چودھری شجاعت کو مبارک ہو، الیکشن کمشن نے ان کو پارٹی صدارت سے فارغ کرنے کا چودھری وجاہت کا فیصلہ مسترد کر دیا ہے اور انہیں یعنی شجاعت کو قاف لیگ کی صدارت پر برقرار رکھا ہے۔ فیصلے سے صورتحال میں فرق اس لئے نہیں پڑتا کہ اب قاف لیگ میں صرف ایک ہی دھڑا ہے اور وہ خود چودھری شجاعت کا ہے۔ کچھ عرصہ قبل دو دھڑے تھے، ایک پرویز الٰہی کا اور تب فیصلہ عدالت سے پرویز الٰہی کے حق میں ہوا تھا۔ اپنے حق میں فیصلہ لینے کے کچھ ہی دنوں بعد پرویز الٰہی پی ٹی آئی میں جذب ہو گئے تھے چنانچہ قضیہ عملاً اسی دن ختم ہو گیا تھا۔
چودھری وجاہت صاحب چودھری شجاعت کے غالباً یا شاید بھائی ہیں لیکن انہوں نے وزن پرویز الٰہی کے دھڑے میں ڈالا۔ اس کے بعد سے خاصے تماشے ہوئے۔ جگہ جگہ قاف لیگ کے دفاتر میں آویزاں شجاعت کی تصویریں اکھاڑ کر پھینک دی گئیں، بعض وڈیو کلپ ایسے بھی آئے کہ زمین پر گری ان تصویروں پر رقص مسرّت بھی کیا گیا۔ شجاعت کے خلاف ، بالخصوص مونس الٰہی جو پرویز الٰہی کے ولی عہد بھی ہیں، کی طرف سے شجاعت کے خلاف ٹویٹس بھی آئے۔ ویسے ہی جیسے پی ٹی آئی والے اپنے مخالفوں کے خلاف کیا کرتے تھے، ”وضعداری اور بزرگوں کے احترام“ پر مبنی ٹویٹ۔
پھر گزشتہ دنوں پرویز الٰہی کے گھر چھاپہ پڑا، پولیس گیٹ توڑ کر اندر داخل ہوئی، اس موقع پر چودھری شجاعت ساتھ والے گھر سے تشریف لائے اور پرویز الٰہی کو اپنے ساتھ لے گئے ورنہ وہ رات، کم از کم ، پرویز الٰہی کو جیل ہی میں گزارنا پڑتی۔ چودھری شجاعت نے اپنے خلاف کھولے گئے تمام مورچوں اور کمین گاہوں کو نظر انداز کیا، اب دیکھئے، مونس الٰہی اپنے ”وضعدارانہ اور احترامانہ“ ٹویٹ کا سلسلہ چودھری شجاعت کیخلاف بند کرتے ہیں یا جاری رکھتے ہیں۔
بہرحال، پرویز الٰہی کی پریشانیاں ابھی ختم نہیں ہوئیں۔ غنیمت ہے کہ ان کے ولی عہد گزشتہ کئی ماہ سے سپین کے عافیت کدے میں ہر خطرے اور پریشانی سے محفوظ ہیں۔ یہاں سے جاتے ہوئے شنید ہے کہ محض /25 ارب روپے کی قلیل رقم، زادراہ کے طور پر ساتھ لے گئے، وہاں سو پچاس ارب روپے کے حقیر سے اثاثے البتہ پہلے سے موجود تھے۔ کسی نہ کسی طور پر گزارا ہو رہا ہے۔
٭٭٭٭٭٭
پرویز الٰہی بھی ضمانتوں کے معاملے میں عمران خان کی طرح خوش قسمت ہیں۔ اتفاق کی بات دیکھئے، پاکستان کی پوری تاریخ میں ضمانتوں کے حوالے سے بس یہ دو ہی خوش نصیب جوڑی دیکھنے میں آئی ہے اللہ اس نصیب والی جوڑی کا یہ نصیبہ برقرار رکھے لیکن پریشانیاں، بہرحال ختم نہیں ہوئیں۔ مقدمات برقرار ہیں، نئے مقدمات بننے کی خبریں بھی آتی رہتی ہیں۔
پرویز الٰہی کو ایک پریشانی احساس محرومی یا احساسِ نظراندازی کی صورت میں ضرور لاحق ہوئی ہے۔ ان کی گرفتاری کیلئے آپریشن آٹھ گھنٹے تک جاری رہا لیکن ان سے یک جہتی دکھاتے کوئی لیڈر آیا نہ کارکن حالانکہ وہ اس پارٹی کے تازہ تازہ صدر بنے ہیں۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ چودھری صاحب کو پہلے تو اس کا یقین ہی نہیں آیا کہ اپنے صدر کی حمایت میں کوئی بھی نہیں آیا۔ پھر آہستہ آہستہ یقین آتاگیا اور ساتھ ہی ان پر اُداسی سی چھا گئی ۔ میں کہتا ہوں، اُداس ہونے کی ضرورت نہیں ہے، اس لئے کہ شاید پارٹی والوں کو ابھی پتہ ہی نہ چلا ہو کہ آپ ان کے صدر ہیں۔
چودھری صاحب دبے لفظوں میں یہ شکوہ کرتے بھی پائے گئے ہیں کہ تقریباً ہر روز ہی پارٹی کے ”فیصلہ ساز“ اجلاس بلاتے ہیں لیکن مجھے ان میں بلایا ہی نہیں جاتا۔ میں کیسا صدر ہوں؟ میں کہتا ہوں ”شکوہ کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ وہ بزرگ آدمی ہیں بلکہ معاصر سیاستدانوں میں وہ غالباً نہیں یقیناً عمر رسیدگی کی صف میں وہ سب سے آگے ہیں چنانچہ عین ممکن ہے کہ پارٹی کے کارپردازن ان کی بزرگی کا احترام کرتے ہوئے نہ بلاتے ہوں۔ یہ تو ہمارے ہاں کی سماجی روایت ہے کہ بزرگوں کو زحمت نہیں دی جاتی اور احترام کی جہاں تک بات ہے پی ٹی آئی والوں سے بڑھ کر دوسروں کا (اپنوں کا بھی) احترام کرنے والا کوئی اور ہے ہی نہیں۔
٭٭٭٭٭٭
چودھری صاحب کا ایک رنج اور بھی ہے ان کی گرفتاری تو بے شک نہیں ہو سکی لیکن سات آٹھ گھنٹوں کے دروازہ توڑ آپریشن سے وہ ”متھ“ ٹوٹ گئی کہ وہ ریاست کے لاڈلے ہیں ان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرا¿ت کسی کو ہو ہی نہیں سکتی:
قیامت ہے بھرم کا ٹوٹ جانا!
اس واردات سے وہ خبر بھی سامنے آگئی جو اب تک خفیہ رکھی گئی تھی کہ شیخ رشید کی طرح گیٹ نمبر چار سے انکی بھی فارغ خطی ہو چکی ہے۔ بھرم ٹوٹنے کا یہ نقصان واقعی بہت بڑا اور ناقابل تلافی ہے۔ باالیقین چودھری صاحب کی شان و شوکت کے محل میں اس فارغ خبطی سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ پُر ہونے والا نہیں۔ شیخ جی کو دیکھ لیجئے ان کی زندگی میں بھی سال بھر سے خلا پیدا ہوا تب سے وہ خلا میں معلق ہیں۔
٭٭٭٭٭٭
کچھ بھی ہوا پی ٹی آئی کے صدر کی پریشانی بہرحال پی ٹی آئی کے چیئرمین سے کم ہی ہے۔ وزیرآباد والے وقوعہ کے بعد سے واہمے ان کے سامنے سچ مچ کے بگولے بن کر رقص کرتے رہتے ہیں، تب سے وہ ان سے بچنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ حقیقی آزادی کی جنگ خود کو گرفتاری سے بچانے کی ایک ”دیومالائی“ کوشش پیہم میں بدل چکی ہے:
دیکھے نا ہیں کوئی، مکھڑا چھپا¶
کہیں مورے راجہ پکڑے نہ جا¶
دیکھئے ”مکھڑا چھپا¶ تحریک“ کا یہ قافلہ کہاں جا کر دم لیتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭
شمال مشرقی بھارت کی ریاست منی پور کو جے پی سرکار نے اگنی پور بنا دیا ہے۔ قبائلی غیر قبائلی کے جھگڑے میں مودی کے دہشت گردوں نے عیسائی آبادی کے خلاف ”کروسیڈ“ شروع کر دی ہے۔ وہ ان کے گرجے اور گھر جلا رہے ہیں، بہت سے لوگوں کو پکڑ کر آگ میں پھینک دیا۔ مغربی ممالک بھارت میں مسلمانوں کی روزانہ کی بنیاد پرہونے والی لنچنگ ان کے گھر اور مساجد گرانے، نذر آتش کرنے پر خاموشی سے تماشا دیکھا کرتے ہیں۔ دیکھئے اپنے ہم مذہبوں سے ہونے والے اس ”اتیاچار“ پر بھی لاچار بنے رہتے ہیں یا کوئی شبد ان کے منہ سے نکلتا ہے۔ اس ریاست میں عیسائی اور ہندو برابر برابر تعداد میں ہیں مودی سرکار توازن بدلنا چاہتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