لاہور (خبر نگار) لاہور ہائیکورٹ کے تین رکنی فل بنچ نے عمران خان سمیت دیگر رہنماو¿ں سے تحقیقات کےلئے قائم جے آئی ٹی کی تشکیل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے آئی جی پولیس پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کو باور کرایا کہ آپ وفاقی حکومت کی اجازت کے بغیر جے آئی ٹی کیسے بنا سکتے ہیں؟ آپ بتائیں اور دکھائیں کہ آپ نے وفاق کو کہاں لیٹر لکھا ہوا ہے؟۔ عدالت نے کہا ہے کہ جس دور میں رہ رہے وہ شفافیت کا متقاضی، کسی کی خواہش پرکوئی کام نہیں ہو سکتا۔ وفاقی حکومت کی اجازت کے بغیر صوبہ جے آئی ٹی کےلئے براہ راست ایجنسیوں کے بندے کیسے لے سکتا ہے۔ عدالت نے سماعت آج جمعہ تک کیلئے ملتوی کر دی۔ عدالتی حکم پر اسلام آباد پولیس کا عمران خان کی وارنٹ گرفتاری سے متعلقہ رپٹ کا ریکارڈ عدالت میں پیش کیا۔ آئی جی پنجاب نے رپٹ کی کاپی پڑھ کرسنائی، ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم شکیل احمد نے بتایاکہ کابینہ کمیٹی برائے لاءاینڈ آرڈر نے جے آئی ٹی کی منظوری دی سب کمیٹی بھی کابینہ ہی ہے جس کی منظوری کے بعد کابینہ کی رسمی منظوری کی ضرورت نہیں ہوتی۔ عدالت نے استفسار کیاکہ جے آئی ٹی سے ایس او پیز کدھر ہیں، حکومت پنجاب براہ راست جے آئی ٹی کے لئے ایجنسیوں کے بندے براہ راست کیسے لے سکتی ہے۔ آئی جی پنجاب نے کہاکہ ہم نے جے آئی ٹی کےلئے کبھی وفاقی حکومت سے اجازت نہیں لی۔ سرکاری وکیل نے کہاکہ پراسیکیوٹرکو یہ اختیار نہیں کہ وہ دہشت گردی کی مقدمے سے دفعات ختم کرے یا اس بابت را ئے دے۔ زمان پارک کے واقعہ میں 32کروڑ کا نقصان ہوا اور 89پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ سرکاری وکیل نے کہا کہ پراسیکیوٹر کے پاس یہ احتیار نہیں کہ وہ خود دہشت گردی کی دفعات ختم کرے، لاہور ہائیکورٹ کی ججمنٹ میں عدالت میں پیش کرتا ہوں۔ دو سے تین رہنماﺅں نے انویسٹی گیشن جوائن کی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان شامل تفتیش نہیں ہورہے ہیں کہ درخواست چل رہی ہیں سرکاری وکیل نے کہا کہ درخواست گزاروں نے ابھی تک تفتیش کو جوائن نہیں کیا۔ اس پٹیشن کی آڑ میں درخواست گزار آرام سے بیٹھے ہیں۔ عدالت نے کہاکہ اگر کوئی شامل تفتیش نہیں ہو رہا تو قانون کے مطابق کارروائی کرنے سے کس نے روکا۔ اگر حکم امتناعی اس عدالت نے نہیں دیا تو قانون اپنا راستہ خود لے۔