حکومتوں کی رپورٹس میں کچھ نہیں، اربوں کیسے خرچ ہورہے ہیں: چیف جسٹس

May 05, 2020

اسلام آباد(خصوصی رپورٹر) چیف جسٹس آف پاکستان نے کرونا از خود نوٹس کیس میں حکومتی رپورٹس پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی عمل میں شفافیت نظر نہیں آرہی سمجھ نہیں آرہی ملک میں ہوکیا رہا ہے؟ لگتا ہے سارے کام کاغذوں میں ہی ہورہے ہیں۔ کرونا وائرس ازخود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی چیف جسٹس نے کہا ٹیسٹنگ کٹس اور ای پی پیز پر اربوں روپے خرچ کیے جارہے ہیں، کرونا کے اخرات کا آڈٹ ہوگا تو اصل بات پھر سامنے آئے گی۔ کسی چیز میں شفافیت نہیں۔ ماسک اور گلوز کیلئے کتنے پیسے خرچ کرنے کیلئے چاہیے، اگر تھوک میں خریدیں تودو روپے کا ماسک ملتا ہے۔ ان چیزوں پر اربوں روپے کیسے خرچ ہورہے ہیں؟پتہ نہیں یہ چیزیں کیسے خریدی جا رہی ہیں۔ سارے کام لگتا ہے کاغذوں میں ہی ہو رہے ہیں۔ وفاق اور صوبائی حکومتوں کی رپورٹ میں کچھ بھی نہیں ہے نہیں بتایا گیا کہ ادارے کیا کام کررہے ہیں۔ کیا سیکرٹری صحت نے حاجی کیمپ قرنطینہ کا دورہ کیا گیا ہے جس پر سیکرٹری صحت نے عدالت کو بتایا کہ دورہ کیا تو حاجی کیمپ قرنطینہ غیر فعال تھا۔ ایک کمرے میں پارٹیشن لگا کر چار افراد کو رکھنے کا انتظام کیا گیا تھا اور نل میں پانی بھی آ رہا تھا تاہم اب ضلعی انتظامیہ نے گرلز ہاسٹل میں قرنطینہ سنٹر منتقل کیا، جس میں 48 کمرے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا بنیادی سہولیات کے بغیر پھر حاجی کیمپ میں قرنطینہ کیسے بنایا گیا، حاجی کیمپ قرنطینہ مرکز پر کتنا پیسہ خرچ ہوا؟ عدالتی استفسار پر بتا یا گیا کہ حاجی کیمپ کو قرنطینہ سینٹر بنانے کی ذمہ داری این ڈی ایم کی اسلام آباد انتظامیہ نے صرف خوراک کا انتظام کرنا تھا جس پر چیف جسٹس نے کہا عدالت میں این ڈی ایم اے کی نمائندگی کون کررہا ہے۔ این ڈی ایم اے کی رپورٹ آئی ہے لیکن اس میں کچھ واضح نہیں چیف جسٹس نے کہا پاک چائنہ فرینڈ شپ سنٹر کا حال بھی حاجی کیمپ جیسا ہی ہے۔ پورے ملک میں حالات ابتر ہوتے جا رہے ہیں۔ جن کا روزگار گیا ان سے پوچھیں کیسے گزارا کر رہے، سندھ حکومت کہتی ہے 150 فیکٹریوں کو کام کی اجازت دینگے۔ سمجھ نہیں آتی ایک در خواست پر کیا اجازت دی جائے گی۔ جامع پالیسی بنا کر تمام فیکٹریوں کو کام کی اجازت ملنی چاہیے۔ کراچی میں 50 لاکھ دکانیں ہیں ہر کوئی کام کیلئے الگ الگ درخواست کیسے دے گا؟ اجازت دینے والوں کو پولیس والے تک سب کو ہی کچھ دینا پڑتا ہے۔ ایک دکان کھولنے والے کو نہ جانے کتنے پیسے دینے پڑتے ہونگے، پنجاب کی صورتحال بھی ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ سیکرٹری صحت نے عدالت کو بتایا کہ روزانہ دس ہزار کرونا ٹیسٹ ہو رہے ہیں جن میں روزانہ ایک ہزار کرونا کیسز سامنے آ رہے ہیں۔ کرونا کیسز مثبت آنے کی شرح دس فیصد ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا ایک صوبائی حکومت کا وزیر کہتا ہے کہ وفاقی حکومت اور وزیراعظم کے خلاف مقدمہ درج کرا دینگے۔ پتہ ہے کہ صوبائی وزیر کیا کہہ رہے ہیں۔ یعنی صوبائی وزیر کا دماغ بالکل آؤٹ ہے۔ دماغ پر کیا چیز چڑھ گئی ہے پتہ نہیں، جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا حکومت نے مساجد کھول دی ہیں۔ کسی جگہ پر ریگیولیشنز پر عمل در آمد نہیں ہو رہا۔ حکومت نے مارکیٹس بند کر کے مساجد کھول دیں۔ کیا مساجد سے کرونا وائرس نہیں پھیلے گا ۔