مریض کو قرنطینہ نے نکلنے پر گولی مار دی گئی۔ الجزائر میں لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی پر 18افراد کو ہلاک کر دیا گیا۔پاکستان میں بھی خدا نہ کرے ایسی نوبت آئے۔ اللہ اقوام عالم ، عالم اسلام ہمارے ، شہروں ، بستیوں اور گھروں کو کرونا سے نجات عطا فرمائے۔