لیکجزبھرنا: ڈیری ویلیوچین کی اصلاح

لیکجزبھرنا: ڈیری ویلیوچین کی اصلاح

تحریر: عمارحبیب خان

پاکستان میں سالانہ59.7اربٹنسےزیادہ دودھ پیدا ہوتا ہے جس کا مطلب ہے کہ دودھ کی مارکیٹ کا سالانہ معاشی حجم 34 ارب امریکی ڈالر سے زیادہ ہے۔ اس کا زیادہ تر حصہ غیر رسمی معیشت پر مشتمل ہے۔ پیکیجڈ دودھ ملک میں دودھ کی کھپت کا صرف 9 فیصد ہے۔ کھلے دودھ میں نہ صرفملاوٹ کے خدشات لاحق ہوتے ہیں بلکہ اس میں ضروری غذائیت کی کمی ہوتی ہے جس کی کسی خالص دودھ سے توقع کی جاسکتی ہے۔

دنیا میں دودھ کی بڑی پیداواروالے ممالک میں شامل ہونے کے باوجود یہاں غذائی قلت کا بحران ہے۔ یہ مسئلہ پیداوار کا نہیں بلکہڈسٹری بیوشن کا مسئلہ ہے۔ مارکیٹ میں 90 فیصد سے زائد کیلئے معیاری دودھ کی عدم دستیابی، صنعت کی بکھری ہوئی نوعیت، اور کاروبار کی بھاری لاگت کے باعث قابل خرید دودھ کی دستیابی کو یقینی بنانا ممکن نہیں ہے۔ غذا میں کیلوریز کی قلت کے زیادہ سنگین سماجی و معاشرتیاثرات مرتب ہوتے ہیں جو کسی بھی قلیل مدتی ٹیکس محصولات کے نقصان سے کہیں زیادہ ہیں۔

دودھ کا ضیاع بھی ایک نہ ختم ہونے والا مسئلہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تقریبا 20 فیصدکھلا دودھفریج اسٹوریج اور ڈسٹری بیوشن کی سہولیاتکے فقدان کی وجہ سے 9.6 ملین ٹن دودھ ضائع ہو جاتا ہے۔اگر یہ ضیاع نہ ہو تو روزانہ کی بنیاد پر تین کروڑ اسی لاکھ سے زائد بچوں کو ضروریغذائیتپوری ہو سکتی ہے۔ دودھ کے ضیاع کا سدباب کیا جائے تو ریٹیل پرائسمیں کمی لائی جا سکتی ہے۔ محض اس لیکج کے خاتمے سے بڑے پیمانے پر سماجی و معاشرتی فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق ملک میں فروخت ہونے والےکھلے دودھ کا تقریباایک چوتھائی حصہ انسانی استعمال کے لئے موزوں نہیں ہے جس سے اس بات کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کہ بنیادی سطح پر دودھ کے معیار کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کیے جائیں اور ایسا پاسورائزیشن قانون کے ذریعے ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ تاہم کیونکہ دودھ کی صنعت غیرمنظم ہے اور اس سے وابستہ تقریبا ستر فیصد لوگوں کے پاس دو سے تین مویشی ہوتے ہیں۔ لہذا اتنے بڑے پیمانے پر پاسورائزیشن کے اطلاق کیلئے ملک بھر میں دیہی و شہری سطح پر کوآپریٹوز کا قیام درکار ہو گا۔ اس طرح کے کوآپریٹیو کے زریعے پاسورائزیشن کیلئے انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کرنا ممکن ہوگا۔ اس طرح کی مداخلت کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور اسکے نتیجے میں کسانوں کی آمدنی اور غذائیت میں بہتری آئے گی۔

جہاں تک سپلائ کا معاملہ ہے اگر دیگر ترقی پزیر یا ترقی یافتہ ممالک کو دیکھا جاۓ تو پاکستان میں بہتری کی کافی گنجائش ہے۔
اس طرح سکیل کی عدم موجودگی سے مزید مسائل بڑھ جاتے ہیں جس سے پیداوار کی مجموعی لاگت میں اضافہ شامل ہے۔ اس کے نتیجے میں ریٹیل پرائس میں بالآخر اضافہ ہو جاتا ہے جو عوام کی قوت خرید سے باہر ہو جاتا ہے۔

مختصر مدت کے ٹیکس محصولات کے اہداف کو پورا کرنے کے لئے باضابطہ شعبے کی ترقی کو نقصان پہنچانے کی بجائے وسط سے طویلمدتی مقاصد کے حصول کیلئےضرورت اس بات کہ ہے کہ پائی کے سائز میں اضافے پر توجہ دی جائے۔ ایک اندازے کے مطابق پیکیجڈ دودھ کے مارکیٹ شیئر میں محض 1 فیصد اضافے سے دیہی معیشت پر 40 ارب روپے سے زیادہ کے اثرات ہونگے جس سے 2500 سے زیادہ براہ راست ملازمتیں پیدا ہوں گی۔  پائیکے اضافے سےآگے چل کر زیادہ ٹیکسوصول ہو گا جو کسی قلیل مدتی ٹیکس کی وصولی سے کہیں زیادہ ہے۔

حساب کتاب آسان ہے۔ پیکیجڈ دودھ کے مارکیٹ شیئر میں توسیع کا کثیرالجہتی اثر پڑے گا۔ اس سے معیشت کے بڑے پیمانے پر غیر رسمی طبقے کو باضابطہ شکل دی جا سکے گی، افرادی قوت کیمیں اضافہ، مالی شمولیت میںبہتری، ، کسان کے لئے پیداوار اور آمدنی میںاضافہ، کوالٹی اور غذائیت یقینی بنانے جبکہ طویل مدت تک ٹیکس کی بنیاد میں توسیع بھی ہوگی۔ ایسے وقت میں جب حقیقی معنوں میں دیہی آمدنی میں کمی واقع ہوئی ہے، اور بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے - پیکیجڈ دودھ کے شعبے کو فروغ دینا معاشی طور پر موثر کام ہے۔

معیشت میں لائیواسٹاک کا شعبہ بہت پیچھے رہ گیا ہے جبکہ اس میں ترقی اور ویلیو اڈیشن کی زبردست گنجائش موجود ہے۔ پیکیجڈ  اور پیسچرائزڈ دودھ کی صنعت کو ٹیکس چھوٹ دینے یا بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاریکرنے سے بہتر سماجی و معاشی معاشی نتائج برآمد ہوں گے۔ غیرمتوازن غذائیت ایک قومی بحران ہے ، اور اسی طرح مویشیوں اور زرعی شعبے کی انیمک ترقی ہے۔ یہ صرف ایک مالیپیکج کے ذریعے ممکن ہوسکتا ہے ، چاہے وہ ویلیو ایڈڈ سپلائی چین میں براہ راست سرمایہ کاری کے ذریعے ہویاپھر شعبے کو ٹیکسوں کی چھوٹ دے کر موجودہ اور نئے کھلاڑیوںمراعات دے کر ہو۔ ان اصلاحات سے ہی لائیواسٹاک کے شعبے کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ محض لیکجز اور دودھ کے ضیاع پر قابو پانے سے ملک میں غذائیعدم تحفظ کے شکار لاکھوں بچوں کیلئے دودھ کی دستیابی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ زراعت اور لائیواسٹاک معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ معیشت کے اس اہم شعبے کی مارکیٹ کے ڈھانچے کی اصلاح کیے بغیر کوئی جامع اور پائیدار ترقی نہیں ہوسکتی ہے۔

 مصنف ایک آزاد میکرواکنامسٹ ہیں

 ای میل: ammar.habib@gmail.com

 ٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن