اب آہستہ آہستہ لوگوں کو یقین ہونے لگا ہے کہ کرونا وائرس کے پیچھے کوئی خوفناک سازش کارفرما تھی، اس لئے اب ڈرے سہمے لوگوں کی زبانیں بھی کھلتی نظر آرہی ہیں پھر بھی جن سرپھروں کے دلوںمیں ’’سائنس‘‘ کا سودا سمایا ہوا ہے، وہ آج بھی اس کائنات میں ہونے والے ہر الٹ پھیر کو سائنس کے کھاتے میں ہی ڈالتے ہیں۔ میں جب کرونا وائرس کو رب کائنات کی جانب سے اس کی مخلوق انسانوں کیلئے آزمائش اور کتاب ہدایت قرآن مجید میں کھول کر بیان کی گئی عذاب الٰہی کی نشانیوں کی نبیاد پر اسے عذاب الٰہی سے تعبیر کرتا ہوں تو میرے روشن خیال دوست اسے میری فرسودہ سوچ سے تعبیر کرکے میری بھد اُڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ میرے کچھ دوستوں پر تو سائنس کا بھوت سوار ہے، چنانچہ کرونا وائرس سے نجات کیلئے انہیں رجوع الی اللہ کی بات ہضم ہی نہیں ہو پاتی۔ اسی بنیاد پر میری ایک روشن خیال دوست سے تکرار بھی ہوگئی جو ہر معاملہ میں سائنس کا تڑکا لگانے اور سائنس سے رجوع کرنے کو ہی دنیا کی بقاء کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ میں نے اس سے اس کے ذہنی مائنڈسیٹ کی روشنی میں ہی چھیڑخانی کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کیا آپ کرونا وائرس کو سائنس کی ہی ایجاد سمجھتے ہیں، اس نے کھٹ سے جواب دیا جی بالکل۔ پھر تو آپ کو کرونا وائرس کے پھیلائو کے حوالے سے امریکہ پر عائد ہونے والے الزامات کو درست تسلیم کرلینا چاہئے کہ اس نے سپرپاور کیلئے چین کو اپنے مدمقابل آنے سے روکنے کیلئے اس پر کرونا وائرس کی شکل میں حیاتیاتی حملہ کیا جو اُلٹا اس کے ہی گلے پڑ گیا۔ اس حوالے سے اب تک جتنی بھی تھیوریاں سامنے آئی ہیں، آپ انہیں درست مان لیں کہ امریکہ نے اپنی جدید سائنسی ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر ہی یہ کارستانی کی ہے۔
بھئی اب تو اس معاملہ میں امریکہ اور چین کے مابین دوطرفہ الزامات کی جنگ چھڑی ہوئی ہے اور دونوں ممالک کے ’’سیانے‘‘ کرونا کی ایجاد اور اس کے پھیلائو کا الزام ایک دوسرے پر تھوپنے کیلئے دور کی کوڑیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر لا رہے ہیں پھر تو آپ کے فلسفۂ سائنس کی ہی فتح ہوئی مگر میرے اس دوست کو اس حوالے سے سائنس کی فتح بھی گوارا نہیں ہوئی اور اُلٹا مجھے ہی فرسودہ سوچ کا حامل گردان کر مجھے کوسنا شروع کر دیا، گویا جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی۔
میں نے یہ بحث کرونا وائرس کے حوالے سے اصل موضوع کی جانب آنے کیلئے ہی چھیڑی تھی اور اس موضوع سے تو ہمارے روشن خیالوں کو چڑ ہے ،اس لئے مجھے یقین ہے کہ اس موضوع پر بھی مجھے دقیانوسی سوچ کا حامل ٹھہرایا جائے گا مگر بھائی صاحب! اب تو پاکستان کے علاوہ امریکہ اور چین کے مستند ڈاکٹر بھی یہ گواہی دے رہے ہیں کہ کرونا وائرس کا خوف ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دنیا میں پھیلایا گیا ہے جس کا مقصد انسانوں کو ڈرا ڈرا کر اپنا سودا بیچنے کا تھا ورنہ کرونا کا وائرس اتنا ہی انسانی صحت کو نقصان پہنچاتا ہے جتنا نمونیا اور فلو کے عام وائرس سے انسانی صحت متاثر ہوتی ہے جس کا دستیاب ادویات سے علاج معالجہ بھی ہو جاتا ہے۔ منصوبہ سازوں نے بس اپنی ویکسین کا سودا بیچنے کیلئے انسانی سماجی فاصلے والے احتیاطی اقدامات کا اتنا پراپیگنڈا کیا کہ پوری دنیا لاک ڈائون ہوگئی۔ اس کے ہمارے ملک کی معیشت پر جو برے اثرات مرتب ہوئے اور جو ابھی مرتب ہونے ہیں، اس کا اظہار آپ منصوبہ بندی کے وفاقی وزیر اسد عمر کی پریس کانفرنس میں ان کی زبانی سن چکے ہوں گے۔ وہ اسی لاک ڈائون کے حوالے سے یہ تلخ حقیقت بیان کر رہے تھے کہ لاک ڈائون کے باعث ہمارے ملک میں ایک کروڑ 80لاکھ افراد بیروزگار اور 10لاکھ ادارے بند ہو جائیں گے۔ آپ لاک ڈائون میں جکڑے امریکی، برطانوی، فرانسیسی اور اٹالین عوام کے بھی لاک ڈائون کے خلاف مظاہروں اور کرونا وائرس کے پھیلائے گئے خوف کے حوالے سے ان کے جذبات کے اظہار کا سوشل میڈیا پر یقینا مشاہدہ کر رہے ہوں گے اور یہ حقیقت ہے جو مابعد کرونا کی دنیا میں کھل کر سامنے آجائے گی کہ دنیا میں اتنے لوگ کرونا کے عارضہ سے نہیں مرے جتنے اس کے خوف سے بلڈپریشر اور شوگر لیول ہائی ہونے سے ہارٹ اٹیک کے باعث مرے ہیں اور پھر کرونا کے چمٹ جانے کے خوف ہی کے باعث اکثر مریض ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی جانب سے علاج معالجہ اور دیکھ بھال میں عدم توجہی کے باعث جان سے گئے۔ حد تو یہ ہے کہ روٹین کے عارضہ قلب، شوگر، ٹی بی اور کینسر کے مریضوں کو بھی کرونا کے مریضوں کے کھاتے میں ڈال کران کے ساتھ معمول کے علاج معالجہ میں بے اعتنائی روا رکھی گئی جو ان کی موت کا باعث بنی۔ کئی لوگ تو پازیٹو رپورٹ آنے کے ناطے بیٹھے بٹھائے کرونا کے مریض بنا دیئے گئے جن میں سے کچھ خوف سے اور کچھ بے اعتنائی والے رویوں سے عاجز آکر اگلے جہان سدھار گئے۔ اس حوالے سے پاکستان کے ایک ڈاکٹر مشرف اور ورجینیا امریکہ کی ایک خاتون ڈاکٹر کی ہسپتالوں میں اپنے مشاہدات پر مبنی ویڈیوز تو وائرل ہوچکی ہیں جن میں انہوں نے کرونا وائرس کا خوف پیدا کرکے انسانوں کو بے موت مارنے کی منصوبہ بندی ہی بے نقاب کی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ آپ کرونا کا پھیلائو روکنے کیلئے احتیاطی اقدامات سے مکمل غافل ہو جائیں۔ ہم عام فلو کا وائرس روکنے کے بھی تو احتیاطی اقدامات اٹھاتے ہیں، بس ویسی ہی احتیاط کرونا وائرس کے معاملہ میں بھی کرلیں مگر انسانوں کیلئے تحقیر کا باعث بننے اور شرف انسانیت کی بھد اُڑانے والی احتیاط سے اب رجوع کرلیجئے۔ بہت ہوچکا۔ جنہوں نے اپنا سودا بیچنا تھا، انہوں نے اس کی راہ ہموار کرلی ہے۔ آپ لاک ڈائون ہو کر بیٹھے رہیں گے توبھوک کے راج والے ہولناک اقتصادی بحرانوں کو دعوت دے کر اپنا حال اور مستقبل دونوں خراب کریں گے۔
اور بھوک ایسا روگ ہے جو انسانی قدریں تک ملیامیٹ کر دیتا ہے۔
مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہے
بھوک اطوار کے سانچے میں نہیں ڈھل سکتی
آپ خود کو خوف سے باہر نکالیں ،اپنے تئیں احتیاطی اقدامات جاری رکھیں اور زندگی کے معمولات کی جانب واپس لوٹ آئیں ورنہ آدھی دنیا خوف سے مر جائے گی اور باقی بھوک سے۔
بھوک بڑھنا ہی بغاوت کا سبب ہے آسی
یہ روایت میری سرکار نہ ڈالی جائے
٭…٭…٭