پی ایم اے سے پاس آﺅٹ ہونے والے بلوچ کیڈٹ

May 05, 2023

خالد بیگ

اس حوالے سے کوئی دوسری رائے نہیں کی پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ بے شمار قدرتی معدنیات کے باوجود برس ہا برس سے نظر انداز چلا آرہا ہے تو دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ اس صوبے کے کم و بیش تمام سرداروں کا شمار پاکستان کے دولت مند ترین افراد میں ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے اس کی وجہ صوبہ بلوچستان میں رائج قبائلی سرداری نظام ہے جو ہر طرح کے جمہوری اصولوں اور جمہور کے حقوق پر اس طرح سے حاوی ہے کہ ان کی مرضی کے بغیر وہاں مظلوم بلوچ عوام تو کیا پرندہ بھی کوئی پر نہیں مار سکتا اور اگر وفاق کی طرف سے بلوچستان کی تعمیر و ترقی، تعلیم و صحت کی مد میں فراہم کیے جانے والے سالانہ فنڈز سے متعلق بات کریں تو انسان دنگ رہ جاتا ہے کہ یہ پیسہ کہاں خرچ ہوا۔ یہ صوبہ بلوچستان ہی ہے جہاں کچھ سرکاری افسران اور بعض سرداروں کے گھروں سے ماضی میں برآمد ہونے والی پاکستانی اور غیر ملکی کرنسی کی گنتی کے لیے لائی گئی مشینیں تک جواب دے گئیں۔
2013ءمیں پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے لیڈر عبدالقادر خان کی طرف سے سپریم کورٹ میں درج کی گئی پٹیشن میں بلوچستان کے وزیراعلیٰ کی جانب سے صوبے میں مختلف ترقیاتی سکیموں کی شفافیت پر بہت سے سوالات اٹھائے گئے تھے۔ چیف جسٹس افتخار چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ مقدمہ کی سماعت کر رہا تھا ۔ اس سماعت کے دوران انکشاف ہوا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان نے ہر رکن صوبائی اسمبلی کو ان کے حلقوں میں تعمیر و ترقی پر کے لیے 250 ملین روپے کے فنڈز فراہم کیے ہیں جبکہ موقع پر یا تو سکیموں پر کام کا آغاز ہی نہیں ہوا تھااور اگر کہیں کام ہوا تو وہ انتہائی غیر معیاری تھا۔ یہ صرف ایک سال کے فنڈز تھے ،جب پانچ برسوں میں ترقیاتی کاموں کی تفصیل اور عرصہ میں نیشنل فنانس کمیشن کی طرف سے کی گئی ادائیگی کی بابت اعداد و شمار سامنے آئے تو یہ پاکستان کے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے لیے بریکنگ نیوز تھی۔ یہی صورتحال بلوچستان میں تعلیم کی مد میں فراہم کیے گئے فنڈز اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں کی طرف سے جاری کی گئی رقوم کے حوالے سے سامنے آئی۔ تو انکشاف ہوا کہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے باہر 32 اضلاع میں محکمہ تعلیم کی طرف سے اساتذہ کے لیے تنخواہیں اور اسکولوں کے لیے پیسوں کی فراہمی جاری ہے جبکہ موقع پر اسکولوں کی تعداد آدھی سے بھی کم نکلی۔
صرف بلوچستان ہی کیوں سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا کے ان تمام علاقوں کا یہی حال ہے جہاں وڈیروں، جاگیرداروں، خانوں اور ملکوںکا غلبہ ہے جبکہ بلوچستان کی صورتحال اس لیے بھی گھمبیرہے کہ وہاں کے تمام اضلاع سرداروں کی طرف سے صدیوں سے نافذ شدہ روایات اور نظام کے زیرتسلط ہیں۔بدقسمتی سے قیام پاکستان کے بعد ہماری وفاقی حکومتوں نے انگریز کی روایت کوبرقرار رکھتے ہوئے سرداروں کو فنڈز کی فراہمی کے ذریعے اپنی حکومتوں کو تحفظ فراہم کرنے کی روش قائم رکھی جس نے وہاں غربت اور بیروز گاری کو مزید ہوا دی ۔ اسی کی آڑ میں بھارت اور دیگر پاکستان دشمن قوتوں نے بے روز گار بلوچ نوجوانوں کو ورغلا کر انھیں بلوچستان میں دہشت گردی اور تخریب کاری کے لیے بطور چارہ استعمال کیا۔ 
تاہم یہ پاک فوج ہی ہے جس نے بلوچستان میںنہ صرف معصوم لوگوں کو بیرونی قوتوں کے آلہ کا دہشت گردوں سے تحفظ فراہم کیا بلکہ بلوچ نوجوانوں کے لیے ہر ضلع میں روز گار کے موقع پیدا کرنے کے علاوہ بلوچستان میں تعلیم کے فروغ کے لیے اہم اقدام کیے۔ ان کے لیے ہنر مندی سیکھنے کے مراکز قائم کیے گئے تاکہ وہ کسی بھی پیشہ سے وابستہ ہوکر بہتر زندگی کی شروعات کرسکیں ۔ پاک فوج کی انھی کاوشوں کا ہی نتیجہ ہے کہ ہزاروں بلوچ نوجوان آج نہ صرف تعلیم کے میدان میں اپنا لوہا منوارہے ہیں بلکہ اب تو پاک فوج میں بھی جگہ بنا رہے ہیں۔ 29 اپریل 2023ءکو آئی ایس پی آر کی جانب سے پاکستان ملٹری اکیڈمی کا کول (پی ایم اے) میں 147 لانگ کورس کی پاسنگ آﺅٹ پریڈ کی تفصیلات سامنے آنے پر 46بلوچ کیڈنس کے بطور آفیسر پاس آﺅٹ ہونے کی اطلاع یقینی طور پر ایک خوشی کی خبر تھی ۔
بلوچستان میں پاک فوج کے خلاف برسوں سے پھیلائے جانے والے زہریلے پروپیگنڈے کے باوجود وہاں سے ایک ہی کورس میں بلوچ نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد کی قومی سلامتی کے ادارے پاک فوج میں بطور آفیسر شمولیت یقینا ان تمام ملک دشمن عناصر کیلئے پیغام ہے جو اٹھتے بیٹھتے پاک فوج پر بلوچستان میں غربت اور پسماندگی کی ذمہ داری ڈالتے نہیں تھکتے اور پاک فوج پر پنجابی فوج کی چھاپ لگاتے آئے ہیں ۔ حالانکہ بطور جوان یا سپاہی ہزاروں بلوچ نوجوان پہلے ہی پاک فوج میں ملک کے تحفظ اور بقا کیلئے خدمات سرانجام دے رہے ہیں ۔ وہاں سے افسران بھی پاک فوج کا حصہ بنتے رہے ہیں۔ پاک فوج کے چوتھے سربراہ جنرل محمد موسیٰ خان کا تعلق بھی بلوچستان ہی سے تھا جنھوں نے 1965ءکی پاک بھارت جنگ میں بطور کمانڈر انچیف خاصی شہرت حاصل کی۔ ان کے علاوہ بھی پاک فوج میں خدمات سرانجام دینے والے بلوچ افسران کی ایک لمبی فہرست ہے لیکن یہ پہلا موقع ہے ایک ہی کورس میں 46 بلوچ کیڈٹس نے پاک فوج میں بطور آفیسر پیشہ ورانہ خدمات کا آغاز کیاہے جو بلوچ نوجوانوں کا پاک فوج پر اعتماد اور ان کی پاکستان سے محبت کا ثبوت ہے۔ 
٭....٭....٭

مزیدخبریں