90فیصد مساجد میں ریگیولیشنز پر عمل نہیں ہو رہا ہے اگر فاصلہ رکھنا ہے تو سب جگہ پر رکھنا ہوگا۔ پالیسی کدھر ہے؟ بازاروں میں لوگوں کو ڈنڈوں کے ساتھ ماراجا رہا ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا اپنی بساط کے مطابق بہترین اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ پنجاب میں 37صنعتیں کھولی گئی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کیاآپ چاہتے ہیں کہ عدالت سو جائے۔ 37 صنعتیں کھول دیں باقی صنعتوں کے ساتھ کیا مسئلہ ہے جن صنعتوں کو کھولا گیا ہے اس کو کس حوالے سے دوسری صعنتوں سے کیا امتیاز ہے۔ جسٹس قاضی محمد امین نے کہا پنجاب کے حوالے سے جو آپ کاغذ پڑھ رہے ہیں حقیقت اس سے مختلف ہے۔ میں خود پنجاب کا ہوں، مجھے علم ہے پنجاب کی صورتحال کیسی ہے۔ پنجاب میں تو باقاعدہ ایڈووکیٹ جنرل بھی نہیں ہے۔ پنجاب میں کرونا وائرس کی مریضوں کیساتھ اموات بھی بڑھ رہی ہے، مریضوں کی تعداد میں اضافہ الارمنگ ہے ۔ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شان گل نے کہا مساجد میں سماجی فاصلہ رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ وفاقی سیکرٹری نے کہا وفاقی حکومت نے پالیسی بنائی جس پر چیف جسٹس نے کہا وفاقی حکومت کی پالیسی صرف اسلام آباد کے 25 کلومیٹر تک ہی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا جن معاملات میں وفاقی حکومت ٹیکس لیتی ہے انہیں صوبائی حکومت کیسے بند کر سکتی ہے۔ کاروباری سرگرمیاں بند کرنے کا اختیار وفاقی حکومت کا اختیار ہے لیکن صوبوں نے کاروبار بند کرنے کے احکامات دے رکھے ہیں۔ وفاقی معاملات کے حوالے سے شیڈول 4 کو دیکھ لیں۔ امپورٹ، ایکسپورٹ، لمیٹڈکمپنیز، ھائی ویز اور ٹیکس کے معاملات وفاقی ہیں۔ صوبائی حکومت وفاق کے معاملات پر اثر انداز نہیں ہو سکتیں۔ کام کچھ نہیں کیا لیکن ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں۔ وفاقی حکومت کے ریونیو کا رستہ صوبائی حکومتیں کیسے بند کرسکتی ہیں، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا صوبائی حکومت نے جو اقدامات اٹھائے ہیں وفاق سے تصدیق ضروری ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا سندھ حکومت نے لاک ڈاون کا فیصلہ 2014 کے قانون کے تحت کیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا وفاقی حکومت اور صوبوں کے درمیان تعاون نہ ہونے کی وجہ غرور اور انا ہے۔ ایک ہفتے کا وقت دیتے ہیں کرونا کے حوالے سے یکساں پالیسی بنائی جائے، یکساں پالیسی نہ بنی تو عبوری حکم جاری کریں گے۔ ہم عدالت میں شفافیت کی بات کررہے ہیں، بظاہر لگتا ہے کہ تمام ایگزیکٹیو ناکام ہوگئے۔ کسی کو احساس نہیں حکومتیں ایک ساتھ بیٹھیں بات کریں،کون ہے جو بات کرنے کو تیار نہیں، صوبوں کے درمیان بھی تعاون کا آغاز ہونا چاہیے۔ مسافر ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں سفر کرنے کے لیے مال بردار ٹرک میں سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ سفری پابندیوں کی وجہ سے مسافروں سے جہاز کے ٹکٹ کے برابر کرایہ وصول کیا جا رہا ہے۔ ہم آہنگی فقدان کی وجہ وفاق میں بیٹھے لوگوں کا ذاتی عناد ہے حکومت تو ہر کام منصوبہ بندی کے ساتھ کرتی ہے لیکن اس معاملے کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آ رہی، کرونا کے روک تھام سے متعلق اقدامات میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی ہو رہی ہے۔ ہمارا گزشتہ حکم شفافیت سے متعلق تھا اس کو نظر انداز کیا گیا۔ ایک اچھے اور وزینری لیڈر شپ کا فقدان ہے۔ وفاق میں بیٹھے لوگوں کا رویہ متکبرانہ نظر آرہا ہے۔ اس رویے سے وفاق کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ کیا وفاق میں بیٹھے لوگوں کو ایسی زبان استعمال کرنی چاہیئے۔اگر کوئی پالیس ہے تو دکھائیں ہم سیلاب اور زلزلے سے نکل آئے، اس مسئلے سے بھی نکل آئیں گے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا آدھا ملک ہم نے گنوا دیا اور باقی ملک کے حصوں میں بھی آگ لگی ہوئی ہے۔ اٹارنی جنرل پاکستان نے کہا وفاقی حکومت چاہتی ہے معاملات افہام و تفہیم سے حل ہوں چاہتے ہیں معاملہ اس حد تک نہ جائے کہ عدالت کو مداخلت کرنی پڑے۔ اٹارنی جنرل آج کل ٹی وی دیکھیں تو لگتا ہے ملک میں سیاسی جنگ چل رہی ہے۔ سیاسی معاملات بہتر ہوگا عدالت سیاستدانوں کو ہی حل کرنے دے، وفاق کے اختیارات پر بات کرنے کیلئے پارلیمنٹ بہترین فورم ہے۔ کسی سیاسی معاملے میں نہیں پڑینگے، جسٹس قاضی محمد امین نے کہا کیا شہریوں کی اموات پر سوال پوچھنا ہماری آئنی ذمہ داری نہیں؟ باہر کون کیا کہتا ہے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں، جس مقام پر پہنچ چکے ہیں اب اسے آگے کی کوئی خواہش نہیں لیکن کرونا ہاتھوں سے نکل رہا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہاکرونا وائرس سے وقت اپنی پیک پر ہے، کرونا سے متعلقہ سہولیات کی کوئی کمی نہیں، چیف جسٹس نے کہا جس قیمت پر عوام کو سہولیات مل رہی ہیں وہ بھی دیکھیں، سفید پوش افراد راشن کیلئے لائن میں نہیں لگتے، صوبائی حکومتیں پیسے مانگ رہی ہیں، اگر وفاق کے پاس فنڈز ہیں تو اسے دینے چاہیں، صدر مملکت اور وزیراعظم کے ارادے نیک ہوں گے، لیکن کچھ ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا، جن شعبوں کو کھولا گیا ان کا عوام کو کیا فائدہ ہوا، اٹارنی جنرل نے کہا چھوٹی تجارتی سرگرمیوں کو بھی کھولنے پر غور کیا جائے گا، این سی سی 9 مئی کے اجلاس میں حتمی فیصلے ہوں گے، ریلوے کو کھولنے کے شیڈول پر بھی غور ہورہا ہے، پہلے ایک مرتبہ ریلوے کو کھولا گیا تو لوگ کھڑکیوں اور چھتوں سے ٹرین میں داخل ہوئے تھے۔ چیف جسٹس نے کہا پی آئی اے ہزاروں ڈالر ٹکٹ کا کرایہ لیتا ہے ایک سیٹ پی آئی اے کے جہاز میں سوشل ڈسٹنسنگ کے لیے ایک سیٹ بھی خالی نہیں چھوڑی جاتی، چیف جسٹس نے کہاکام کرنا ہے تو نیک نیتی اور شفافیت سے کریں، پولیس کو شہریوں سے بدتمیزی کی اجازت نہ دی جائے، لاہور قرنطینہ سے پیسے لیے بغیر کسی کو جانے نہیں دیا جاتا، جو ہسپتال جاتا ہے وہ واپس نہیں آ سکتا۔ ہسپتال سے لاش وصول کرنے کیلئے بھی پیسے دینے پڑتے ہیں، کرپشن کس حد تک جڑوں میں بیٹھ چکی ہے، نیب، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن کیا کر رہے ہیں؟ احتساب کا ایک اور ادارہ بنایا تو کرپشن کی رفتار مزید تیز ہوجائے گی، راشی لوگ شرافت کے لبادے میں نہ جانے کیا کچھ کر رہے ہیں، ایسے لوگوں میں انسانیت ختم ہوگئی صرف گوشت کا ٹکڑا رہ گیا، کیا گندم غائب کرنے والے انسان کہلانے جا سکتے ہیں؟ ابھی کسی کرپٹ بندے کو عدالت بلائیں دیکھیے گا کیسے جھوٹ بولے گا، جو ذکواۃ اور صدقے کا پیسہ کھا جائیں ان سے کیا توقع رکھیں گے، آڈیٹر جنرل کے مطابق ذکوٰۃ اور بیت المال کا پیسہ کرپشن کی نظر ہوگیابیت المال کے فنڈ میں کرپشن یا غبن نہیں ہوئی آڈٹ حکام نے 54 اعتراضات عائد کیے تھے 48 کے جواب آ گئے چیف جسٹس نے کہاجو ریکوری ہوئی کیا یہ کرپشن نہیں تھی؟ اٹارنی جنرل نے کہا مریض کیلئے مختص جو پیسے استعمال نہیں ہوئے وہ ریکوری میں ڈالے گئے، چیف جسٹس نے کہا صوبوں کو چاہیے کے زکوۃ تقسیم میں شفافیت کے لیے نظام بنائیں،زکوٰۃ صدقہ صاف شفاف انداز میں نہ ملے تو کیا ہوگا، اگر صدقات اور زکوٰۃ کا پیسہ کھا جائیں گے تو پیچھے کیا رہ جائے گا، جسٹس سجا دعلی شاہ نے کہا زکوٰۃ کے پیسے سے جہاز کے ٹکٹ خریدے جاتے ہیں، زکوٰۃ کے پیسے سے بڑی بڑی گاڑیاں خریدی جاتی ہیں، چیف جسٹس نے کہاچیرمین اسلامی نظریاتی کونسل نے خود رائے دینے کی تکلیف نہیں کی نظریاتی کونسل کی رائے پر چیرمین کے دستخط نہیں ہیں، ماتحت عملے کی جانب سے رائے بھجوا دی گئی جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا مولانا تقی عثمانی کی رائے میں زکوۃ کے پیسے پر 12.5 فیصد اخراجات ہوسکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا اسلامی نظریاتی کونسل نے تو اخراجات کے حوالے سے کوئی حد نہیں دی جسٹس قاضی محمد امین نے کہا ملک میں ڈی سی موجود ہیں پھر زکوۃ تقسیم کے لیے پھر لوکل سطح پر کمیٹیوں کی کیا ضرورت ہے، زکوٰۃ کا پیسہ بنک کے ذریعے دیا جا سکتا ہے، ضلعو ں میں نیک سیاسی اتحادیوں کو کمٹیوں کو چیر مین بنا کر گاڑیاں دے دی جاتی ہیں ایڈوکیٹ جنرل خیبرپی کے کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا خیبرپی کیمیں صورتحال اچھی نہیں خیبرپی کے میں اموات میں اضافہ ہورہا ہے، جسٹس سجاد علی شاہ نے کہاکیا خیبرپی کے میں میڈیکل کلینک کھل گئے، خیبرپی کے میں پولیس کی جانب سے میڈیکل شعبہ کے لوگوں پر تشدد کیا گیا،کیا خیبرپی کے پولیس بے مہار ہے، ڈاکٹر ہوٹلوں میں جاکر مریضوں کا معائنہ کررہے ہیں، جس پر ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے نے کہا کہ جو کلینک ایس او پی پر عمل نہیں کریں گے وہ نہیں کھلیں گے، جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ کنسلٹنٹ کے ساتھ پولیس نے بدسلوکی کی، ڈاکٹر کو کنسلٹنٹ بننے کے لیے 20 سال لگتے ہیں، لیکن ایک حوالدار جا کر بد تمیزی کر تا ہے پولیس کو لائسنس دے دیا گیا جس کی مرضی گردن پکڑ لیں، خیبرپی کے واحد صوبہ ہے جہاں ڈاکٹرز پر تشدد کر کے لہو لہان کیا گیاکیا سیکریٹری صحت نے بتایا کہ وہ ڈاکٹر نہیں ہیں، جس پر جسٹس سجا د علی شاہ نے کہا کہ ڈبگری گارڈن کے ہسپتال بند پڑے ہیں سیکریٹری صحت وہاں اگر پابندی نہیں تو ہسپتال کیوں بند ہیں۔ عدالت نے اپنے حکم میں قرا ر دیا کہ اب تک کتنا سامان خریدا گیا۔کیسے تقسیم ہوا،این ڈی ایم اے تمام تفصیل فراہم کرے سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں عدالت کی حکومت کو کرونا سے متعلق یکساں پالیسی بنانے کی ہدایت کرتے ہوے امید کرتے ہیں کرونا وائرس سے متعلقہ تمام شعبہ کے لیے یکساں پالیسی بنائیں اس کے لئے تمام سٹیک ہولڈرز کیساتھ مشاورت کی جاے عدالت نے حاجی کیمپ کو عدم سہولیات پر قرنطینہ مرکز بنانے اوراس پر آنے والے اخرا جات کی تفصیلات بھی طلب کیں سپریم کورٹ نے پشاور میں تمام کلینک ایس او پیز کے مطابق کھولنے کا حکم بھی دیا۔ عدالت نے وفاقی معاملات پر صوبائی حکومتوں کی مداخلت پر وفاق اور صوبوں سے دلائل طلب کرتے ہوئے قرار دیا کہ آئندہ سماعت پر دلائل سن کر فیصلہ کرینگے، کہ ذکوۃ اور بیت المال فنڈز میں مبینہ کرپشن سے متعلق کیس نیب کو دینا ہے یا ایف آئی اے کو بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت دو ہفتوں کیلئے ملتوی کردی۔

مزیدخبریں