لاہور (سپورٹس رپورٹر+ نمائندہ سپورٹس) پاکستان کرکٹ کی تاریخ میں بڑے میچ فکسنگ سکینڈل کے اہم کردار سابق فاسٹ بائولر عطاء الرحمان نے 20 سال بعد جسٹس قیوم کمیشن کے سامنے بیان بدلنے کی وجوہات بتاتے ہوئے وسیم اکرم، راشد لطیف اور عامر سہیل پر سنگین الزامات عائد کر دئیے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق عطاء الرحمان نے کہا کہ میں نے سابق کپتان وسیم اکرم کے کہنے پر بیان بدلا تھا اور میں اس وقت تک چپ نہیں بیٹھوں گا جب تک وسیم اکرم خود دنیا کو نہیں بتائے گا کہ میں نے عطاء الرحمان کو بیان بدلنے کا کہا تھا، وسیم اکرم کی وجہ سے میرا کیرئیر تباہ ہو گیا، مجھ سے جو بیان حلفی لکھوایا گیا اس میں عامر سہیل اور راشد لطیف بھی شامل تھے جنہوں نے کہا تھا کہ وہ بھی اس پر دستخط کریں گے لیکن بعد میں اسے لیک کر دیا گیا۔ عطاء الرحمان نے کہا کہ یہ سب لوگ کہتے ہیں کہ ہم بہت نیک پارسا اور محب وطن ہیں، پہلے مجھے یہ بتائیں کہ انہیں جب معلوم تھا کہ وسیم اکرم میچ فکسنگ میں ہے، اس کے باوجود بھی ان کی کپتانی میں وسیم اکرم نے جنوبی افریقہ کیخلاف ٹیسٹ میچ کھیلا یا نہیں؟ میڈیا ان سے پوچھے۔ یہ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کو جواء لیگ کہتے تھے اور پھر اسے جوائن بھی کر لیا۔ یہ صرف اپنے مقصد کیلئے کام کرتے ہیں اور وطن کیلئے کچھ بھی نہیں ہے۔ دریں اثناء قومی کرکٹ ٹیم کے سابق ٹیسٹ فاسٹ باولر سرفراز نواز نے وسیم اکرم پر فکسنگ کے الزامات عائد کرتے ہوئے نیا پینڈورا باکس کھول دیا۔ انہوں نے لندن سے اپنے ویڈیو پیغام میں الزام عائد کیا کہ 1999 میں ہونے والے آئی سی سی ورلڈ کپ کے3میچز فکس ہونے کی کہانیاں عام تھیں۔ اس وقت کپتان وسیم اکرم پر پابندی لگادی جاتی تو آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ 71 سالہ سرفراز نواز نے بتا یا کہ ورلڈ کپ 1999 میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے میچ سے پہلے کپتان وسیم اکرم سے سٹیڈیم جا کر ملا تھا، وسیم اکرم کو کہا تھا کہ باتیں ہورہی ہیں کہ پاک بنگلہ میچ فکسڈ کیا گیا ہے، اس موقع پر وسیم اکرم نے جواب دیا تھا کہ میچ فکسڈ نہیں بے فکر رہیں، پاکستان جیتے گا۔ وسیم اکرم کے اعترافی بیان کی آڈیو اور ویڈیو حکومت کے پاس موجود ہیں، اگر وسیم اکرم پر اس وقت پابندی لگادی جاتی تو آج حالات مختلف ہوتے۔ سرفراز نواز کے مطابق انہوں نے جسٹس قیوم کمیشن کے سامنے حقائق رکھے جبکہ جنوبی افریقہ کے علی باقر نے بھی دو میچز فکس قرار دئیے تھے اور میگا ایونٹ کا فائنل بھی فکس تھا۔ اس وقت غلط کاموں میں ملوث کھلاڑیوں کو کڑی سزائیں دے دی جاتیں تو آج کرکٹ کی یہ حالت نہ ہوتی۔ انہوں نے الزام لگایا کہ جوا مافیا پی ایس ایل تک پہنچ گیا ہے۔ اور یہ سب اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ سرفراز نواز نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ وسیم اکرم کے بھائی ندیم اکرم بھی جوئے میں ملوث رہے ہیں۔ علاوہ ازیں1992 عالمی کپ کی فاتح ٹیم کے رکن ٹیسٹ فاسٹ باؤلر عاقب جاوید کا کہنا ہے کہ جسٹس قیوم کمشن کی رپورٹ پر مکمل عملدرآمد ہونا چاہیے تھا۔ پہلے رپورٹ پر عمل نہ کر کے کرکٹ میں کرپشن کا راستہ کھلا رکھا گیا پھر محمد عامر کی قومی ٹیم میں واپسی کے بعد کسی کو روکنے کی کوئی دلیل باقی نہیں رہتی۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہر کوئی دوسرے یا تیسرے اننگز کی بات کرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ مافیا پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا۔ مافیا کے ساتھ مل کر کھلاڑی ایک مرتبہ اپنی مرضی سے کام کرتا ہے پھر ہر مرتبہ ان کی مرضی چلتی ہے جو وہ کہتے ہیں وہی کرنا پڑتا ہے۔ یہ باتیں کبھی ختم نہیں ہو سکتیں۔ ماضی میں اعجاز بٹ نے اسی رپورٹ کی موجودگی میں سلیم ملک کو این سی اے میں اہم ذمہ داری دینے کا فیصلہ کیا لیکن آئی سی سی کی مداخلت پر انہیں اپنا فیصلہ بدلنا پڑا۔ ایک بورڈ وہ تھا ایک بورڈ یہ ہے کہ اسی رپورٹ کی بنیاد پر سلیم ملک پر پابندی عائد کرتا ہے جبکہ یہی بورڈ وسیم اکرم کو نظام میں شامل کرنے کے لیے جسٹس قیوم کمشن رپورٹ کی سفارشات کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ یوں یہ دوہرا معیار ہے۔ ہر آنے والے چیئرمین کا اپنا بورڈ ہوتا ہے وہ اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں کو کام کرنے کے مواقع دیتا ہے۔ اس عمل میں نظام تو کہیں نظر ہی نہیں آتا۔ کیا حکومت دوبارہ نوے کی دہائی کے افسوسناک واقعات پر کارروائی کرے گی یا کرکٹ بورڈ کوئی ایکشن لے سکتا ہے یا پھر نیب حرکت میں آئے گا یا اس اہم مسئلے پر کوئی جے آئی ٹی بنے گی۔ میرا نہیں خیال کہ ایسا کچھ ہو گا اس لیے جب کسی کو موقع ملے گا وہ بیانات دیتا رہے گا۔ سلیم ملک کو اس لیے سزا ہوئی کہ زیادہ لوگوں نے ان کا نام لیا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اس دور کے دیگر کرکٹرز کو ٹیم کے ساتھ یا بورڈ میں کام کرنے کا موقع مل گیا لیکن ایک کھلاڑی کو نہیں ملا۔ بیس سال گذرنے کے بعد سلیم ملک کو دوسری اننگز کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ وسیم اکرم صرف اسی وجہ سے خاموش رہتے ہیں کہ بولیں گے تو مزید مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگر کرکٹ بورڈ قیوم کمشن کی سفارشات پر عمل کرتا تو کم از کم بعد میں آنے والوں کو یہ نظر تو آتا کہ کہیں سزا دینے کی روایت موجود ہے اب نوجوان یہ دیکھتا ہے کہ کچھ بھی کر لو واپسی ہو جائے گی۔ محمد عامر کی واپسی کے بعد تو آپ کسی کو روک ہی نہیں سکتے۔ جسٹس قیوم کھلاڑیوں کو اس سے بھی سخت سزائیں سنا سکتے تھے۔